فکر و نظر / مضامین و مقالات

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی

__
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جمہوریت انگریزی لفظ ڈیموکریسی(Democracy)کا اردوترجمہ ہے، جویونانی زبان کے لفظ ڈیمو(Demo) اور کریٹوس (Kratos)سے مرکب ہے۔ڈیمو(Demo)کے معنی ہیں عوام اور کریٹوس(Kratos)کے معنی ہیں حکومت، اس طرح جمہوریت کا مطلب ہوا عوام کی حکومت ، لیکن عملاً اس پھیلی ہوئی دنیا اور بڑھتی ہوئی آبادی میں عوام کا براہِ راست اجتماعی طورپر حکومت میں حصہ لینا دشوار تھا،اس لیے(Democracy) کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ری پبلک(Republic)بھی جوڑ دیاگیا،

یہ اطالوی زبان کے رس پبلیکا (Respublica)سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی ہیں”ایسی طرز حکومت جس میں عوام براہِ راست حصہ نہ لیتے ہوں، بلکہ عوام کے منتخب نمائندے اس بار گراں کو اٹھا کر سماجی،ثقافتی، اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہوں۔ اس لیے اب اگر ہم جمہوریت کالفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد ڈیموکریسی (Democracy)کے ساتھ ساتھ ری پبلک(Republic)نظام حکومت بھی ہوتاہے۔

تاریخی پس منظر: جمہوری نظام حکومت کی بنیاد کب سے پڑی، یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے تاہم اتنا ضرورکہا جاسکتاہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں جب انسان پتھر اورتانبے کے دور سے نکل کر ایک منظم سماج کی تشکیل کررہا تھا، تو سربراہ ، قائد اورقبیلوں کے سرخیل کے انتخاب میں لاشعوری طورپر جمہوری طرز اختیار کرتاتھا۔ چنانچہ یونان کے علاقہ ایتھنس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ایسی جمہوریت کا پتہ چلتا ہے جس سے دس ہزار کی آبادی میں سےایک تہائی یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار آدمی حکومت کے کاموں میں براہِ راست حصہ لیتے تھے۔ویشالی جو جمہوریت کی جائے پیدائش ہے وہاں کے ایوان میں سات ہزار سات سو ستہتر ارکان ہوا کرتے تھے۔

حکومت کی ارسطا طالیسی تقسیم :زمانہ قدیم میں قبل مسیح ہی سے عملاً شعوری طور جمہوریت قائم ہوگئی تھی، لیکن اسے کسی سیاسی نظریے کے طورپر قبول نہیں کیاجاسکا تھا، کیونکہ اس وقت معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرسکا تھا جو سیاسی اور سماجی طورپر کسی نظریے کی داغ بیل ڈالتا، بعد میں جب انسانی معاشرے نے کچھ ترقی کی اور سماج میں تہذیب وتمدن نے اپنا مقام حاصل کرلیا تو مشہور فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب ”سیاسیات “ میں (1)بادشاہت (Royalty) (2)شخصی حاکمیت(Autocracy) (3)طبقاتی حکومت (Oligarchy) اور (4)پالیٹی (Polity) کا سیاسی نظریہ پیش کیا، جو اب تک کی سب سے قدیم اور شاید سب سے سادہ تقسیم ہے،اس سے قبل جمہوریت کا کوئی فکری تصورنہیں تھا۔

جمہوریت ایک سیاسی نظریہ: زمانے نے کچھ اور ترقی کی، یہاں تک کہ سترھویں صدی کا انقلاب آفریں دور آگیا، عیسائی مذہب کی دیواریں منہدم ہونی شروع ہوگئیں، پاپائیت اورشخصی آمریت کی اہمیت باقی نہ رہی، ظلم وتشدد کے خلاف سماجی وسیاسی شورشیں زور پکڑنے لگیں، اور اس آگ کے شعلے مذہب کے دامن سے نکل کر سیاست کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے، میکاویلی(Macavelli)اور طامس ڈیکن(Thomas Decean)نے شخصی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے جمہوریت کو سیاسی نظریے کے طورپرپیش کیا، خوش قسمتی سے اس نظریے کو اپنے ابتدائی دور میں ہی سرطامس مور(Sir Thomesmore) جیسے مفکر کی حمایت حاصل ہوگئی،

جس نے اپنے مشہور ومعروف کتاب ”لی ٹوپیا“(Litopia) میں مثالی اشتراکیت (Idealsocialion) اور جمہوری حکومت (Democraticstate) کے نظریے پرعقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں کرامویل کی قیادت میں 1688میں انقلاب برپا ہوا اور پھر عوام نے فرانس اور جرمن حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی جمہوریت کی آغوش میں دے دیا، مرور ایام کے ساتھ اس نظریے نے اتنا فروغ پایاکہ کہیں تو شاہوں نے برضا ورغبت گدی خالی کردی اور کہیں عوام نے جبراً تخت نشیں کو خاک نشیں بناکر اپنا تسلط قائم کرلیا۔

جمہوریت کی تعریف: ابراہیم لنکن(Abraham Lincoln) نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عوام کی حکومت جو عوام کے ہاتھوں اور عوام کے لیے ہو“(Government of the People for the People and by the people) کو جمہوریت کہتے ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے انتخاب کی بنا پر کسی کو حاکم مقررکرلیاگیا ہو اوروہی شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہو“۔

جمہوریت کے اجزاءترکیبی: مختلف ماہرین سیاسیات نے جمہوریت کے مختلف اجزاءترکیبی بیان کیے ہیں، لیکن ان تمام میں دواجزاءمشترک ہیں،ایک سیکولرزم اور دوسرا نیشنلزم،سیکولرزم کے معنی لادینی، غیر مذہبی، خدا بیزاری کے ہیں، اوراصطلاح میں سیکولرزم ایسے رجحان کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق سیاسی اورسماجی اداروں میں ، مذہبی معتقدات اور مابعدالطبعی تصورات پر مبنی نہ ہوں، اس کا دوسرا جزئ نیشنلزم ہے جو مساوات ، انقلابی اور قومی نظریہ کے مترادف ہے۔ان کے علاوہ آج کے ترقی پذیر دورمیں مغربی جمہوریت کے کچھ اور اجزاءترکیبی امیدواری (Candidating) ورغلانا(Canvencing)پروپیگنڈہ، رائے دہندگی(Voting)اور کثرت رائے (Majortty) نکل آئے ہیں جو جمہوریت کے بازار میں سکہ رائج الوقت کی طرح چلتے ہیں۔

جمہوریت نے کیادیا؟ابتداءمیں جمہوریت کا نظریہ شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیش کیاگیاتھا، جس کے معنی یہ تھے کہ خاندان کے کسی ایک فرد کو لاکھوں اورکروڑوں انسانوں پرحکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، تمام انسان برابرہیں، ان میں سے ہرایک کی اپنی انفرادی اہمیت ہے، جب کہ شخصی حکومت میں انفرادی حیثیت غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس لیے انسانیت اور انفرادی اہمیت کی ازسرنو بحالی کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ جمہوریت کو فروع دیاجائے تاکہ انسان کی حیثیت صرف ایک خارجی شئے کی نہ رہ جائے بلکہ اسے سماجی ، سیاسی اور شہری حقوق بدرجہ اتم حاصل ہوں، وحشی مادی قوتوں اور بہیمانہ خاصیتوں کا زوال ہو، اور انسان انسانیت کی ڈگر پر آگے بڑھ سکے،

اقتصادیات میں قومی دولت کو اتنا فروغ مل جائے کہ ملک کی ساری آبادی کو ایک معقول زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آسکے اور دولت کی تقسیم کا ایسا معقول انتظام ہو کہ سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی کشمکش ختم ہواور ہر ایک کو معیاری زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرائے جاسکیں۔

لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،جمہوریت کے تانے بانے بھی ان مسائل کو حل کرنے میں تارعنکبوت ثابت ہوئے، آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جن خطرات سے بچنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے گئے تھے وہ سب خواب وخیال بن کر آرزوؤں کی چتا پربے گور وکفن پڑے ہوئے ہیں، اس کے برعکس قومیت ووطنیت کے جھگڑے نے آج سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے،اورآمریت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے، استعماریت نے اپنے خونی پنجے انسانیت کی شہ رگ میں اتارناشروع کردیاہے، طبقاتی کشمکش اور غریبی امیری کی خلیجیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ شاید مدتوں تک انہیں پاٹا نہ جاسکے۔ اوراس طرح دنیا دوعالمگیر جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے،نیوکلیائی ہتھیاروں اورایٹمی توانائی کے اس دور میں جس کا روکنا شاید ممکن نہ ہو۔

غلطی کہاں ہوئی؟جمہوریت میں جہاں تک شخصی حاکمیت کے ختم کرنے کا تصور ہے وہ اپنی جگہ نہ صرف درست بلکہ لائق ستائش ہے،ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ جمہوریت کی دعوت ایک ایسی دعوت ہے، جوعام انسانی سوسائٹی کی عالمی انسانی تنظیم کے لیے کوشش کرتی ہے، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جمہوریت افراد اور قوموں کے درمیان بلاتفریق تمام نوع انسا ن کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے کوشاں ہے، اگربات اتنی ہی ہوتی تو اس سے انسانیت کودرپیش چیلنج کا حل بآسانی ہوسکتا، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ شخصی حکومت کے عدم سے ایک وجود اور نہیں سے”ہے“ نے جنم لے لیاہے۔ جوبنیادی طورپرغلط ہے ،

عوام کی حکومت اور قانون سازی کا حق (Right to Rule) عوام کو دیدینا یہ جمہوریت کی اتنی بڑی خرابی ہے جس نے اس کے تمام اصلاحی اقدامات اور انقلابی افکار کو منجمد کردیاہے، جب سنگ بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو دیوار کے سیدھے ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں جمہوریت کے بانیوں اورداعیوں نے شدید ٹھوکریں کھائی ہےں وہ یہ بھول گئے کہ یہ نظر یہ انسان پر انسان کی برتری کوتسلیم کرتا ہے اوریہی ملوکیت کی دوسری شکل ہے،

انھیں یہ بھی خیال نہیں رہاکہ جب قانون سازی کا حق عوام کو دے دیا جائے گا تو ہر قوم اپنے مفادات اور حالات کے اعتبار سے قوانین بنائے گی اور اگر یہ کام مجلس قانون ساز کے ذمہ بھی کردیا جائے گا تو بھی اس کے ارکان اپنے کو ذات پات کے حدود، قبائلی، علاقائی، لسانی ، اور جغرافیائی حصا رسے الگ نہیں کرسکیں گے، نتیجتاً ایسا قانو ن کبھی بن ہی نہیں سکے گا جو تمام طبقے کے لیے موزوں اور مناسب ہو،کہیں ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکراجائے گی،اور کہیں فرد کی بے لگام آزادی افکار وعمل کی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کردے گی اوراگر بالفرض ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی مغربی جمہوریت میں قومیت کا عنصر اتنا غالب ہے کہ وہ پوری عالم انسانیت کو ایک رشتے میں کبھی بھی منسلک نہیں ہونے دے گی۔ اورانسان کبھی بھی جاہلیت کے قومی تعصب اورنسلی امتیاز کے ریشمی قباکو چاک نہیں کرسکے گا اور جب تک تعصب کی یہ چادر باقی رہے گی امن وشانتی کی تمام تدبیریں ریت کی دیواروں کی طرح ہبائ ً منثورہ ہوتی رہیں گی۔

شخصی حاکمیت کا نعم البدل:
ان حالات میں آج دنیا کو ایک ایسے نظام حکومت کی ضرور ت ہے، جو مندرجہ بالا خرابیوں سے پاک وصاف ہو، اور وہ صرف اسلامی نظام حکومت ہے، اسلام بنیادی طورپر قانون سازی کا حق (Right to Rule)ایک ایسے قادر مطلق کے لیے ثابت کرتاہے، جس کے نزدیک امیر، غریب، عورت ،مرد ، کالے،گورے، شیعہ ، سنّی ، عرب وعجم، یونانی تورانی سب کے سب برابر ہیں، اس کے نزدیک نہ تو طبقاتی کشمکش ہے اور نہ اپنے حقوق محفوظ رکھنے کا کوئی سوال ، وہ جمہوریت کا قائل ہے، لیکن ایسی جمہوریت کا نہیں جوتمام دنیا کو خونی آماجگاہ بنادے، بلکہ وہ اپنی حکومت انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انسانوں کے ہاتھوں سے چلواتا ہے، گویا کہ اسلام کے نظریہ سیاسی میں عوامی حکومت (Government of The People) کے بجائے خدائی حکومت(Government of The God) کا تصور غالب ہے اوراسی لیے اس نے انسانوں کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایاہے،

خدائی قانون کے علاوہ کسی بھی انسانی قوانین کو وہ جھوٹ ، کذب، اوربہتان طرازی سے تعبیر کرتاہے۔وہ تمام دنیاکے لوگوں کو ایک قانون اوراٹل دستور کا پابندکرنا چاہتاہے اور تمام غیر خدائی قوانین سے گریز کاحکم دیتاہے:وہ کہتا ہے کہ حکمرانی خدا ہی کی ہے، وہ جس کوچاہتا ہے ، اپنی حکومت بطور خلافت اس کے ذمہ کردیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتاہے۔وہ اپنی حکومت سے تمام شرکائ کی نفی کرتاہے ولم یکن لہ شریک فی الملک ، وہ بار بارآگاہ کرتا ہے کہ حکومت اسی کی ہے اور خلق بھی اسی کا ہے ، الالہ الخلق والامر اور پھر بھی اگر لو گ نہ مانیں اور اپنی حکمرانی ہی پر مصر ہوں تو اسلام آخری اور حتمی فیصلہ سنادیتاہے:کہ جولوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button