فکر و نظر / مضامین و مقالات

” تاریخ عزیمت کے ایک عہد کا خاتمہ "

سید محمد ریاض ندوی کھجناوری، رئیس : جامعة الحسنین صبری پور

دوآبہ کے مردم خیز خطہ میں سرزمین رائے پور کو دینی وروحانی مرجعیت حاصل رہی ہے اور علماء وصلحاء نیز عوام الناس کا رشتہ اس تاریخی بستی سے ہمیشہ سےہی مضبوط رہاہے، اس تاریخ ساز بستی میں اپنے دور کے خدارسیدہ صوفیوں،مخلص زاہدوں وشب زندہ داروں نے جنم لیا اور تزکیہ حسان ،اصلاح اعمال اور تہذیب نفوس کا کام جاری کیا اور ایک بڑی خلقت نے یہاں آکر جام توبہ نوش فرمایا۔

بزرگان دین کی آمد اور ان کے فیض کا سلسلہ حضرت رائے پوریؒ کے دور سے اب تک الحمد للّٰہ جاری وساری ہے متلاشیان حق یہاں پروانہ وار آتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں حضرت الحاج ڈاکٹر شفیق احمد صاحب رائے پوریؒ بھی ظاہری طبابت کے ساتھ روحانی نسخے بھی عطا فرماتے تھے اور یہ نسخۀ روحانی ان کو اپنے دادا ولئ کامل حضرت الحاج حافظ شاہ عبد الرشید صاحب رائے پوریؒ کے وصال کے بعد ان کی جانشینی وخلافت کی صورت میں ملا تھا آپ کی قیام گاہ و خانقاہ،اور مریضوں سے ملاقات کا ایک ہی کمرہ تھا جو آپ کے ذاتی مکان میں واقع تھا وہیں بیٹھ کر اس مرددرویش نے خلق خدا کے علاج کئے اور بدن کے امراض کی تشخیص وتجویز ادویہ کے ساتھ ساتھ گنا ہوں سے اجتناب ودوری کا پارٹ پڑھایا کثیر تعداد میں عوام وخواص آپ کے یہاں حاضر ہوتے اور آپ کی نگاہ تربیت ان پر توجہ ڈالتی اپنے سامنے گناہوں سے توبہ کرواتے،اطراف واکناف کے عوام وخواص ان کی مجالس میں حاضری دیتے،خصوصا مسلم گوجر کی ان کے دیار میں نیاز مندانہ حاضری بڑی دیدنی تھی،پروانہ وار ان حضرات کا ہجوم ہوتا اور اپنی طہارت باطنی کا سامان مہیا کرتے۔

وفات سے قبل آپؒ کے بارے میں آپؒ کے صاحبزادے حافظ سفیان کی روایت ہے آپ نے کہا "مجھ سے بیعت ہونیوالوں کی تعداد جہاں تک میرا اندازہ ہے، ساٹھ ہزار کے قریب ہے”۔

رب ذوالجلال نے آپ کو بہت سی خوبیوں سے متصف فرمایا تھا،خانقاہ عالیہ رائے پور میں ماضی کے ادوار میں جو تاریخی وانقلابی پیش رفت ہوئی اور حضرت رائے پوریؒ وحضرت شیخ الھندؒ نے تحریک ریشمی رومال کا جو پلان اور خطہ یہاں بیٹھ کر تیار کیا اس تحریک کے اندر جو فکر کارفرما تھی اس کی ایک جھلک ڈاکٹر صاحبؒ کی زندگی میں پنہاں تھی وہ آنے والے مریدین،معتقدین و منتسبین کو شریعت اسلامیہ کے احکام پر عمل آوری کی مستحکم وپرزور دعوت دیتے ہوئے ملک کے موجودہ احوال پر بھی گفتگو فرماتے،کڑھتے،ان کی سوز وتپش ان کے الفاظ سے عیاں ہوتی ،اور وہ علامہ اقبالؒ کے اس نظریہ "عجمی تصوف سے روح جہاد نکل چکی”کے قائل نہ تھے بلکہ تصوف کے ساتھ ہندوستان میں امن وانسانیت،ظلم کے خلاف سینہ سپر،اور ملک کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے، کبھی کبھی ملک وملت کے لئے ان کا تیش قابل دید ہوتا ،چہرہ لال ہوجاتا،اور وہ نوجوانان ملت کو ہر طرح تیار رہنے کا حکم کرتے،دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سماجی علوم نیز دیگر پروفیشنل کورسز کرنے کا حکم کرتے، انہوں نے ہمیشہ اتحاد (unity) پر زور دیا،مضبوط پلیٹ فارم تیار کرنے کی تلقین کی،ان کا ماننا تھا کہ کمیو نٹی ہی عزت تسلیم کرا سکتی اور وقار بحال رکھ سکتی ہے، ان کی صدا تھی کہ مسلم نوجوان اپنے بازؤوں میں طاقت پیدا کریں تاکہ وہ ظلم کو روک سکیں اور امن وامان کا ماحول بنانے میں معاون ہوں،حکومت سے حق مانگنے سے حق نہیں ملتا ، اپنے کو مضبوط بنائیں، سوشل ذمہ داری نبھائیں، جو ہمارے نبی ﷺ کا اسوہ ہے،یہ ان کی مجلس کا اہم موضوع ہوتا تھا۔

راقم کو بھی کئی مرتبہ زیارت وملاقات کا شرف حاصل رہا،بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوتی، ہمیشہ خوش اخلاقی واکرام کا معاملہ فرماتے، یہاں ہم آپؒ کی تعلیم دیگر مشغولیات ازدواجی زند گی کو سامنے لانے کے لئے آپ کے بھتیجے جواں سال عالم دین اور خانقاہ عالیہ رائے پور کے ترجمان مولانا بدر عالم مظاہری ندوی مد ظلہ العالی کی تحریر کا سہارا لیں گے آپ لکھتے ہیں:

عارف باللّٰہ حضرت مولانا مفتی عبد القیوم صاحب رائے پوریؒ نے اپنی تینوں بیٹیوں کا نکاح اپنے چچا حضرت حافظ عبد الرشید رائے پوریؒ کے بڑے صاحب زادے حافظ احمد سعید کے تین بیٹوں سے کیا۔ اِس طرح یہ تین بہنیں تین بھائیوں کے نکاح میں آئی۔
بڑی اور بچلی صاحب زادی بالترتیب حضرت الحاج ڈاکٹر شفیق احمد صاحبؒ اور خانقاہ عالیہ کے موجودہ روح رواں حضرت الحاج شاہ عتیق احمد صاحب کے نکاح میں آئی جن کا نکاح غالباً ۱۹۸۵ء میں خانقاہ کی مسجد میں طبیب حاذق حضرت مولانا سید مکرم حسین صاحب سنسارپوریؒ نے پڑھایا۔ نکاح کی یہ تقریب بڑی سادگی کے ساتھ خانقاہ کے روحانی ماحول میں عمل میں آئی جس میں کئی مؤقر علماء اور اکابر اہل اللہ نے شرکت فرمائی۔

داماد:۔

حضرت الحاج ڈاکٹر شفیق احمد صاحب رائے پوری:۔
آپ کے سب سے بڑے داماد حضرت الحاج ڈاکٹر شفیق احمد صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فاضل ہیں۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی، یو،ایم، ایس کی تعلیم حاصل کی اور پھر رائے پور آکر ڈاکٹری کی پریکٹس شروع کی۔ کچھ وقت بعد آپ نے رائے پور میں سخت جدو جہد کے بعد ’’مختار رحیمی چلڈرنس اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک اردو میڈیم اسکول قائم کیا جو آج بھی رائے پور کا سب سے قدیم اور معیاری اسکول ہے اور جہاں آٹھویں کلاس تک کی تعلیم کا بندو بست ہے۔ یہ اسکول اِس طرح قائم ہوا تھا کہ رائے پور کے ایک معزز رئیس راؤ مختار خاں جو بے اولاد تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شعبۂ قانون میں فارغ التحصیل تھے اور سہارن پور کی عدالت میں وکالت کرتے تھے، انھوں نے اپنی کوٹھی اور اپنی جائیداد قانونی طور پر اسکول کے نام وقف کرکے حضرت الحاج ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کی نگرانی میں دی۔ آپ دونوں چوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے جہاں کے فضلاء نے سر سید احمد خاں کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر دنیا بھر میں عصری ادارے قائم کئے ہیں، اس طرح آپ دونوں کی فکر اور کوشش سے رائے پور کی سرزمین پر پہلا معیاری عصری ادارہ وجود میں آیا۔ اگرچہ راؤ مختار خاں کی آنکھیں بذاتِ خود اِس ادارے کو نہیں دیکھ سکی اور وہ مکمل کاغذی نقشہ اور منصوبہ تیار کرکے جلد ہی اِس دنیا کو الوداع کہہ گئے، لیکن ڈاکٹر شفیق احمد صاحب نے ہمت و جرأت اور سخت جدو جہد کے بعد جبکہ آپ کو اُن کے رشتے داروں اور گاؤں کے بعض ذمہ داروں سے بھی ٹکرانا پڑا اور مقدمے بھی لڑنے پڑے،عزم و ہمت اور ثابت قدمی و کامیابی کے ساتھ اُن کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا اور اُن کے نام پر اسکول کا نام رکھ کر ان کے نام کو دنیا میں اور آنے والی نسلوں میں زندہ کر دیا۔

اور امت کے غم میں ڈوبا یہ شخص وفات سے چند روز قبل اپنے صاحبزادہ کو کہہ گیا "مجھے اپنی علالت وبیماری کی زیادہ فکر وتشویش نہیں بلکہ مسلمانوں کو درپیش حالات کا زیادہ غم ہے”
ہمت وجرأت عزم وحوصلہ، صاف گوئی وبے باکی ان کے مزاج کا عنصر تھا، حق کی تائید ان کا شیوہ تھا،باطل سے آنکھ ملانا ان کا مزاج تھا،آنے والے کا اکرام اس کی ضیافت ان کی طبیعت ثانیہ تھی،ببانگ دہل حق کا اعلان ان کا خاصہ تھا ہم نے ایک ایسے مرد حُر کو منوں مٹی کے نیچے دفنا دیا،جن کی ضرورت موجودہ احوال میں بدرجہا تھی ،لیکن مشیت خداوندی اور اجل مسمی کے سامنے کوئی چارہ نہیں اب تو ہمارا ذمہ اتنا ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کی جائے ﷲ تعالی ان کی مغفرت کاملہ فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button