اہم خبریںمضامین

امام الہند مولانا آزادرحمہ اللہ….امیر شریعت سابع رحمہ اللہ کی نظر میں

عین الحق امینی قاسمی

مولانا محی الدین احمد ابوالکلام آزاد کی کثیر الجہات شخصیت نے بہت سوں کو متآثر کیا ،جامع الکمالات اشخاص میں مولانا آزاد کو کئی جہتوں سے اولیت وفوقیت حاصل تھی ،وہ باکمال خطیب بھی تھے اور مستند مفسر بھی ،بے مثال انشاء پرداز بھی اور طرح دار ادیب بھی ،یعنی انہیں جس جہت سے بھی دیکھیں ،وہ گفتار وکردار، پختہ فکر و شعور ،سیاسی گلیاروں کے رازداں اور قومی یکجہتی کے لئے بے کراں ملیں گے ۔وہ ایک اچھے شہری ہی نہیں ،بلکہ شہریت کو ان سے افتخار واعتماد حاصل تھا ،ان کی بہت سی خوبیوں میں "علم "شعور” بے نفسی” اور”وطن پرستی "نے انہیں صرف معاصرین کے بیچ ممتاز نہیں رکھا ،بلکہ آنے والے بھارت کے لئے بھی بے لوث راہبر اور سراپااحترام ووقاربنا دیا ۔

آزاد بھارت کے اندر مولانا آزاد کے قدردانوں میں اور ان کی بہت سی خوبیوں میں شریک وسہیم ،بلکہ مولانا آزاد کے پرتو اور نقش جمیل کے طور پر ایک بڑا نام امیر شریعت سابع بہار اڑیسہ جھار کھنڈ مولانا محمد ولی رحمانی نور اللہ مرقدہ کی ذات والا صفات کا ہے ،جنہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ رح کے بعد اگر وہ کسی کے "علم وحلم "کوتاحیات لائق کرتے رہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی ذات اقدس تھی۔
امیر شریعت سابع نے مولانا آزاد کی شخصیت کے لئے خوبیوں کے ساتھ جن بلند الفاظ کا استعمال کیا ہے پہلے اسے ایک بار پڑھ جائیے!
"عوام وخواص کو متاثر کرنے کی مولانا میں بے پناہ صلاحیت تھی ،ان کا علم ،ان کی خطابت ،ان کا سراپا ،ان کی شخصیت ،ان کا انداز ،ان کی وجاہت ،ان کا فکری تسلسل ,ان کی دین وشریعت پر نظر اور پھراپنے نقطے کو پیش کرنے کی منطقی ترتیب نےہم عصروں اور بڑے بڑوں میں مولانا کو "عظیم تر” کے درجے پر بٹھا رکھا تھا”
ان کی سحر انگیز خطابت کہ وہ جدھر کورخ کرلیتے،وہ حصہ فتح ہوجاتا تھا ،مولانا کی خطابت کا نقشہ بہت سوں نے کھینچا ہے ،ایک بار اس منظر کو بھی پڑھ لیجئے ،جسے امیر شریعت سابع نے اپنے قلم سے نقشہ کھینچ کر بتایا ہے۔”بھوپال میں عوامی اجلاس تھا ،مجمع بڑا تھا اور مخالفوں کی تعداد بہت زیادہ تھی،وہ لاٹھی چھرے اور گڈاسے بلم سےآراستہ۔مولانا اس خطرناک مجمع میں بولنے کے لئے بے چین نظر آرہے تھے،جیسے ہی ناظم اجلاس نے مولانا کا نام لینا شروع کیا ،مولانا کھڑے ہوئے ،اور ذرا دائیں جانب رخ کرکے تقریر شروع کردی ،تھوڑی دیر میں لاٹھی چھرے ہاتھوں سے چھوٹے اور مجمع ششدر،مبہوت،بلکہ مسحور۔پندرہ بیس منٹ کے بعد مولانا نے رخ بدلا اور بائیں رخ پر ذرا گھوم گئےتو سارا مجمع زیر وزبر، مولانا کو سامنے دیکھ کر سننے کے لئے مجمع ادھر سے ادھر ہوگیا ۔مولانا اس سحر انگیز خطاب کے مالک تھے”

امیر شریعت سابع، الفاظ ومعنی کے دھنی انسان تھے،انہوں نے مولانا آزاد کے لئے الفاظ کے استعمال میں گویا دل کھول دیا ،مولانا سے اپنی عقیدت ومحبت کا شاندار اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : "مگر مولانا "بھیڑ "میں تنہا انسان تھے،بے حد شریف النفس ،پر اعتماد ،دوسروں کی انسانیت اور شرافت پر اعتماد کرنے والے ،انہوں نے کبھی گروپ نہیں بنایا وہ سب کو اپنا سمجھتے تھے۔”
مولانا آزاد 22 فروری/ 1958 ء کو رخصت ہوگئے ،اوروں کے ساتھ امیر شریعت سابع پر جو اس”گذرنے” کا اثر ہوا ،اس احساس کو انہوں نے جب لفظوں کا پیرہن دیا تو تحریر یوں وجود میں آئی:
"ان تذکروں کا ایک اثر وہ کیفیت تھی جو میں نے امام الہند مولانا آزاد کے انتقال کی خبر کے بعد اپنے گھر کے اندر اور باہر دیکھی ،صبح صبح رضی بھائی آئے ،آنسوؤں سے روتے بلکتے اور کہا :”مولانا آزاد گذرگئے”ایسا محسوس ہوا کہ ہاتھوں سے کوئی نعمت چھن گئی ،میں نے مولانا آزاد کو دیکھا نہیں تھا ،چرچے گھر میں سنے تھے ،تھوڑاسا پڑھا تھا ،تو ان سے رشتہ سا محسوس ہوتا تھا ،عقیدت ہوگئی تھی ،اب جو انتقال کی خبر ملی تو جھٹکا سا لگا
کسی کی موت پر میں نے ایسی کیفیت نہیں دیکھی ،اتنے غمزدہ ،ایسے اداس چہرے ،اتنے روتے بلکتے لوگ ،ایسی سسکیاں اور ہچکیاں ،میں نے 22/فروری سے پہلے نہ دیکھا نہ سونچا اور اس کے بعد بھی زندگی میں یہ کیفیت دوایک بار ہی ملی "

مولانا آزاد کے انتقال سے ملک بھر میں جو سماں بنا ہوا تھا ،اس نے جہاں مولانا کے چاہنے والوں کو
"مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے”کی کیفیت میں مبتلا رکھاتووہیں زندگی بھر بہت سے نہ چاہنے والوں کو "خاموش مزاج” بنادیا تھا.لیکن حضرت امیر شریعت سابع کے دل میں ان کے اٹھ جانے سے جو جھٹکا لگا تھا اور جوعقیدت ومحبت بیٹھ چکی تھی ،اس نے انہیں ،مولانا آزاد کی "شخصیت” کو پڑھنے پر بے خود کردیا ،چنانچہ اس کے بعد جو انہیں، انہوں نے پڑھا تو گویا اس حوالے سے پڑھنے کو اب کچھ نہیں بچا:

"یہ مرحلے گذر گئے،اس کی سوگوار یاد میرے دل پر نقش ہے ،اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ مولانا آزاد کو میں نے پڑھنا شروع کردیا ،ان کی جتنی تحریریں ملیں ،پڑھ گیا ،چاہے وہ الہلال ،البلاغ کی فائلیں ہوں ،مولانا شروانی کے نام خطوط ہوں ،غبار خاطر یا کچھ اور۔مولانا کی عربی فارسی زدہ اردو تو کیا سمجھ میں آتی ،مگر وہ تھی بڑی رواں رواں ۔میں اس روانی میں بہتا رہا ،اور مولانا کے ساحل سے قریب ہوتا رہا ۔مولانا پر جو کچھ لکھا گیا کوشش کی ،وہ ساری چیزیں تلاش کیں ،کچھ تو بس مل گئیں اور بعض کو خریدا اور پڑھتا رہا ،اس زمانے میں مولانا کی عظمت ،ہمہ گیر صلاحیت اور انفرادیت کا جو نقش جمیل دل میں گھر کرگیا ،اس کے روشن نقوش دل میں آج بھی ہیں "

مولانا آزاد کے رجحان ونظریات اور ان کی ذاتی پالیسیوں کے حوالے سے بھی امیر شریعت سابع نے قابل احترام لفظوں میں اپنے خیالات کابے تکلف اظہار کیا ہے ،یہ اگر چہ” خیالات” ہیں ،مگر خیالات کے ضمن میں زندگی کی گتھیوں کو جس پیرائے میں سلجھانے اور اسے راہ دینے کی دانشمندانہ اور فکری جہتوں سے کامیاب کوشش کی ہے ،اس میں نئی نسل کے لئے بھی بہت کچھ پیغام ہے ، ذیل میں پڑھ جائیے امیر مرحوم کے وہ تاریخی جملے ،مثلا مولانا آزاد نےپوری زندگی کرائے کے مکان میں گذاردی ،یہ ان کی بلند خیالی اور اعلی قدروں کے ظرف کی بات تھی ،حضرت لکھتے ہیں کہ :

"آج ہر شخص” اپنا گھر ” کا خواب سجاتا ہے ،کچھ نہ ہوسکے تو اندرا آواس ہی کی آرزو رکھتا ہے "اپنا گھر "ہر فرد کی سماجی ضرورت ہے ،مگر وہ دور دوسری ضرورتوں اور اونچی قدروں کا تھا ،مولانا نے کہیں مکان نہیں خریدا ،نہ انہوں نے مکان سازی کی آرزو سجائی ،نہ ان کے پدر بزرگوار نے،چاہتے تو بڑی کوٹھی ان کے لئے چھوٹی چیز ہوتی ،مگر "ان کی ضرورت "کے خانہ میں یہ جنس تھی ہی نہیں ۔جو بے نیاز کا بندہ ہے، بے نیاز رہے”

مولانا آزاد کے بھولاپن اور انتہائی خالی الذہن ،بے لاگ لپیٹ، مخلص بن کر ملک وملت کے ایک خادم کی حیثیت سے آزادی وطن کی بھینٹ چڑھنے والے مولانا آزادنے کیا کھویا اور کیا پایا ،اس کو بھی بھارت کی شطرنجی چالوں کے پس منظر میں ضرور پڑھائےجائے ،حضرت صاحب لکھتے ہیں :” انہوں نے کبھی گروپ نہیں بنایا ،وہ سب کو اپنا سمجھتے تھے ،یہی مولانا کی بڑی طاقت تھی ،اور یہی سب سے بڑی کمزوری،جس وقت پنڈت جواہر لال نہرو خاموش ہوگئے اور گاندھی جی نے پاکستان بننا قبول کرلیا ،مولانا کو اپنی کمزوری اور تنہائی کا پورا احساس ہوا ہوگا ،،مولانا کی نگاہوں کے سامنے خیالوں کا "تاج محل” بکھر چکا تھا "

مولانا آزاد چوں کہ نرے عالم ہی نہیں تھے ،وہ ایک عدد مسلم رہنما اور اپنے عظیم باپ کے باوصف عظیم بیٹے بھی تھے ، اس حوالے سے لوگوں میں ان کی عقیدت ومحبت ،راہ ورسم ،صف بستگی و وابستگی ہونی ہی تھی اورانہیں سب نسبتوں سے لوگ ان سے رجوع بھی ہوتے تھے،مگر مولانا آزاد کو اپنے محبین کی صف بندیوں سے بڑی وحشت ہوتی تھی ،وہ مرکزی انسان ہونے کے باوجود بھیڑ سے بچ نکلنےاور تنہائیوں کے متلاشی رہتے ،وہ حضرت حضور کہلانےاور مصافحہ و معانقہ سےدور بھاگتے تھے۔وہ وقت کے بڑے پابند تھے ،چائے کے لئے وقت تووہ نکالتے تھے ،مگر چائے کا جو وقت ہے اور یہی حال تقریباًملاقات کا بھی رہا ۔کتابوں سے عشق تھا ،اس درجہ کہ "خلوت "میں گاندھی جیسے "اپنے” کوبھی گھسنے نہیں دیا ،کہلا بھیجا کہ جلوت میں شام کو ملنے آجائیں ۔یہ میرے مطالعے کا وقت ہے ،(گاندھی جو "ڈورے ڈالنا اور لپٹنا ” خوب جانتے تھے)،ان سے قربت کے باوجود مولانا آزاد کا ملنے سے انکار اوران جیسی علمی وسماجی اور تحریکی آدمی کے لئے اتنے سخت "تحفظات” برتنے سےجو ردعمل آنا تھا سو آیا اور اسی "آنے "کا نتیجہ ہے کہ اتنے بڑے لیڈر کی بات نہ کانگریس نے مانی اور نہ مسلمانوں نے ،جس کا انکشاف بہت صاف لفظوں میں درد وکرب کے ساتھ مولانا آزاد نے بالآخر بعد کے دنوں میں کرہی دیا : "اگر دنیا دس ہزار سال یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی :” ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ، دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی”
امیر شریعت سابع نے احترام و انداز میں ان جیسے محتاط پہلوؤں پر جو کچھ لکھا ہے، اس کا ایک ایک لفظ قابل مطالعہ اور عضوا بالنواجز کے قبیل سے ہے ۔

(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button