فکر و نظر / مضامین و مقالات

بی بی سی پر چھاپہ یا شکنجہ؟

بی بی سی پر چھاپہ یا شکنجہ؟محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

 معروف نشریاتی ادارہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے دہلی اور ممبئی دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے 14 فروری کو چھاپہ ماری کی، بی بی سی کے تقریبا تین دن تک ڈیجیٹل ریکارڈ اور فائلوں کو دیکھنے کے بعد 16 فروری کی رات آئی ٹی حکام کی واپسی کی اطلاع ہے ۔ تازہ ترین معلومات دیتے ہوئے بی بی سی نے کہا ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کے اہلکار دہلی اور ممبئی میں ہمارے دفاتر چھوڑ چکے ہیں۔ 

 بتایا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی ٹیکس میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے آئی ٹی کی ٹیم بی بی سی کے دفتر پہنچی تھی ۔ یہی نہیں تحقیقات کے لیے پہنچی انکم ٹیکس ٹیم نے دفتر میں موجود ملازمین کے موبائل فون، لیپ ٹاپ ضبط کر لئے اور ملازمین کو دفتر چھوڑ کر گھر جانے کو کہا، بی بی سی کے دفتر پر انکم ٹیکس کی اس کارروائی کو بین الاقوامی ٹیکس سے متعلق معاملہ بتایا جا رہا ہے، جس میں ٹیکس بے ضابطگیوں کے حوالے سے بی بی سی کے دفتر میں آئی ٹی سرچ ہوئی ہے۔

ایسے میں بی بی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ” ہم اپنے ملازمین کے ساتھ ہیں، اور اس تحقیقات میں آئی ٹی ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ جاری کردہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ صحافت سے متعلق ہمارا آؤٹ پُٹ اور کام معمول کے مطابق جاری رہے گا۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں۔ جب کہ برطانیہ کی حکومت مبینہ طور پر صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، بی بی سی نے کہا ہے کہ اس کے کچھ ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں انکم ٹیکس کی جاری انکوائریوں میں تعاون کرنے کے لیے رہیں.” 

 انکم ٹیکس کے حکام کی اس کار روائی کے دوران ہی بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کا یہ کہہ کہ دفاع کیا کہ بی بی سی ”ایک بد عنوان” ادارہ ہے،جو زہریلی رپورٹنگ کے ذریعے ملک کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ گورو بھاٹیہ نے مزید کہا کہ کانگریس کا ایجنڈا اور بی بی سی کا پروپیگنڈہ ایک ساتھ چل رہا ہے۔ بی بی سی کی بھارت کو بد نام کرنے کی پرانی تاریخ ہے۔ اپوزیشن بھول گئی ہے کہ ایک زمانے میں اندرا گاندھی نے بی بی سی پر پابندی لگا دی تھی۔ بی بی سی نے مہاتما گاندھی پر بھی منفی تبصرہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ "دراصل، ہندوستان مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، لیکن کچھ تنظیمیں اس رفتار کو پسند نہیں کر رہی ہیں۔ لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ ہندوستان میں اصولوں کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے.” 

  قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ، بی بی سی کی نشریات سامعین و ناظرین کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا نشریاتی ادارہ ہے جس کے صرف برطانیہ میں ملازمین کی تعداد 26 ہزار ہے اور اس کا سالانہ میزانیہ 4 ارب برطانوی پاؤنڈ جو (7.9 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ ہے۔

1922ء میں برٹش براڈ کاسٹنگ (بی بی سی) کمپنی لمیٹڈ کے قائم کردہ اس ادارے کو بعد ازاں شاہی پروانہ جاری کیا گیا اور 1927ء میں یہ ریاست برطانیہ کی ملکیت بن گیا۔ بی بی سی ٹیلی وژن، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر پروگرام اور معلوماتی خدمات پیش کرتا ہے۔ بی بی سی کا ہدف، اطلاعات، علم و تفریح کی فراہمی، ہے۔

 بی بی سی ٹرسٹ کے زیر انتظام چلایا جاتا ہے اور اپنے منشور کے مطابق سیاسی و اشتہاری اثرات سے آزاد ہے، اور صرف اپنے ناظرین و سامعین کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ 

بی بی سی انگریزی سمیت دنیا بھر کی 33 زبانوں میں پروگرام نشر کرتا ہے جن میں "اردو” بھی شامل ہے۔ اردو میں بی بی سی ریڈیو کی نشریات کے علاوہ ایک ویب سائٹ بھی شامل ہے جو تحریری اردو کی اولین ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ 

 جون 1920ء کو بی بی سی کمپنی کا پہلا پروگرام مارکونی وائرلیس ٹیلیگراف کمپنی سے نشر کیا گیا تھا، اس پروگرام کو ڈیلی میل کے لارڈ نارتھ کلف نے مالی تعاود دیا تھا۔ یہ نشریہ عوام کو خوب بھایا اور برطانیہ کی ریڈیو کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا….

جان بیئر نے بنایا تھا. 

1923ء آتے آتے کمپنی کو بے پناہ مقبولیت ملی مگر مالی انتظام کچھ سست پڑ گیا اور بی بی سی اقتصادی مسائل سے دو چار ہوگیا ۔ بی بی سی کمپنی کی ابتدا 1 جنوری 1927ء کو ہوئی اور ریتھ پہلے جنرل ڈائیریکٹر بنے۔ نئی کمپنی کا نیا اعلان بھی جاری ہوا۔ اس وقت ریڈیو میں صرف روایتی انداز میں خبریں شائع ہوتی تھی تاہم سامعین کچھ اور پروگرام کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ ریتھ اس زمانے میں بی بی سی کے جنرل مینیجر تھے اور وہ پر عزم اور حوصلہ مند شخص تھے۔ ان کا مقصد “عوام کے لیے معلومات اور جانکاری کے تمام شعبہ ہائے جات میں ترقی کرنا اور حتی الامکان کوشش کرنا، مقصد حاصل کرنا اور اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنا تھا ریتھ کا یاک بڑا کارنامہ ریڈیو کو امریکی اسٹائل کی قید آزاد کرانا اور برطانوی ریڈیو کو اپنا رنگ ڈھنگ عطا کرنا تھا. (وکیپیڈیا) 

بی بی سی کے دفتر میں انکم ٹیکس محکمہ کے چھاپہ پر شدید ردعمل آنا شروع ہوگئے ہیں. 

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اس کار روائی پر شدید تنقید کی ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان جاری کر کے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ ” محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے انجام دیا جا رہا سروے اقلیتوں کی موجودہ صورتحال اور گجرات میں 2002 کے تشدد پر بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے اجراء کے بعد سامنے آیا ہے۔ حکومت نے دستاویزی فلم میں گجرات تشدد کے بارے میں رپورٹنگ پر بی بی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہندوستان میں اس کے آن لائن دیکھنے پر پابندی لگا دی ہے، ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ محکمہ انکم ٹیکس کا یہ سروے سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کر کے ان پریس تنظیموں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے رجحان کے تحت کیا جا رہا ہے، جو حکومتی پالیسیوں یا حکمران اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتی ہیں۔ ستمبر 2021 میں نیوز کلک اور نیوز لانڈری کے دفاتر کا اسی طرح آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے سروے کیا تھا، جون 2021 میں ’دینک بھاسکر‘ اور ’بھارت سماچار‘ کے خلاف سروے کیا گیا۔ فروری 2021 میں ای ڈی نے نیوز کلک کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان تمام معاملات میں چھاپے اور سروے خبر رساں اداروں کی طرف سے سرکاری اسٹیبلشمنٹ کی کوریج کے پس منظر میں تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو جمہوریت کو کمزور کرتا ہے”۔

۔پریس کلب نے کہا کہ ایک بین الاقوامی نشریاتی نیٹ ورک پر اس طرح کی کارروائی سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی ساکھ اور امیج کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت سے اپیل کی کہ وہ ‘میڈیا کو ڈرانے اور پریس کی آزادی کو روکنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے’۔ڈیجیٹل میڈیا براڈکاسٹروں کی ایک یونین ڈی جی پب نے بھی بی بی سی کے دفاتر کے ‘سروے’ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم آنے کے چند دنوں کے اندر ہونے والی یہ کارروائی تشویشناک ہے اور یہ ایک آزاد اور منصفانہ آواز پر حملے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک مضبوط جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی عالمی امیج کو داغدار کرتا ہے بلکہ دوست ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بھی خراب کر سکتا ہے۔اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس طرح کے چھاپے ہمیشہ ان میڈیا اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خبریں شائع کرتی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے حکمراں جماعت اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حقوق ، پریس کی آزادی اور شہریوں کے معلومات کے حق کے بارے میں جاننے کے ناقابل تنسیخ حق کو محدود کرنا چاہتی ہے۔اگر حکومت جمہوری اقدار کی پاسداری کا دعویٰ کرتی ہے اور ہندوستان کے عالمی موقف کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے میڈیا کو فعال طور پر سخت سوالات پوچھنے کے قابل بنانا چاہیے، چاہے ان سوالات کا نتیجہ حکومت کی پالیسی، نیت ، ارادے اور طرز عمل کے بارے میں تنقید ہی کیوں نہ ہو. 

 کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال نے کہا کہ” بی بی سی کے دفاتر پر آئی ٹی کے چھاپے نے یہ ظاہر کیا کہ مودی حکومت تنقید سے خوفزدہ ہے۔ ہم ان دھمکیوں کے ہتھکنڈوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، یہ غیر جمہوری اور آمرانہ رویہ مزید نہیں چل سکتا۔” وہیں کانگریس نے بی بی سی کے بوم مائک کو زنجیروں سے لپیٹ کر ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے اور لکھا ہے کہ آمر بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے۔ وہیں فوٹو کے کیپشن میں لکھا ہے کہ بھارت ورلڈ پریس فریڈم کی فہرست میں 180 میں 150 ویں مقام پر ہے۔” پارٹی کے رہنما جے رام رمیش کا کہنا تھا، ”ادھر(پارلیمان میں) ہم اڈانی-ہنڈن برگ تنازعے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور وہاں حکومت بی بی سی کا محاصرہ کر رہی ہے۔ جب کسی کی بربادی کا وقت قریب ہوتا ہے، تو وہ غلط فیصلے کرنے لگتا ہے۔”

ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ”بی بی سی کے دہلی دفتر پر انکم ٹیکس کے چھاپے کی رپورٹیں ہیں۔ واہ، واقعی میں؟ کتنی غیر متوقع بات ہے۔”

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبد اللہ نے کہا کہ” یہ بی بی سی پر انکم ٹیکس کی کارروائی انجام دینے کا صحیح وقت نہیں ہے، اس طرح کی کارروائیاں وزیر اعظم نریندر مودی پر دستاویزی فلم نشر ہونے سے پہلے کی جاسکتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اس وقت ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ لوگ سوچیں گے کہ یہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے اثر کے بعد ہوا ہے۔ فاروق عبد اللہ نے کہا، "جب وہ عام طور پر دستاویزی فلم کو نشر کرنے سے پہلے یہ کام کر لیتے، تو ہمیں یقین ہوتا کہ بی بی سی کی طرف سے کچھ غلطی تھی۔ لیکن آج ہر شخص یہ سوچے گا کہ یہ دستاویزی فلم کے تناظر میں (بی بی سی) کو ہر اساں کرنے کی کوششیں ہیں، تاہم سروے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بہت بد قسمتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا” یہاں جمہوریت پہلے ہی خطرے میں ہے، میڈیا کو دبایا جارہا ہے اور بی بی سی پر یہ چھا پہ اس میں مزید اضافہ ہے "۔

پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے مطابق حکومت سچ بولنے والوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ چاہے وہ اپوزیشن رہنما ہوں، میڈیا ہوں، انسانی حقوق کے کارکن ہوں یا کوئی بھی ہو۔” 

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتا رام یچوری نے سوال کیا کہ” اس کارراوئی کے بعد بھارت کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ جمہوریت کی ماں ہے۔”واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بار بار اپنے بیانوں میں بھارت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ”نظریاتی ایمرجنسی” کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ”جب کوئی حکومت بے خوفی کے بجائے خوف اور جبر کے لیے کھڑی ہو، تو ہر کسی کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا انجام قریب ہے۔”دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بدھ کو کہا کہ میڈیا کی آواز کو دبانا غلط ہے۔

وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا کہ اس طرح میڈیا کی آواز کو دبانا غلط ہے۔ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، میڈیا کی آزادی پر حملہ عوام کی آواز کو دبانے کے مترادف ہے، جو بھی بی جے پی کے خلاف بولتا ہے، یہ لوگ آئی ٹی، سی بی آئی اور ای ڈی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔کیا بی جے پی ملک کے جمہوری نظام اور اداروں کو کچل کر پورے ملک کو غلام بنانا چاہتی ہے؟” اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے دیگر لیڈروں نے بھی پریس کانفرنس میں اس معاملے پر بات کی تھی. 

 مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ "موجودہ حکومت ہٹلر اور سیوسیسکو سے زیادہ خطرناک ہے۔ بی بی سی نے ہمیشہ درست اور تازہ ترین جانکاری فراہم کی ہے تو پھر ان کے خلاف ایسی کارروائی کیوں ہو رہی ہے؟ بی بی سی نے کچھ نشر کیا ہے جو موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ کارروائی انتقامی جذبے سے کی گئی ہے۔ آزادی صحافت کو دبانا انتہائی افسوس ناک ہے۔ میں ہمیشہ آزادی صحافت کی حمایت کرتی ہوں۔ اب صرف عدلیہ ہی اس ملک کو بچا سکتی ہے۔” مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ” جب اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور اس وقت بی بی سی حکومت سے سوال کررہا تھا تو یہی بی جے پی اُس وقت بی بی سی کی تعریف کر رہا تھا اور اسکی رپورٹنگ اور خبروں کو موزوں قرار دے رہا تھا لیکن آج بی جے پی حکومت بی بی سی کی نیت پر شک کررہی ہے اور اس کے دفاتر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ "

اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی انکم ٹیکس حکام کی جانب سے دہلی میں بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی سے آگاہ ہے۔ انہوں نے میڈیا سے کہا کہ تلاشی کی تفصیلات پر بھارتی حکام سے رجوع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ دنیا بھر میں آزاد صحافت کی اہمیت کی حمایت کرتا ہے۔ پرائس نے کہا کہ امریکہ اظہار رائے کی آزادی اور مذہب یا عقیدے کی ضرورت کو انسانی حقوق کے طور پر اجاگر کرتا رہتا ہے جو دنیا بھر میں جمہوریتوں کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان تلاشیوں کے حقائق سے واقف ہیں، لیکن کوئی فیصلہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔” صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس'(سی پی جے)نے مودی حکومت سے صحافیوں کو پریشان نہ کرنے کی اپیل کی ہے، سی پی جے کی ایشیا پروگرام ڈائریکٹر بیہہ لی یی نے ایک بیان میں کہا،”وزیر اعظم مودی کی نکتہ چینی والے ڈاکیومنٹری کے بعد بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر چھاپہ مارنے سے ڈرانے دھمکانے کی بو آتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب بھارتی حکام تنقیدی خبریں شائع کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکس جانچ کا سہارا لے رہے ہیں۔ زیادتی بند ہونی چاہئے۔”صحافیوں کی ایک دیگر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز(آر ایس ایف)نے بھی ٹویٹ کرکے اس کارروائی کی نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے کہا کہ” مودی پر دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب یہ کارروائی کی گئی ہے، آر ایس ایف نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بھارت سرکار کی تنقید کو خاموش کرانے کی ان کوششوں کی مذمت کرتا ہے۔” 

خیال رہے کہ بی بی سی دفاترپر چھاپے کے دوران اس کے ملازمین کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی ضبط کرلیے گئے۔

 ایمنسٹی انٹرنیشل نے بھی ٹویٹ کرکے کہا، "یہ چھاپے اظہار رائے کی آزادی کی صریح توہین ہیں۔ بھارتی حکام واضح طورپر حکمراں بی جے پی کی نکتہ چینی والے کوریج پر بی بی سی کو پریشا ن کرنے اوردھمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔”

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کو یہ اندیشہ ہے کہ کہیں آنے والے دنوں میں بی بی سی اور کوئی ڈاکومنٹری لانے کا پروگرام تو نہیں بنا رہی ہے، اگر ہے تو اس کے روکنے کی کوشش کی ہے، اور اس بات پر تو سب یک زبان ہیں کہ آزادی اظہار رائے، اور حکومت کے خلاف نکتہ چینی کرنے والے قلم اور زبان کی یہاں اب کوئی جگہ نہیں ہے. جمہوری ملک میں صحافی اور حکومت کے درمیان تخلیقی یا مثبت تناؤ کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔ میڈیا کا اصل کام اداروں کا ہمہ وقت احتساب کرنا اور حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہوتا ہے۔***

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button