23 نومبر 2021 کی شام دربھنگہ سے گھر پہونچا ہی تھا کہ بچپن کے رفیق مشاہدالحق کا فون آیا اور حال چال دریافت کے بعد انہوں نے مجھے ایک دوسرے سفر کیلئے راضی کر لیا ۔ میں اسکی اس پیشکش کو رد نہیں کر سکا اور اس کی گنجائش بھی نہیں تھی کیوں کہ جس مدرسہ کا وہ ذکر کر رہے تھے اسکا ذکر بچپن سے سن سن کر اس سے عقیدت و محبت سی ہو گئی تھی اور دلی تمنا تھی کہ وہاں کے علمی ماحول سے استفادہ کروں اور وہاں کے نورانی و قرآنی ماحول میں شب و روز گذاروں ۔لیکن اس کا موقع میسر نہ ہو سکا۔
بہر حال 24 نومبر2021 کو اپنے رفیق کے ہمراہ بذریعہ موٹر سائیکل 300 کیلومیٹر کا سفر طے کیا جو کہ میری زندگی کا کاموٹر سائیکل سے اب تک کا طویل ترین سفر تھا ؛ گاڑیوں کی کثرت اور انکی برق رفتاری کو دیکھ کر دل میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی طرح کے خدشات بھی پیدا ہوتے رہے لیکن منزل کی جستجو اور ہم خیال ہمراہ کی معیت نے خدشات کو زائل اور تھکان کو کافور کر دیا کئی مقامات اور ڈھابے پر رکتے ہوئے آخر اللہ نے منزل مقصود تک خیر و عافیت سے پہونچا دیا۔ کھانا کھا کر بستر پر چلے گئے۔ تھکان کی وجہ سے کب نیند آئی پتا ہی نہیں چلا ۔
اگلے دن میں، مشاہد الحق، اور حبیب الرحمن ندوی تینوں جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا کی زیارت کے لیے نکلے وہاں پہنچ کر مدرسہ کو جتنا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا، بہار کی سرزمین پر تعلیم قرآن کے اس کوہ نور کو دیکھ دیکھ کر دل فرط مسرت سے جھوم رہا تھا دل سے دعائیں نکل رہی تھی کہ اے اللہ اس کے بانی کی مغفرت فرما ،اپنے دیار خاص میں انہیں جگہ عطا فرما اور انکی محنت و کاوش کو قیامت تک جاری و ساری اور شاد و آباد رکھ !
حافظ بادشاہ رحمۃاللہ علیہ کی قبر کی زیارت بھی ہوئی اور درود و فاتحہ کا نذرانہ بھی پیش کیا اسکے بعد ایک واقعہ یاد آیا جو کہ میں کئی ساتھیوں اور دوستوں سے سن چکا تھا کہ حافظ بادشاہ کا جب انتقال ہوا تھا تو ان کو قدیم قبرستان میں جو کے ندی کے کنارے ہے دفن کیا گیا تھا، لیکن چالیس پینتالیس سال بعد پانی کا رخ قبرستان کی طرف ہوا اور قبروں کو نقصان پہنچانے لگا توانکے نواسے جناب قاری شبیر صاحب نے کئی روز مسلسل انہیں خواب میں دیکھا وہ کہہ رہے تھے کہ میرے جسم خاکی کو یہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرو ورنہ پانی جسم خاکی کو بہا لے جائے گا، مسلسل کئی روز خواب دیکھنے کی وجہ سے مشورہ کے بعد انکی قبر کھولی گئی تو کرامت یہ ہوئی کہ انکا جسم صاف و شفاف اور کفن بالکل تروتازہ تھا دوبارہ مدرسہ کے احاطہ میں انکی تدفین کی گئی، اس واقعہ کی تصدیق میں نے ہمراہ ساتھیوں سے چاہی تو مثبت جواب ملا۔
اور پھر قبر کی زیارت کے بعد ہم واپس ہونے ہی والے تھے کہ اچانک برآمدہ میں بیٹھے ایک معمر شخصیت پر نظر پڑی جنکے چہرے پہ نورانیت اور ہونٹوں پہ مسکان تھی ساتھیوں سے دریافت کے بعد علم ہوا کہ یہ مدرسہ کے موجودہ مہتمم جناب قاری بشیر احمد صاحب ہیں قریب ہوتے ہوئے سلام و مصافحہ کے بعد پاس لگی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا حال احوال دریافت کر نے کے بعد گفت وشنید کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ایک لمحے کے لیے بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا اور یوں گمان ہو رہا تھا کہ برسوں کی شنا سائی ہے بات پر بات نکلتی گئی اور معیت طویل ہو گئی اسی درمیان چائے نوشی کرتے ہوئے مدرسے کے حالات کے متعلق بتانے لگے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے ملک کے گوشہ گوشہ سےاتنے طلبہ آتے تھے کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں تھی اور امتحان کے بعد جن طلبہ کا داخلہ نہیں ہوتا ان سے معذرت کر لیتے اور آئندہ سال آنے کے لیے مدعو کرتے لیکن اب عالم یہ ہے کہ ہمارے پاس جو بھی طلبہ اس وقت آتے ہیں انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ان پر ہی محنت کرنے کا عزم ہے اللہ انکے اس عزم و حوصلہ کو تقویت عطا فرمائے اور دیر تک انکا سایہ عاطفت دراز فرمائے
اس ادارے اور تمام دینی ادارے کو اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور دین کے لیے محنت وکاوش کرنے والے تمام افراد کو چاہے وہ جس شعبہ میں بھی ہوں اللہ انکی حفاظت فرمائے انہیں صحت و تندرستی اور دنیا و آخرت کی بھلائی و کامیابی مقدر فرمائے آمین