تحریر : مولانا ڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی
بہار مدرسہ بورڈ کا قیام ۱۹۲۲ء میں عمل میں آیا، یہ پہلے ایکزامنیشن بورڈ تھا۔الحاج سید نورالہدیٰ نے اپنے والد سید شمس الہدیٰ کے نام پر ۱۹۱۲ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ قائم کیا، یہ ادارہ ۱۹۱۸ء تک مدرسہ نظامیہ کے طریقہ پر چلتا تھا، پھر انہوں نے اس مدرسہ کو حکومت کی تحویل میں دینے کا اردہ کیا، تو حکومت سے خط وکتابت کی اور ۱۹۱۹ء میں وقف نامہ کی روشنی میں حکومت کی تحویل میں دیا، اس طرح یکم جنوری ۱۹۲۰ء سے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ نے حکومت کی تحویل میں کام کرنا شروع کیا
حکومت کی تحویل میں دیئے جانے کے بعداس کے امتحانات کے انعقاد کا وقت آیا، تو بانی مدرسہ نے حکومت سے ایکزامنیشن باڈی بنانے کا مطالبہ کیا، چنانچہ حکومت نے منظوری دی، اور ایک ایکزامنیشن باڈی بنادی گئی، پھر انہوں نے حکومت سے ایکزامنیشن بورڈ بنانے کا مطالبہ کیا تو ۱۹۲۲ء میں حکومت نےمدرسہ ایکزامنیشن بورڈ بہار واڑیسہ کی تشکیل کر دی۔ انہوں نے حکومت سےمزید مطالبہ کیا کہ مدرسہ بورڈ سے دیگر مدارس کے الحاق کو منظوری دی جائے، تاکہ مدرسہ تعلیم کا فروغ ہو، حکومت نے اس کو بھی منظوری دے دی اور مدارس کا الحاق شروع ہوا، اس طرح بہت سے مدارس مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ سےملحق ہوگئےاور الحاق کا سلسلہ بڑھتا رہا۔ اڑیسہ صوبہ کی تشکیل کےبعد جب اڑیسہ میں مدرسہ بورڈ قائم ہوگیا ،تو اڑیسہ مدرسہ بورڈ الگ ہوگیا اور یہ صرف بہار مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ رہ گیا۔
مدرسہ اگزامنیشن بورڈ کے سرٹیفکیٹ کو حکومت نے سرکاری ملازمت میں تقرری کے لئے منظوری دی تھی، اس لئے اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، مگر اس کے سرٹیفکیٹ کو دیگر سرکاری اداروں کے سرٹیفکیٹ کی طرح مساوات کا درجہ حاصل نہیں تھا، جس کی وجہ سے فارغین کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، چنانچہ سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کی مساوات کے لئے حکومت پر دبائو پڑتا رہا، مگر جب حکومت کی طرف سے تاخیر ہوئی، تومدرسہ اسٹوڈنٹ یونین کا قیام عمل میں آیا، جس نے مطالبہ کو آگے بڑھایا، اس طرح حکومت بہار نے ۱۹۸۱ء کے ایکٹ کے تحت مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ کو تحلیل کرکے مدرسہ اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ بنادیا اور بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ذریعہ دی جانے والی سرٹیفکیٹ کو مساوات کا درجہ دیا۔
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ۱۹۸۱ء بہت مضبوط ایکٹ ثابت ہوا، یہ خود مختار بورڈ ہے، اس کی سرٹیفکیٹ کو ملازمت اور تعلیم کے لئے پورے ہندوستان میں مساوات کا درجہ ملا، جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اور دیگر صوبوں کے لئے مشعل راہ بھی ثابت ہوا، بہت سے صوبوں میں اسی انداز پر مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں بھی آیا۔
ایکٹ۱ ۱۹۸ء بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کےقوانین پر مشتمل ہے۔ اس میں مجلس منتظمہ کی تشکیل کا بھی ذکر ہے، اس ایکٹ کے ذریعہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو خود مختار ادارہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ بورڈ کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوئے۔ مدرسہ بورڈ یعنی ممبران بورڈ اس ایکٹ کی روشنی میں مجلس منتظمہ، اساتذہ ، امتحانات اور دیگر کمیٹیوں کی تشکیل دے کر مدرسہ بورڈ اور مدارس ملحقہ کو چلاتے رہے، گرچہ ایکٹ میں اس کی گنجائش تھی کہ مجلس منتظمہ کے لئے الگ ضابطہ بنایا جائے، اساتذہ کے لئے سروس کنڈیشن وضع کیا جائےوغیرہ وغیرہ ،مگر بورڈ کے اراکین کے سامنے مدارس کا بڑا تصور تھا اور وہ یہ کہ یہ اقلیتی ادارے ہیں۔
اقلیتی اداروں کو قائم کرنے اور اس کے چلانے کا اختیار اقلیت کو ہے، اس لئے الگ سے کوئی ضابطہ بناکر اس کے اختیارات کم نہ کئے جائیں، یہی وجہ رہی کہ نہ مجلس منتظمہ کے لئے اصول وضابطہ بنایا گیا اورنہ اساتذہ کی تقرری کے لئے ،بلکہ اس کو اقلیتی ادارہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی مجلس منتظمہ پر سب کچھ چھوڑ دیا گیا۔ میں نے خود کئی مرتبہ بورڈ کی میٹنگ میں تجویز پیش کی کہ اچھے اساتذہ کی تقرری کے لئے جس طرح اسکول سیوا بورڈ ہے ،اسی طرح بورڈ کے تحت مدرسہ سیوابورڈ بنایا جائے، جس کے ذریعہ باصلاحیت اساتذہ کی تقرری ہو ،مگر ممبران نے یہ کہا کہ بورڈ کے وکیل سے اس پر رائے لےلی جائے، چنانچہ فائل کو مدرسہ بورڈ کے وکیل کے پاس بھیجا گیا، تو انہوں نے اپنی رائے دی کہ مدارس ملحقہ اقلیتی ادارے ہیں، ہائی کورٹ نے بھی ان کو اقلیتی ادارہ قرار دیا ہے، بورڈ کے ذریعہ کوئی ضابطہ بنانا اقلیتی کردار کےخلاف ہے۔ اس طرح یہ معاملہ رک گیا اور کوئی ضابطہ نہیں بن سکا۔
مجلس منتظمہ کے لئے وضع کردہ اصول وضوابط کا جائزہ
ایکٹ ۱۹۸۱ء کے مطابق مجلس منتظمہ کی تشکیل کا اختیار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی نگرانی میں ہوگا، اس کے ممبر مندرجہ ذیل ہوں گے۔
(۱) مدرسہ کے ہیڈمولوی (۲) واقف (۳) اساتذہ نمائندہ ایک (۴) گارجین ۲(۵) مدرسہ بورڈ کے نمائندہ ایک (۶) یہ سات ممبران ۲؍ اور ممبران کو منتخب کریں گے۔ یعنی کل ۹؍ ممبران ہوں گے، ان ہی میں سے صدر وسکریٹری کا انتخاب کیا جائے گا۔
موجودہ نوٹیفکیشن ۳۹۶؍ مورخہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۲۲ء میں مجلس منتظمہ کی تشکیل کے لئے یہ طریقہ درج کیا گیا ہے۔
مجلس منتظمہ مدرسہ کے علاقہ بسنے والے باشندوں کی ایک کمیٹی ہوگی، جس کی تشکیل مدرسہ کے علاقہ کے بالغ لوگوں کی عام مجلس بلاکر کی جائے گی، اس کا طریقہ یہ ہوگا (۱) ہیڈ مولوی (۲) ایک سینئر استاذ جو ہیڈمولوی کے ذریعہ نامزد کیا گیا ہو(۳) دو واقف خواہ زمین وقف کرنے والے ہوں یا دس ہزار روپے جمع کرکے واقف بنے ہوں (۴) دو گارجین جن کے بچے مدرسہ میں پڑھتے ہوں۔ (۵) دوممبران عربی؍ فارسی کے ماہرین (۶) مدرسہ بورڈ کے ذریعہ نامزد ایک ممبر وہ ضلع ایجوکیشن افسر ہوں گے۔
ہیڈمولوی؍ انچارج ہیڈ مولوی مدرسہ کے احاطہ میں میٹنگ بلاکر صدرو سکریٹری کا انتخاب کریں گے ۔ ہیڈمولوی ؍انچارج ہیڈ مولوی اس کمیٹی کی لسٹ کو منطوری کے لئے مدرسہ بورڈ بھیجیں گے، جس کو مدرسہ بورڈ کے ذریعہ ۶۰؍ دنوں کے اندر منظوری دی جائے گی، اگر مذکورہ مدت میں منظوری نہیں دی گئی تو اس کو منظور سمجھا جائے گا۔پھر اس کے بعدمجلس منتظمہ کومنسوخ کا طریقہ اور اس کے پاور وفنکشن کی وضاحت کی گئی ہے۔
دوسرا نوٹیفکیشن ۳۹۵؍ مورخہ ۱۹؍ ۴؍ ۲۰۲۲ہے۔ یہ اساتذہ وملازمین کی تقرری سے متعلق ہے، ایکٹ ۱۹۸۱کے تحت ضابطہ یہ تھا کہ مجلس منتظمہ کے ذریعہ ویکنسی کا اعلان نکالنے کے لئے بہار مدرسہ بورڈ سے اجازت لی جاتی تھی، پھر خالی عہدوں کا اعلان کیا جاتا تھا، انٹرویو لینے کا اختیار مجلس منتظمہ کو تھا، البتہ مدرسہ بورڈ کی جانب سے ایک ایکسپرٹ نامزد کئے جاتے تھے، جن کی نگرانی میں انٹرویو لیا جاتا تھا، پھرمیرٹ لسٹ تیار کرکے وہ لسٹ مدرسہ بورڈ کو بھیجی جاتی ہے اور میرٹ لسٹ کو مدرسہ بورڈ کے ذریعہ منطوری دی جاتی تھی،بورڈ کے ذریعہ منتخب اساتذہ کے نام تقرری لیٹر جاری کیا جاتا تھا، پھر مجلس منتظمہ کے ذریعہ بحالی عمل میں آتی تھی، اس وضاحت کے بعد اب نوٹیفکیشن ۳۹۵؍ مورخہ ۱۹؍۴؍۲۰۲۲ء کا جائزہ پیش ہے۔ مذکورہ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ وسطانیہ مدارس میں منظور شدہ عہدےحسب ذیل ہوں گے۔ (۱) ہیڈمولوی ایک عہدہ (۲) عالم اسسٹنٹ مولوی ایک عہدہ (۳) مولومی اسسٹنٹ مولوی ایک عہدہ (۴) حافظ ایک عہدہ (۵) انٹر میڈیٹ ٹرینڈ دو عہدے (۶) ملازم ایک عہدہ (۷) مدرسہ گارڈ ایک عہدہ
فوقانیہ میں مندرجہ ذیل عہدے ہوں گے
(۱) ہیڈمولوی – ایک عہدہ (۲) فاضل اسسٹنٹ مولوی دو عہدے (۳) عالم اسسٹنٹ مولوی دو عہدے(۴)مولوی اسسٹنٹ مولوی ایک عہدہ (۵) حافظ ایک عہدہ (۶) گریجویشن ٹرینڈ دوعہدے (۷) انٹر میڈیٹ دو عہدے (۸) غیر تدریسی ملازم ۲؍ یعنی کلرک ایک، گارڈ ایک عہدہ۔
مولوی میں مندرجہ ذیل عہدے ہوں گے ۔
(۱) ہیڈمولوی ایک عہدہ (۲) فاضل اسسٹنٹ مولوی چار عہدے (۳) عالم اسسٹنٹ مولوی دو عہدے (۴) مولوی اسسٹنٹ مولوی ایک عہدہ (۵) حافظ ایک عہدہ(۶) گریجویٹ ٹرینڈ ایک عہدہ (۷) انٹر میڈیٹ ٹرینڈ دو عہدے (۸) غیرتدریسی ملازمین تین عہدے، کلرک دوعہدے، گارڈ ایک عہدہ
تقرری کے لئے لیاقت:(۱) ہندوستان کے شہری ہوں، نیز مدرسہ بہار کے جس ضلع میں ہواس کا مستقل باشندہ ہو۔
(۲) وسطانیہ کے ہیڈ مولوی کے عہدہ پر تقرری کے لئے امیدوار کی کم سے کم لیاقت عالم آنرز؍ گریجویٹ آنرز نیز کسی منظور مدرسہ میں کم سے کم پانچ سال تعلیم دینے کا تجربہ ہو۔
(۳) فوقانیہ اور مولوی معیار کے مدرسہ کے ہیڈ مولوی کے عہدہ کے لئے کم سے کم لیاقت فاضل؍ ایم اے نیز کسی منطور مدرسہ سے کم سے کم دس سال کا تعلیمی تجربہ ہو۔
(۴) فاضل اسسٹنٹ کے عہدہ پر تقرری کے لئے کسی منظور یونیورسٹی سے کم سے کم خرچ ۴۵؍ فیصدنمبرات کے ساتھ فاضل پاس ہو۔
(۵) عالم اسسٹنٹ مولوی کے عہدہ کے لئے تقرری کے لئے کسی منظوریونیورسٹی سے کم سے کم ۴۵؍فیصد نمبرات کے ساتھ عالم پاس ہو۔
(۶)مولوی اسسٹنٹ مولوی کے عہدہ پر تقرری کے لئےکسی منطور بورڈ سے کم سے کم ۴۵؍فیصد نمبرات کے ساتھ مولوی پاس ہو۔
(۷) علوم عصریہ کے انٹر میڈیٹ ٹرینڈ کے عہدہ پر تقرری کے لئے انٹر میڈیٹ اور ڈی ایل ایڈ یا بی ایڈپاس ہو۔
گریجویٹ کے عہدہ پر تقرری کے لئے متعلقہ مضامین میں گریجویٹ اور بی ایڈ پاس ہو ۔
(۸) حافظ کے عہدہ پر بحالی کے لئے کسی منطور بورڈ سے مولوی اور قرآن کاحافظ ہو۔
(۹) کلرک کے عہدہ کے لئے کسی منظور بورڈ سے ۶۰؍فیصد نمبرات سے ہائی اسکول یا مساوی امتحان پاس ہو۔
تقرری کا طریقہ: مدرسہ کی مجلس منتظمہ کو مندرجہ ذیل ضابطوں کی پابندی کرنے کے بعد تقرری کے لئے اختیار دیا جائے گا۔
(۱) ہیڈ مولوی کے عہدہ پر پرموشن کے لئے مقررہ تعلیمی لیاقت اور تعلیم تجربہ ضروری ہوگی، اس پر براہ راست تقرری نہیں ہوگی۔
(۲) عالم کے عہدہ پر کم سے کم پانچ سال کی مدت مکمل کرے اور فاضل کی لیاقت ہونے پر فاضل استاد کے عہدہ پر پرموشن دیا جائے گا، اگر اس قابل کوئی نہ ہوتو براہ راست تقرری کی جائے گی۔
(۳) مولوی اسسٹنٹ کے عہدہ پر کم سے کم چار سال کی مدت کا تعلیمی تجربہ اور عالم کی ڈگری ہونے پر پرموشن دیا جائے گا، اگر اس لیاقت کے استاذ نہ ہوں تو براہ راست تقرری کی جائے گی۔
(۴) حافظ مع مولوی اسسٹنٹ اور انٹرمیڈیٹ ٹرینڈ کے عہدہ پر براہ راست تقرری کی جائے گی۔
(۵) مدرسہ کے معاون مدرس، کرانی اور گارڈ کے عہدہ پر براہ راست تقرری ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ تیار کئے گئے پورٹل کے ذریعہ کیا جائے گا۔ پورٹل پر تقرری کے لئے درخواست کے ساتھ ساتھ ضلع کے اندر سبھی عہدہ کی سیٹوں کی اطلاع رہے گی۔ پورٹل کے ذریعہ امیدواروں سے آن لائن درخواست حاصل کی جائے گی۔ درخواست دینے کے لئے دواہم اردو؍ ہندی اخبارات میں اعلان شائع ہوں گے، اس کی اطلاع پورٹل پر ڈالنا ضروری ہوگا۔
موصول درخواست کی بنیاد پر درخواست دہندہ کی لسٹ تیار کی جائے گی اور پھر مدرسہ کی مجلس منتظمہ کی لسٹ کے مطابق امیدواروں کو مقرر تاریح، وقت اور جگہ پر کانسلنگ میں شامل ہونے کے لئے پورٹل کے ذریعہ اطلاع دی جائے گی۔
(۶) کانسلنگ سے متعلق تمام کارروائیاں متعلقہ مدرسہ میں بہار شکچھا سیوا کے افسر کی نگرانی میں ہوگی، جس کو ضلع ایجوکیشن افسر نامزد کریں گے۔
(۷) کانسلنگ مکمل ہوجانے کے بعد اس کو پورٹل پر ڈال دیا جائے گا، پھر مجلس منتظمہ کے سکریٹری تمام کاغذات کو مدرسہ بورڈ میں جمع کریں گے، جس کومدرسہ بورڈ کے ذریعہ پورٹل سے توثیق کرکے اس کو منظوری دی جائے گی یا نامنظور کیا جائے گا ۔ اگر نامنظور کیا جائے گا ، تو اس کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ کیوں نامنظور کیا جارہا ہے۔ اگر مجلس منتظمہ بورڈ کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہوتو اس کو اپیل کرنے کا اختیار ہوگا، اپیل اس افسرکے پاس کی جائے گی ،جو حکومت کی طرف سے نامزد کیا جائے گا۔
خوبیاں
آپ نے نوٹیفکیشن ۳۹۵؍اور ۳۹۶؍ مورخہ ۲۲؍۴؍۲۰۲۲ء کا مطالعہ کیا، اب اس کی خوبیوں اور اس کی خامیوں پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
پہلے نوٹیفکیشن ۳۹۵؍ مورخہ۲۲؍۴؍۲۰۲۲ء جو مجلس منتظمہ سے متعلق ہے، اس کی خوبیاں پیش ہیں۔
(۱) اس نوٹیفکیشن سے مجلس منتظمہ کی تشکیل میں کچھ شفافیت آنے کی توقع ہے۔(۲) اس کے انتخاب کا اختیار ہیڈمولوی یا اس کے ذریعہ نامزد مولوی کو اختیار دیا گیا ہے، اس سے پرانے سکریٹری کا عمل دخل کچھ کم ہوگا۔ (۳) ضلع ایجوکیشن افسر یا اس کے ذریعہ نامزد آفیسر کی نگرانی میں انتخاب ہوگا، اس کی وجہ سے انتخاب میں شفافیت آئے گی۔
نوٹیفکیشن ۳۹۶؍ مورخہ ۲۲؍۴؍۲۰۲۲ء جو اساتذہ تقرری سے متعلق ہے، اس کی کچھ خوبیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱) اس نوٹیفکیشن سے اساتذہ کی تقرری میں شفافیت آئے گی۔(۲) مجلس منتظمہ کی اقرباءپروری اور دیگر کمزوریوں پر پابندی لگے گی۔(۳) خالی عہدے جو برسوں سے خالی رکھے گئے ہیں، ان کو جلد پُر کرنے میں آسانی ہوگی۔
(۴)تقرری کے اس طریقہ سے بچولیوں پر پابندی لگے گی۔(۵) خالی عہدوں کی خریدوفروخت کی جو شکایتیں موصول ہورہی تھیں، ان پر بھی قدغن لگنے کی امید کی جاسکتی ہے۔(۶) مدرسہ بورڈ کی جانب سے غیرضروری دبائو میں بھی کمی آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔(۷) حافظ کو ان کوالیفائیڈ تسلیم کیا گیا تھا، اس میں ان کو کوالیفائیڈ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، یہ اچھی بات ہے۔
خامیاں
(۱) مدارس ملحقہ اقلیتی ادارے ہیں، کورٹ نے ان کو اقلیتی ادارہ تسلیم کیا ہے، آئین کی دفعہ ۲۹؍۳۰ میں اقلیت کو اپنا ادارہ قائم کرنے اور چلانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مجلس منتظمہ اور اساتذہ تقرری کے لئے ضابطہ بنانا مدارس کے اقلیتی کردار اور ملک کے آئین میں دیئے گئے حقوق کے خلاف ہے۔
(۲) بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ۱۹۸۱ کے مطابق بورڈ خود مختار ادارہ ہے۔ ایکٹ کے مطابق اصول وضوابط بنانے کا اختیار مدرسہ بورڈ کو ہے، سرکار کی طرف سے اس کو بنانا ایکٹ کی خودمختاری کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
(۳) بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بہت سے مدارس ملحق ہیں، اس طرح اس کا تعلق مجلس منتظمہ، اساتذہ، ملازمین اور عام لوگوں سے بھی جذباتی لگائو ہے، اس کے اصول وضوابط کو شائع کرکے اس پر مشورہ طلب کرکے آخری شکل دینے کی ضرورت تھی ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے، جو سرکاری اصول کے خلاف ہے۔
(۴) مدارس ملحقہ میں بہت سے ادارے وقف ہیں،وقف کا ایک الگ اصول ہے، ان میں وقف کی رعایت نہیں کی گئی ہے۔
(۵) مدارس ملحقہ کے اساتذہ وملازمین کو حکومت انودان کی رقم دیتی ہے، یہ سرکاری ملازم نہیں ہیں، اس طرح غیر سرکاری ملازمین کے لئے سرکار کی جانب سے اصول وضوابط بنانا صحیح نہیں ہے، اساتذہ ملازمین کی تقرری کا اختیار مجلس منتظمہ کو ہے، اس طرح یہ نوٹیفکیشن مجلس منتظمہ کے اختیار ات میں مداخلت ہے۔
(۶) پہلے تحریری اور تقریری انٹرویو کے ذریعہ قابل اساتذہ کی تقرری کی جاتی تھی، نوٹیفکیشن سے ظاہر ہورہا ہے کہ پورٹل کے ذریعہ بحالی نمبرات کی بنیاد پر ہوگی، اس سے اچھے اور قابل اساتذہ کی تقرری نہیں ہوسکے گی۔
(۷) اساتذہ تقرری میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جس ضلع میں مدرسہ واقع ہے، جہاں تقرری ہونی ہے، امیدواراسی ضلع کا مستقل باشندہ ہو، یہ قید صحیح نہیں ہے، یہ سرکاری ضابطہ کے خلاف ہے۔
(۸) بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ خود مختار ادارہ ہے، اس لئے بورڈ نے چند مستند مدارس نظامیہ کے فارغین کو تقرری کے لئے موقع دیا تھا کہ ان کے فارغین بھی مدارس ملحقہ میں بحال ہوسکیں گے، مگر اس نوٹیفکیشن میں اس کو بند کردیا گیا ہے، یہ مدرسہ بورڈ کی خود مختاری کے خلاف ہے۔
(۹) مدارس ملحقہ کے نصاب تعلیم میں مختلف مضامین شامل ہیں۔ درجات کے اعتبار سے اساتذہ نہیں ہیں، حالیہ نوٹیفکیشن میں بھی اساتذہ کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، اس سے معیاری تعلیم فراہم کرانے میں دشواری پیش آئے گی، اس لئے اس میں اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت تھی، جو نہیں کیا گیا، مثلاً وسطانیہ معیار کے مدارس میں ۸؍ درجات ہیں، جبکہ اساتذہ صرف ۶؍ دیئے گئے ہیں، اسی طرح باقی درجات میں بھی کلاس کے اعتبار سے اساتذہ نہیں ہیں، اس کی رعایت نوٹیفکیشن میں نہیں ہے۔
(۱۰) علوم عصریہ کےٹیچر کی صلاحیت کے ساتھ اردوداں درج نہیں ہے، اس طرح علوم عصریہ کے ٹیچر کے عہدہ پر کسی کی بھی تقرری ہوسکتی ہے، جبکہ مدارس کا نظام تعلیم اردو میڈیم ہے، اس طرح خدشہ ہے کہ غیراردو داں ٹیچر کی بحالی ہوجائے، جس کی وجہ سے طلبہ کو فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔
رابطہ: موبائل:9835059987
Email:abul.kalam.qasmi@gmail.com
یہ بھی پڑھ سکتے
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا پریکشا میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات جواب کے ساتھ دیکھیں
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!