پٹنہسیتامڑھی

آہ ! میرے ابا مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی رحمہ اللہ

تحریر : ڈاکٹر محمد سراج اللہ حشمت اللہ تیمی

بات 6 جولائی 2023 کی ہے۔ راقم السطور عصر اور مغرب کے درمیان روزنامہ قومی تنطیم پٹنہ کے دفتر میں صحافتی امور کی انجام دہی میں مصروف تھا۔ جب مغرب کی اذان ہوئی تو روزانہ کی طرح دفتر میں جائے نماز بچھائی گئی اور حسب معمول میں نے نماز پڑھائی۔ دو رکعت سنت کی ادائیگی، تسبیح و تہلیل اور مختصر ذکر و اذکار کے بعد ذہنی تکان کے ہلکان کی غرض سے چائے نوشی کے لیے اپنے دفتر سے قریب واقع شان ہلال ہوٹل ، سبزی باغ ، پٹنہ میں جاپہنچا ، جہاں قبل سے ہی اردو کے مستند و معتبر شاعر جناب محمد مصلح الدین کاظم اپنے ایک عزیز محمد فیاض عالم کے ہمراہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ میرے وہاں پہنچتے ہی انہوں نے ہوٹل کے ایک ویٹر کو کھیر لانے کا حکم صادر کیا لیکن میں نے کھیر لانے سے منع کر دیا اور صرف چائے کی فرمائش کی جس کی ویٹر نے فوراً تعمیل کی۔

ابھی چائے کی چسکی لینی شروع ہی کی تھی کہ میرے خالہ زاد بھائی قاری امتیاز احمد تیمی، استاد شعبہ تحفیظ القرآن الکریم ، مدرسہ احمدیہ سلفیہ، ملکی محلہ، آرہ کا فون آیا۔ میں نے چٹ پٹ کال رسیو کی۔ انہوں نے کال رسیو کرتے ہی یکلخت پوچھا کہ کچھ معلوم ہوا ہے ؟ یہ سنتے ہی دل دھک سے رہ گیا، کلیجہ منہ کو آگیا، ہکلاتی زبان میں میں نے کہا نہیں ، مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ انہوں نے لگے ہاتھوں کہا کہ خالو ( یعنی میرے والد محترم مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی) کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے۔ وہ مسلسل خون کی قئ کررہے ہیں ۔ میں نے فوراً ان کی کال کٹ کردی اور چھوٹے بھائی محمد صبغت اللہ کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ ابا مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے وضو کر رہے تھے کہ اسی دوران ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ بی پی کافی لو ہوچکی ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ جتنی جلدی ہوسکے تم لوگ ابا کو سیتامڑھی لےکر جاؤ لیکن ابا وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ گاڑی والا دروازے پر گاڑی لگا چکا تھا جس کو ابا نے واپس بھیج دیا۔ پھر میں نے اپنے دوسرے بھائی محمد منہاج اللہ کو فون کر اس سے کہا کہ بلاتاخیر ابا کو سیتامڑھی لے جاؤ ، میں پٹنہ سے وہاں پہنچ رہا ہوں۔ منہاج اللہ نے گاڑی والے کو دوبارہ فون کر بلایا۔ جب تک گاڑی آئی تب تک گھر میں افراتفری کا ماحول بن گیا۔ امی جان ( اختری خاتون ) کا رو رو کر برا حال ہوگیا۔ بھائیوں اور بہنوں اور دیگر اہلِ خانہ میں شدید بے چینی پھیل گئی ۔ سب کے سب ماہئ بے آب کی طرح تڑپ اور چھٹ پٹ کر رہے تھے۔ کیا بڑا ، کیا چھوٹا ، کیا بیٹی ، کیا بیٹا ، گھر کا ایک ایک فرد آہ و زاریاں کر رہا تھا، چیخ رہا تھا ، چلا رہا تھا۔ ان کے شور و غل اور ہنگاموں سے پورا گھر اور محلہ گونج رہا تھا، ہر طرف غم والم اور ماتم کا بسیرا ہوچکا تھا، پل بھر میں ہی میرے گاؤں ” پرسا ” اور علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح ابا جان کی خرابئ طبیعت کی خبر پھیل گئی ۔

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ گاؤں دیہات کے لوگوں میں یہ خاصیت ودیعت ہے کہ وہ سکھ تو سکھ ، دکھ اور پریشانی کے عالم میں بھی فورا ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں ، دست تعاون دراز کرتے ہیں، خوب خوب ساتھ دیتے ہیں ، سہارا بنتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر و دل کھول کر مدد کرتے ہیں، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے میری والدہ ، میرے بھائیوں، بہنوں اور اہلِ خانہ کو ڈھارس بندھانے، سہارا دینے کے مقصد سے محلہ اور گاؤں کے لوگوں کا میرے گھر پر جم غفیر لگ گیا۔

ادھر تھوڑی دیر میں ایک بار پھر گاڑی دروازے پر آکھڑی ہوئی۔ بھائی محمد منہاج اللہ ، محمد مشکوۃ اللہ ، محمد مصباح اللہ، محمد صبغت اللہ ، بہن فردوس بریں ، کوثر سیمیں اور دیگر کئی رشتہ دار ابا جان کو لے کر رات کے تقریباً 09:00 بجے سیتامڑھی کے ایک پرائیوٹ اسپتال میں پہنچے ، جہاں ڈاکٹر نے انہیں ایمرجنسی وارڈ میں بھرتی کرلیا ، مگر حالت نازک ہونے کے سبب دو ڈھائی گھنٹے بعد ہی وہاں سے ریفر کر دیا۔ اس دوران پٹنہ سے سیتامڑھی جانے کے لیے میں رخت سفر باندھنے والا ہی تھا کہ منہاج الله اور مصباح اللہ نے فون کر بتایا کہ بھیا! ڈاکٹر نے ابا کو اپنے یہاں سے لے جانے کے لیے کہدیا ہے۔ ہم لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں اور کہاں لے جائیں۔ میں نے کہا کہ کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ابا کو فوراً پٹنہ لے کر آجاؤ ، یہاں کسی اچھے اسپتال میں بھرتی کرائیں گے اور ان شاءاللہ سب کچھ ٹھیک رہےگا۔ جب یہ بات ابا کو معلوم ہوئی تو انہوں نے پٹنہ آنے سے یہ کہہ کر منع کیا کہ وہاں جو بھی جاتا ہے مرجاتا ہے، وہ زندہ اپنے گاؤں نہیں لوٹ پاتا ہے۔ پہلے بھی وہ بارہا ایسی باتیں مجھ سے کہہ چکے تھے۔ میں نے ابا محترم سے ان کی حیات میں کئی بار کہا تھا کہ پٹنہ آئیے، آپ کا علاج کرادوں گا۔ امی بھی پچھلے دو ڈھائی برسوں سے بستر علالت پر ہیں، ان کے علاج کے لیے بھی انہیں پٹنہ لانے کی میں نے ہر چند کوششیں کیں ، مگر ہر بار ابا مجھے یہ کہہ کر منع کردیتے کہ اس عمر میں گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ اگر باہر موت ہوجائے گی تو لاش کو گھر لانے میں خواہ مخواہ کی پریشانی ہوگی اور عجیب اتفاق ہے کہ ابا جس بات سے ڈرتے تھے ان کے ساتھ وہی بات ہوگئی۔ دراصل کورونا کے ہلاکت، فلاکت اور قیامت خیز دور کے دوران یہاں جس طرح کے کیسیز دنیا کے روبرو اجاگر ہوئے ان کی وجہ سے گاؤں، دیہات کے لوگوں میں یہ تصور عام ہے کہ پٹنہ جانے کے بعد مریض عام طور پر وہیں انتقال کرجاتا ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہاں پرائیوٹ تو پرائیوٹ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں ، کمپاؤنڈروں ، نرسوں، میڈیکل کے طالب علموں ، یہاں تک کہ سیکورٹی گارڈوں کا رویہ بہت ہی شرمناک ، بلکہ ظالمانہ اور غیر انسانی ہوتا ہے۔ انسانیت اور رواداری سے ان سب کا رشتہ وابستہ ہوتا ہی نہیں۔ انہیں بیماروں اور ان کے تیمارداروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی، ان کی نگاہیں صرف بل کو لمبا کرنے اور روپے بٹورنے پر ہوتی ہیں۔وہ ان کے ساتھ نرمی، ہمدردی جتانے کے جذبے سے مکمل طور پر عاری و خالی ہوتے ہیں۔وہ بات کرنے کا سلیقہ و طریقہ بھی نہیں جانتے ہیں۔ آداب گفتگو سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں، اگر واقف ہوتے بھی ہیں تو وہ بے پناہ گھمنڈ اور کبر و غرور میں چور ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہی سب کچھ ہیں، ان کے نزدیک بیماروں اور تیمارداروں کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ اچھے برتاؤ اور حسن سلوک کے بھی لائق نہیں۔ خیر ! ابا کے انکار کرنے کے باوجود انہیں سمجھا بجھا کر پٹنہ لایا گیا۔ ظاہر سی بات ہے بہار میں پٹنہ کو ہی مرکزیت حاصل ہے۔ یہاں فجر کے وقت تقریباً ساڑھے تین چار بجے وہ لوگ پہنچے، جہاں ابا کو ایک بڑے سرکاری اسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں بھرتی کرایا گیا۔ وہاں کے جونئیر ڈاکٹروں، بلکہ میڈیکل کے طالب علموں اور نرسوں نے علاج کیا، مگر ہم بھائیوں اور بہنوں کو ان کے طریقہ علاج اور ناروا سلوک سے اطمینان نہیں تھا۔ ابا کو آئی سی یو میں رکھا جانا چاہیے تھا، اس لیے کہ آکسیجن کی بہت کمی تھی اور کئی طرح کی پریشانیاں تھیں۔ وہ ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ پر صبح چار بجے سے رات کے ساڑھے نو بجے تک تڑپتے رہے، بےچین ہوکر دائیں بائیں کروٹ بدلتے رہے، پیاس سے نڈھال تھے، ان کا گلا خشک ہو چکا تھا، بار بار پانی طلب کررہے تھے، مگر لاکھ چاہنے کے باوجود انہیں پانی پلانے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔اپنے ساتھ ہونے والے اس غیر انسانی سلوک سے ابا بہت بد دل ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اضطراری حالت میں بھی ابا یہ کہتے رہے کہ ” ڈاکٹر سراج اللہ ! یہاں سے مجھے لے چلیے” ۔ میں انہیں تسلی دیتا رہا کہ ابا! گھبرائیے نہیں، آپ ٹھیک ہوجائیے گا۔ میں مسلسل دعائے ماثورہ اور معوذتین پڑھ کر ان پر دم کرتا۔ بآواز بلند میں جب کلمہ پڑھتا تو ابا بھی پڑھتے۔اسی دوران جمعہ کا وقت ہوچلا۔ میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلا گیا۔ نماز کے بعد اسپتال لوٹنے کے لیے ابھی تیار ہوا ہی تھا کہ بھائی قاری امتیاز تیمی نے فون کر بتایا کہ وہ ، بہن عائشہ جبیں، ماموں حافظ محمد رضاءاللہ سلفی، حافظ محمد ثناء اللہ سلفی، پروفیسر محمد امان اللہ راہی اور سرفراز صدیقی (پیکس صدر) گاؤں سے ابا کی عیادت کے لیے پٹنہ آرہے ہیں۔ چھوٹی بہن نغمہ توحید بھی اپنے شوہر محمد اشرف عرف پیارے کے ساتھ آرہی ہے، چنانچہ میں ان لوگوں کے کھانے کا انتظام کرنے لگا۔کچھ ضروری سامانوں کی خریداری کے لیے بازار چلا گیا جس کے سبب اسپتال ابا کے پاس لوٹنے میں قدرے تاخیر ہو گئی۔ ابا کو مجھ سے نہ جانے کیوں جنون کی حد تک محبت تھی جسے میں بخوبی محسوس کرتا تھا۔ابا مجھے اپنے پاس موجود نہیں پاکر بہت بے چینن ہوگئے۔ میرے بیٹے عبد اللہ سراج نے اپنی امی ( طلعت جبیں ) کو فون کر دریافت کیا کہ ابو ابھی تک اسپتال کیوں نہیں آئے ہیں؟ دادا جان ان کو تلاش رہے ہیں۔ ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر سراج اللہ اور حارث بابو ( میرے ہمزلف) کو بلاؤ۔ جب میں وہاں پہنچا تو فوراً وارڈ میں ابا کے پاس گیا۔ اس وقت ان کی حالت مزید بگڑی ہوئی نظر آئی۔ میں نے ابا سے کہا کہ کیا آپ مجھے تلاش رہے تھے؟ میں آگیا ہوں ، کہیے نا ابا، کیا کہنا چاہ رہے تھے، مگر انہوں نے جو جواب دیا وہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا، چونکہ آواز میں بڑی نقاہت تھی، چنانچہ میں نے ان سے سرگوشی کرنے کی کوشش کی، پھر بھی میرے کان ان کی باتوں کی واضح سماعت سے قاصر تھے۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔ وہاں موجود غیر مہذب اور انسانیت سے عاری میڈیکل عملہ سے عاجزانہ گزارش، بلکہ فریاد کی کہ اب بھی آپ لوگ میرے ابا کو آئی سی یو میں لے چلیے، مگر ان لوگوں نے آئی سی یو میں ابا کو شیفٹ نہیں کیا۔ بلکہ الٹے آنکھ بھنؤں چڑھاتے ہوئے ہم سے کہا کہ آپ لوگ ان کو پرائیوٹ اسپتال میں لے جائیے۔اس وقت ہم لوگ ابا کو پرائیوٹ اسپتال میں لے جانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں تھے۔ حالت بھی نازک ہوچکی تھی۔ اس لیے ہم سب بھائی بہن چاہتے تھے کہ ایمرجنسی وارڈ سے وہیں آئی سی یو میں شیفٹ کیا جائے۔ میں نے سفارش ( ایپروچ ) کےلیے اپنے تعلقات کے کئی نامور لوگوں، ڈاکٹروں اور سیاسی لیڈروں سے رابطے کئے، ایک ایم ایل سی صاحب کے دروازے پر بھی دستک دی، مگر سب نے ہاتھ کھڑے کردیے، کسی نے بھی مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا۔

اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ سکھ کا ساتھی ہر کوئی، دکھ کا ساتھی کوئی نہیں۔ابا کو آئی سی یو میں بھرتی کیسے کرایا جائے اور ان کی جان کیسے بچائی جائے، اس کو لے کر میں، مصباح اللہ اور چچازاد بھائی ہدایت اللہ صدیقی ایمرجنسی وارڈ سے باہر ماتھاپیچی کررہے تھے۔ اسی دوران ایمرجنسی وارڈ کے اندر سے بہن فردوس اور بھائی منہاج اللہ چیختے چلاتے ہوئے باہر آئے اور کہنے لگے بھیا ! ایک ڈاکٹر نے ابا کے گلا کو زور سے دبایا ہے اور وہ وہاں سے فرار ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ہی ابا کی آنکھیں پلٹ گئی ہیں۔ میں دیوانہ وار ایمرجنسی وارڈ کی طرف دوڑ پڑا۔ میرے اندر جاتے ہی سبھی بھائی بہن زور زور سے رونے اور چیخنے چلانے لگے، جسے سن اور دیکھ کر وہاں کے بدتمیز و بدقماش اسٹاف دھکےمکے کرنے لگے اور سب کو وارڈ سے باہر کردیا۔ میں نے ضد کی کہ کسی بھی حالت میں میں یہاں سے نہیں جاسکتا۔میں سی سی ٹی وی چیک کرانا چاہتا ہوں کہ کس نے میرے ابا کے ساتھ درندگی کی ہے۔ جس کے بعد مجھے یہ جھوٹی تسلی دی گئی کہ ابھی زندہ ہیں، ان کی سانس چل رہی ہے۔ میں ابا کے پاس کھڑا رہا، ان کی شفایابی کی دعائیں کرتا رہا ، مگر ان کی موت کا فرشتہ وہاں آچکا تھا۔ ابا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھا جسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گویا انہوں نے نماز ادا کی ہو، پھر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ سے سامنے ایسے اشارہ کیا کہ مانو ابا فرشتے کو بلا رہے ہوں اور اس سے کہہ رہے ہوں کہ میرے بچوں نے مجھے ہمدردی کے جذبے سے عاری ، غیر انسانی سلوک کرنے والے ڈاکٹروں ، کمپاؤنڈروں اور نرسوں کے نرغے میں رکھا ہوا ہے، تم مجھے یہاں سے اپنے ساتھ لے چلو، اب مزید مجھے انسانیت کو شرمسار کرنے والے ان سنگ دلوں کے درمیان نہیں رہنا ہے۔اب میں اس عارضی دنیا سے دائمی دنیا میں جانا چاہتا ہوں۔ مجھے جتنی جلد ہوسکے اس پرفتن و پر آشوب دور اور یہاں کے مایاجال سے نجات دلا دو اور میرے اپنے رب اعلیٰ و مالک حقیقی کے پاس لے چلو، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں، پلیز! اب مزید تاخیر مت کرو،چلو، لے چلو، میں مکمل طور پر تیار ہوچکا ہوں۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے (7 جولائی، 2023 کو ) رات کے تقریباً ساڑھے نو بجے اسی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ نمبر 2 پر ابا کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، انہوں نے ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلیں، ہم سبھی کو داغ مفارقت دے دیا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ میں نے ارشادات ربانی و فرمودات الہی ” كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ( سوہ آل عمران: 185) ، ” كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ (سورہ الرحمٰن : 26-28) ، اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يُدۡرِكْكُّمُ الۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُرُوۡجٍ مُّشَيَّدَةٍ‌ ؕ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ حَسَنَةٌ يَّقُوۡلُوۡا هٰذِهٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ‌ ۚ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ سَيِّئَةٌ يَّقُوۡلُوۡا هٰذِهٖ مِنۡ عِنۡدِكَ‌ ؕ قُلۡ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ‌ ؕ فَمَالِ ھٰٓؤُلَۤاءِ الۡقَوۡمِ لَا يَكَادُوۡنَ يَفۡقَهُوۡنَ حَدِيۡثًا ( سورۃ النساء: 78) نیز قضا وقدر پر ایمان رکھتے ہوئے، موت کو برحق مانتے ہوئے اور ابا جان کی اتنے دنوں تک کی ہی حیات تھی کو تسلیم کرتے ہوئے ” انا للہ وانا الیہ راجعون ” پڑھا، ایمرجنسی وارڈ سے باہر آکر بھائیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کو دل پر پتھر رکھ کر یہ جانکاہ خبر سناتے ہوئے ان سب کو بھی ” انا للہ وانا الیہ راجعون ” پڑھ لینے کی تلقین کی۔ حالانکہ ابا کی روح قفس عنصری سے پرواز ہوتے ہی مجھے شدید صدمہ پہنچا اور فوراً یاد آیا کہ جب اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ” اگر میرے سینے پر احد پہاڑ بھی رکھ دیا جاتا تو میں اتنا چکنا چور نہیں ہوتا جتنا ان کے انتقال کے صدمے سے ہوں۔

میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اسپتال کی فرش پر نڈھال دیکھا تو بخاری شریف کی وہ روایت یات اگئی جب ہمارے پیارے رسول کے انتقال کی خبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملی تو پہلے تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا ، یہاں تک کہ انہوں نے میان سے تلوار نکال لی اور دیوانہ وار کہنے لگے کہ جو کوئی بھی کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا ہے تو میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں گا۔ یہ خبر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملی تو انہوں نے مسجد نبوی میں اصحابِ رسول کو جمع کیا، ممبر پر چڑھے اور قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ (آل عمران : 144)۔ پھر فرمایا : ” ألا مَن كانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فإنَّ مُحَمَّدًا قدْ مَاتَ، ومَن كانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فإنَّ اللَّهَ حَيٌّ لا يَمُوتُ۔ ” بخاری شریف میں یہ پوری روایت اس طرح منقول ہے : أنَّ أبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه أقْبَلَ علَى فَرَسٍ مِن مَسْكَنِهِ بالسُّنْحِ، حتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ يُكَلِّمُ النَّاسَ حتَّى دَخَلَ علَى عَائِشَةَ، فَتَيَمَّمَ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهو مُغَشًّى بثَوْبِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عن وجْهِهِ ثُمَّ أكَبَّ عليه فَقَبَّلَهُ وبَكَى، ثُمَّ قالَ: بأَبِي أنْتَ وأُمِّي، واللَّهِ لا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أمَّا المَوْتَةُ الَّتي كُتِبَتْ عَلَيْكَ، فقَدْ مُتَّهَا. قالَ الزُّهْرِيُّ: وحدَّثَني أبو سَلَمَةَ، عن عبدِ اللَّهِ بنِ عَبَّاسٍ، أنَّ أبَا بَكْرٍ خَرَجَ وعُمَرُ بنُ الخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقالَ: اجْلِسْ يا عُمَرُ، فأبَى عُمَرُ أنْ يَجْلِسَ، فأقْبَلَ النَّاسُ إلَيْهِ، وتَرَكُوا عُمَرَ، فَقالَ أبو بَكْرٍ: أمَّا بَعْدُ فمَن كانَ مِنكُم يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فإنَّ مُحَمَّدًا قدْ مَاتَ، ومَن كانَ مِنكُم يَعْبُدُ اللَّهَ فإنَّ اللَّهَ حَيٌّ لا يَمُوتُ، قالَ اللَّهُ: {وَما مُحَمَّدٌ إلَّا رَسولٌ قدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ} إلى قَوْلِهِ {الشَّاكِرِينَ}، وقالَ: واللَّهِ لَكَأنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أنَّ اللَّهَ أنْزَلَ هذِه الآيَةَ حتَّى تَلَاهَا أبو بَكْرٍ، فَتَلَقَّاهَا منه النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَما أسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إلَّا يَتْلُوهَا فأخْبَرَنِي سَعِيدُ بنُ المُسَيِّبِ، أنَّ عُمَرَ قالَ: واللَّهِ ما هو إلَّا أنْ سَمِعْتُ أبَا بَكْرٍ تَلَاهَا فَعَقِرْتُ، حتَّى ما تُقِلُّنِي رِجْلَايَ، وحتَّى أهْوَيْتُ إلى الأرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلَاهَا، عَلِمْتُ أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قدْ مَاتَ "۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خطاب سنا تو اس بات پر یقین تو کرلیا کہ اب ہمارے پیارے رسول ہمارے درمیان حیات سے نہیں ہے، داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، مگر اس صدمہ اتنا زیادہ ہوا کہ وہ وہیں مسجد نبوی میں ہی فرش پر ویسے ڈھیر ہوگئے جیسے آندھی طوفان میں درخت اور اس ڈالیاں و ٹہنیاں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ ابا کی موت پر میرے بھائیوں اور بہنوں کی بھی تقریباً یہی صورت حال تھی۔ میں پہلے خود کو اور پھر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو سنبھالا۔ اس کے معا بعد ہی آناً فاناً میں ایک ایمبولینس اور ایک اسکارپیو ریزرو کیا اور تین، ساڑھے تین بجے ہم سبھی بھائی بہن شکستہ دلوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں پرسا ، پریہار ، سیتامڑھی پہنچے۔ وہاں پہلے سے ہی لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ بڑے ماموں حافظ رضاءاللہ سلفی، ثناء اللہ سلفی، پروفیسر امان اللہ راہی، چچا محمد رحمت اللہ اور ماسٹر عبد الصمد وغیرہم کے ساتھ مل بیٹھ کر نماز جنازہ کا وقت اتفاق رائے سے 2:00 بجے کا طیے کیا تاکہ تمام مساجد کے مصلیان نماز ظہر سے فارغ ہوجائیں اور تجہیز وتکفین میں شرکت کریں۔ ابا جان کو میں نے اور میرے ماموں زاد بھائی حافظ محمد ذکاء اللہ سمیت چار لوگوں نے سنت کے مطابق غسل دلایا۔ 01:45 بجے ابا کو جنازہ گاہ لے گئے۔ 02:00 میں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازہ میں گاؤں اور دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کئی بزرگوں نے مجھے بتایا کہ ہم لوگوں نے اپنی زندگی میں یہاں کسی کے جنازہ میں اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی۔ جنازہ گاہ سے لے کر قبرستان تک جن سیلاب امڈ پڑا تھا۔ جب میں ابا جان کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تو آنکھیں آبدیدہ تھیں۔

مجھے یاد آرہا تھا کہ ہمارے پیارے رسول صلی الله عليه وسلم کی قبر پر جب مٹی ڈال کر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ لوٹے تھے تو ان پر جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نگاہ پڑگئی تو انہوں نے لڑکھڑاتی زبان میں کہا کہ اے حسان تم نے اپنے ان ہاتھوں سے کیسے میرے ابا کی قبر پر مٹی ڈالا ہے۔ اس واقعہ کو یاد کرکے میں سوچ رہا تھا کہ قبرستان سے لو ٹوں گا اور کہیں امی جان پوچھ دیں گی کہ بیٹا تو نے کیسے اپنے ابا کی قبر پر مٹی رکھی تو میں انہیں کیا جواب دوں گا۔ لیکن امی کو کہاں ہوش تھا کہ وہ مجھ سے ایسا سوال پوچھتیں۔ وہ تو خود غم سے نڈھال تھیں اور انہیں میں ڈھارس باندھ رہا تھا۔ معتبر ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ عید الاضحیٰ کی شب میں ابا محترم حافظ محمد مطیع الرحمان رحمتہ اللہ کے بیٹے میں رضی الرحمن کے پاس گئے اور ان سے بتایا کہ ” میں نے دو تین دنوں قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ آپ کے والد صاحب اور میرے خسر محترم مولانا محمد ادریس سلفی رحمہما اللہ دونوں میرے گھر تشریف لائے تھے۔ میں نے ان کی ضیافت کے لیے دسترخوان بچھایا اور نہایت عمدہ قسم کا ناشتہ کرایا۔ جب ان لوگوں نے ناشتہ کرلیا تو مجھے کہا کہ چترویدی صاحب آپ نے اپنے یہاں ہماری دعوت کردی، اب آپ ہماری دعوت قبول کیجیے اور ہمارے ساتھ چلیے تو میں نے ان دونوں سے کہا کہ ابھی میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گا، مجھے بہت سارا کام کرنا باقی ہے۔ میرے انکار کرنے کے باوجود وہ دونوں مجھے اپنے ساتھ لے چلنے کے لیے مسلسل اصرار کرتے رہے، بالآخر میں نے ان دونوں سے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ لوگ چلیے، میں بعد میں آتا ہوں۔ اس کے بعد میرا خواب ٹوٹ گیا اور میں نیند سے بیدار ہوگیا۔ ” مجھے لگتا ہے ابا محترم کا انتقال ان کے اس خواب کی سچی تعبیر ہے۔

ابا جان کا نام محمد حشمت اللہ اور لقب چترویدی تھا۔ان کے والد کا نام محمد صدیق، دادا کا محمد جمعدار اور پڑدادا کا محمد منصف تھا۔ والدہ کا نام فرمودن خاتون تھا۔ ابا پانچ بھائی تھے، جن میں ماسٹر محمد قاسم رحمہ اللہ، محمد ہاشم رحمہ اللہ، محمد رحمت اللہ اور ماسٹر عبد الصمد مدرس ہائر سیکنڈری اسکول، پرسا کے نام شامل ہیں۔ تین بہنوں میں دو مبینہ خاتون اور سفینہ خاتون کا انتقال ہو چکا ہے۔ جنیسہ خاتون حیات سے ہیں۔ (اللہ انہیں لمبی عمر دے) ۔ ابا کی شادی معروف وجید عالم دین، مناظر اسلام مولانا محمد ادریس سلفی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر مسمی بی بی اختری خاتون سے 1976 میں ہوئی تھی۔ پہلے نکاح ہوا۔ دو تین برسوں بعد رخصتی۔ ابا کے پاس مجموعی طور پر دس اولاد ہیں، جن میں پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں میں راقم السطور ڈاکٹر محمد سراج اللہ، حافظ محمد مشکوۃ اللہ، محمد منہاج اللہ، محمد مصباح اللہ اور محمد صبغت اللہ اور بیٹیوں میں عائشہ جبیں ( عرشی )، فاطمہ زہرا (نصرت) ، فردوس بریں، کوثر سیمیں اور نغمہ توحید ہیں۔ ایک بیٹے محمد سلامت اللہ کا انتقال صغرسنی (بچپن) میں ہی ہوگیا تھا۔ ابا جان کی ولادت باسعادت 10 /جنوری 1955 کو ہوئی تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مڈل اسکول وشنو پور سے حاصل کی تھی۔ چھوٹے ابا ماسٹر عبدالصمد کی روایت کے مطابق ابا بچپن سے ہی بہت ذہین و فطین اور پڑھنے میں کافی تیز تھے۔ اپنے کلاس کے ٹاپر تھے۔ ہر کلاس میں اچھے نمبرات لاتے اور ٹاپ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے کلاس ساتھیوں میں حسد کی آگ ہمیشہ بھڑکی رہتی تھی۔ وشنو پور میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، اسکول میں بھی ہندو طالب علموں کی بڑی تعداد تھی، ان لوگوں کو یہ بالکل بھی گوارا نہیں تھا کہ کوئی مسلمان لڑکا اسکول میں ٹاپ کرے۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھیوں نے بانس کی درجنوں چھڑیاں کاٹ کر تیار کیں، تاکہ انہیں ان چھڑیوں سے مار مار اور پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ اس کی اطلاع ابا کے ایک

مخلص وہمدر ہندو دوست نے ہی انہیں دے دی ۔ اس نے اسکول جانے سے سختی سے منع کیا اور کہا کہ دوست! اگر تمہیں اپنی جان پیاری ہے تو اسکول مت آنا۔ یہاں سے ٹی سی لے کر کہیں دوسری جگہ ایڈمیش کرالو۔ ہمارے ساتھیوں نے تمہیں جان سے مارڈالنے کے مقصد سے بانس کی درجنوں چھڑیاں تیار کر رکھی ہیں۔ جب یہ خبر میرے دادا جان محمد صدیق رحمہ اللہ کو ملی تو انہوں نے بھی ابا کو وشنو پور اسکول میں جانے اور پڑھنے سے روک دیا، بلکہ خود اسکول گئے اور پرنسپل سے ملاقات کر ساری باتیں بتائیں۔ ساتھ ہی ان سے کہا کہ اب میرا بیٹا آپ کے اسکول میں نہیں پڑھے گا، اس لیے آپ مجھے اس کا ٹی سی دے دیجیے۔ پرنسپل نے فوری طور پر یہ کہہ کر ٹی سی دینے سے انکار کردیا کہ حشمت اللہ ہمارے اسکول کا مثالی طالب علم ہے۔

میں اس کو یہاں سے لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا، مگر دادا جان نے ضد کی کہ مجھے ہرحال میں ٹی سی چاہیے۔ ہم اپنے بیٹے کو یہاں پڑھا کر اس کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔مجھے ڈر ہے کہ یہاں کے بدقماش بچے میرے بیٹے کو مار ڈالیں گے۔ دادا کے اصرار پر پرنسپل نے ٹی سی دے دیا۔ اس کی بنیاد پر ابا کا داخلہ پریہار مڈل اسکول میں کرایا گیا۔ وہاں سے ابا نے ساتویں کلاس پاس کی۔ اس کے بعد مڈل اسکول سے متصل واقع شری گاندھی ہائی اسکول پریہار کے آٹھویں کلاس میں داخلہ لیا، جہاں سے 1972 میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا ۔

اسی سال گوئنکا کالج سیتامڑھی میں داخلہ لیا ، جہاں سے 1974 میں آئی ایس سی کیا۔ گوئنکا کالج سے ہی 1976 میں بی ایس سی آنرز کیا۔ 1976 میں ہی ایم ایس سی کے لیے بہار یونیورسٹی، مظفرپور میں داخلہ لیا۔ اسی دوران ٹیچر ٹریننگ کالج، شیوہر میں بھی ایڈمیش ہوگیا جس کا سیشن 1981-1979 تھا۔ ابا نے ٹریننگ کرنے کو ترجیح دی۔ ٹریننگ مکمل ہوتے ہی ٹرینڈ گریجویٹ اسکیل پر ان کی بحالی بحیثیت مدرس مدرسہ اسلامیہ، مادھو پور، چریا، ڈھاکہ، ضلع مشرقی چمپارن میں ہوگئی۔

1985 میں بہار یونیورسٹی سے ایم ایس سی مکمل کیا۔ جس کے بعد 1987 کے جون میں رحمت گرلس ہائی اسکول پرسا، مستی چک ، چھپرا میں بحیثیت میتھمیٹکس ٹیچر بحال ہوئے۔ بعد میں امگاؤں، مدھوبنی، میناپور، مظفر پور، سرائے، حاجی پور میں تبادلہ ہوا۔ کئی برسوں تک شری گاندھی ہائی اسکول پریہار میں فریضہ درس وتدریس انجام دیا ۔1996 – 1995 میں ان کا تبادلہ شری کیشور مکھیہ لال ہائی اسکول، بھسوا بازار، ضلع سیتامڑھی میں ہوا جہاں تقریباً 20 برسوں تک تدریسی فرائض انجام دئیے۔اس دوران بحیثیت پرنسپل بھی انہوں نے کئی برسوں تک خدمات انجام دیں۔ وہاں سے 2015 میں سبکدوش ہوئے تھے۔
ابا کے اساتذہ میں ماسٹر صوبیدار وشنو پور، ماسٹر سورج دیو پنڈت، ماسٹر عبدالمنان اکڈنڈی،محمد معین الدین شاہ پور باجپٹی، ماسٹر ابوالحسن پرسا اور ماسٹر محمد قاسم پرسا وغیرہم کے نام قابلِ ذکر ہیں( ان سبھی کا انتقال ہوچکا ہے) جبکہ شاگردوں میں پروفیسر شہاب الدین، سابق استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، عبد الصمد کیرانی، عبد الماجد، عبد الغفار صدیقی، پروفیسر محمد امان اللہ راہی، ماسٹر عبدالصمد، اور ماسٹر انیس الرحمٰن شمسی وغیرہم کے نام شامل ہیں۔
ابا پیکر اخلاق اور مجسمہ سیرت وکردار، قاطع شرک وبدعت، ماحئ کفر و ضلالت، حامل کتاب وسنت اور ماہر وید پران تھے۔ نہایت نیک صفت اور صاحب زہد ورع تھے۔ ابتدائی زندگی شرک وبدعت کی گھنگھور گھٹاؤں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے گزری، مگر شادی کے بعد نانا جان مولانا محمد ادریس سلفی رحمہ اللہ کی صحبت و معیت میں رہنے کا موقع ملا تو ان کے علم سے بھرپور اکتساب کیا۔ ابا کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں تھے، بلکہ کبھی مدرسہ میں پڑھا ہی نہیں۔ ذاتی طور پر قرآن کریم، کتب احادیث اور دیگر بہت سارے ادیان و فرق کی کتابوں کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے چونکہ مطالعات کتب کا حسین ذوق وشوق پایا تھا، بلکہ اس کے بڑے دلدادہ اور رسیا تھے، اس لیے جب انہیں میرے نانیہال میں قرآن کریم، کتب احادیث اور دیگر سینکڑوں کتاب وسنت پر مبنی مستند کتابیں دستیاب ہوئیں تو ان کا خوب خوب مطالعہ کیا اور ان سے جو روشنی ملی تو شرک وبدعت سے بیزار اور توحید کے بہت بڑے علمبردار ہوگئے۔ توحید کے سایے میں آنے کے بعد انہیں گھر، محلہ، گاؤں اور علاقوں میں مشرکین و مبتدعین کی سخت مخالفت و مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑی تعداد میں مبتدعین و مشرکین ان کے نہ صرف دشمن ہوگئے ،بلکہ ان کی زندگی کا چراغ گل کردینے کی خوب خوب سازشیں رچیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ابا کو اپنی حفاظت میں رکھا اور معاندین و مخالفین کو کبھی بھی ان کے ناپاک مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سچ کہا ہے کسی شاعر نے:
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
میرے ابا محترم مدرسہ سے فارغ نہیں ہونے کے باوجود دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی مزاج کے حامل تھے۔ شادی کے بعد سے ہی نانا محترم کے ساتھ جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت شروع کردی تھی۔ انہی دنوں بہار یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے دوران مظفر پور میں قیام کے دوران میرے خسر محترم معروف داعی ، خطیب ، مقرر و مبلغ مولانا محمد مطیع الرحمٰن چترویدی/ حفظہ اللہ سے باربار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انہی سے ابا نے ویدوں کے مطالعہ کا ذوق و شوق پایا اور دن رات رگ وید، یجر وید، سام وید، اتھر وید، گیتا، رامائن، مہابھارت، منواسمرتی، بائبل اور دیگر کتابوں کا عمیق مطالعہ کیا۔ ادیان وفرق کی کتب کا تقابلی مطالعہ قابل رشک تھا۔ ان کی تحقیق بڑی معیاری، مستند اور قابل اعتماد تھی۔ وہ بلند پایہ چترویدی اور ویدوں کے بڑے ماہر تھے۔ قرآنی آیات، سورتیں، احادیث اور دعائیں بھی بہت یاد تھیں۔ میں جب قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پاتا تو لگتا کہ آپ حافظ قرآن کریم ہیں۔ جب احادیث پڑھتے ہوئے سنتا تو اندازہ ہوتا کہ آپ کو سینکڑوں احادیث ازبر ہیں۔ جب دعاؤں کا ورد کرتے دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ ان سے زیادہ کسی کو دعائیں یاد نہیں ہوں گی۔ جب ویدوں کے اشلوک پڑھتے ہوئے سنتا تو یقین کرنا پڑتا کہ ابا کے مقابلے کا کوئی چترویدی نہیں۔ چاروں وید، منو اسمرتی، مہابھارت، گیتا، رامائن اور بائبل پر انہیں بڑا عبور حاصل تھا۔ معلوم پڑتا تھا کہ وہ ویدوں کے حافظ ہیں۔ کتاب وسنت پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔ اردو زبان وادب اور پاکیزہ شاعری سے بھی ان کا رشتہ بڑا گہرا تھا۔ انہوں نے نہایت سادگی، عاجزی، انکساری دینداری و تقوی شعاری کے ساتھ پوری زندگی گزاری۔ تقریباً 47-45 برسوں تک دعوتی خدمات انجام دیں۔ جب میں کم عمر تھا اور موبائل کا دور دورہ نہیں تھا تو جلسو اور کانفرنسوں میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے مہمانوں کا سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ ایک مہمان جاتے تو دوسرے آدھمکتے۔ کبھی کبھی تو کئی کئی جگہوں کے مہمان جمع ہو جاتے تھے۔ ابا ایک جلسہ سے گھر آتے اور پھر دوسرے جلسہ کے لیے نکل پڑتے۔

کبھی کبھی بغیر دعوت کے بھی گاؤں اور آس پاس کے اضلاع میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کرنے چلے جاتے تھے۔ آج بعض لوگ خطابت کے میدان میں پیشہ ور بنے ہوئے ہیں اور ایک ایک پروگرام کے لیے ہزاروں روپیے لیتے ہیں، بلکہ پہلے ہی اپنی اکاؤنٹ پر منگوا لیتے ہیں، ابا نے کبھی خطیر رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔کرایہ کے کچھ پیسے مل گئے تو ٹھیک، نہیں ملے تو بھی ٹھیک۔ انتظامیہ کو پھٹکار نہیں لگاتے ہیں اور ناہی لعنت ملامت کرتے تھے۔ کبھی کسی جلسہ والے سے جہاز یا اے سی کے ٹکٹ کا مطالبہ نہیں کرتے تھے اور نا ہی فالتو کے نخرے کرکے منتظمین کو خواہ مخواہ پریشان کرتے تھے۔ ابا رحمہ اللہ کی خطابت کا سنہری دور 1976 کے بعد سے لے کر 2010 تک تھا۔ اس دوران وہ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری، مفسر قرآن علامہ عبد القیوم رحمانی بستوی، مولانا اسلم کانپوری، مولانا قاری عبد الرشید علیگ، مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری، مولانا دیندار خان، مولانا شعبان چترویدی ، مولانا عزیز الرب فیضی اور مولانا محمد مطیع الرحمان چترویدی جیسے شہسواران خطابت کے ساتھ جلسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بعد میں بھی تا حیات یہ سلسلہ جاری رہا، مگر اس میں کافی تخفیف ہوگئی تھی۔ ابا مجھے بھی اپنے ساتھ کئی جلسوں میں لے کر گئے اور دعوتی و خطابتی تربیت کی، نہ صرف تربیت کی، بلکہ اس میدان میں آنے اور آبلہ پائی کی ترغیب و تلقین بھی کی تھی۔

ابا نے غیر مسلموں کے درمیان بہتر طریقے سے دعوتی کام کو انجام دینے کے مقصد سے ایک کتاب ” ویدوں ایوم پرانوں کے مہائیش دوت ” لکھی تھی۔ اس کتاب کو پڑھ کر ایک گجراتی پنڈت اس پر لکھے پتا کے سہارے میرے گھر پہنچے اور مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔عبد اللہ نام رکھا گیا۔ وہ تقریباً ایک ہفتے تک میرے گھر رہے۔ اس کتاب سے بہت سارے غیر مسلم دانشوروں اور اسکالروں نے بھرپور استفادہ کیا تھا۔
ابا کو اس بات کا شدت سے ملال تھا کہ انہوں نے اسلامیات پر اردو میں کوئی کتاب نہیں لکھی ہے جو لوگوں کی اصلاح کے سبب بن سکے۔ اس کی بھر پائی کے لیے انہوں نے پچھلے کچھ برسوں میں سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال کیا تھا۔فیس بک پر اصلاحی تحریریں لکھ کر پوسٹ کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں کچھ بدتمیز قسم کے لڑکوں کو اپنی اوقات اور علمی لیاقت سے اوپر اٹھ کر ان کی پوسٹ پر کمنٹ کرتے دیکھتا تو مجھے بڑا ناگوار گزرتا۔ میں ابا سے کہتا کہ آپ فیس بک کا استعمال نہیں کیجیے، اس لیے کہ اس پر اکثر لوگ بدتمیز یا بقراط ہوتے ہیں ، ان کے نزدیک کسی کی کوئی عزت نہیں ہوتی، وہ جس کو چاہتے ہیں کچھ بھی کمنٹ کربیٹھتے ہیں۔

دوسری چیز کہ موبائل کا کثرت استعمال آنکھوں کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ اس لیے آپ فیس بک کے استعمال سے پر ہیز کیجیے۔ میرے منع کرنے پر ابا مجھے کہتے کہ کچھ بدقماش ایسی شرارت کربیٹھتے ہیں، مگر ان کی وجہ سے میں دعوتی کام کو کیسے چھوڑ دوں۔ میں فیس بک کا استعمال دعوتی مقصد کے طور پر کرتا ہوں۔ اسلامیات پر گفتگو کرتا ہوں اور کتاب وسنت کی باتوں کو دنیا کے مسلمانوں تک پہنچاتا ہوں۔ ہوسکتا ہے میری تحریر کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ ابا کی اس دلیل دینے پر میں خاموش ہوجاتا۔ابا محترم فرائض کے ساتھ ساتھ سنن ونوافل کے بڑے پابند تھے۔ فرض نمازوں کی پابندی تو اپنی جگہ چاشت کی بھی نماز روزانہ پڑھا کرتے تھے۔ میں کبھی انہیں چاشت کی نماز ترک کرتے ہوئے نہیں پایا۔ فجر بعد سے صبح سات ساڑھے سات بجے تک قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و اذکار میں مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے 2017 میں فریضہ حج ادا کیا تھا اور دوبارہ حج بدل کرنے کی خواہش اپنے دل میں لیے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

مختصراً یہ کہ ابا جان کی حیات اور خدمات کے دائرے بہت وسیع ہیں اور ان سے میری بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ ان سب کا اس ایک مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے باضابطہ کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ہے۔ اللہ ہمیں اس لائق بنائے، ابا کی بشری خطاؤں کو معاف کرے، ان کے درجات کو بلند کرے، انہیں عذاب قبر اور دجال کے فتنے سے بچائے، ان کی قبر میں جنت کھڑکی کھول دے، بلکہ ان کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے اور ہم سب بھائیوں اور بہنوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے،نیز امی جان کو صبر جمیل عطا کرے کہ ابا کی جدائی میں وہ رنج و غم سے نڈھال ہیں اور باربار بلک پڑتی ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ امی جان کو صحت و تندرستی عطا کرے اور ان کا سایہ دیر بہت دیر تک ہم بھائیوں، بہنوں اور تمام اہل خانہ پر قائم و دائم رکھے، اللھم تقبل یارب العالمین، آمین!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button