(مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
ہمارے عہد میں شہر عظیم آباد میں ادب کے قلم رو میں دو سلطان بہت جانے پہچانے گئے ، ایک سلطان اختر جو جدید غزل کے نامور شاعر تھے، لاک ڈاؤن کے زمانہ میں حال ہی میں دنیا کو الوداع کہاہے، اب پٹنہ کی ادبی دنیا میں صرف سلطان آزاد رہ گئے ہیں، اللہ کا شکر ہے ان کی روح ابھی قفس عنصری میں موجود ہے، ہم ان کے لیے صحت وعافیت کے ساتھ درازیٔ عمر کی دعا کرتے ہیں، ان کی سلطانی ادب کے مختلف اصناف پر جاری وساری ہے ، افسانہ ، تنقید ، تحقیق ، تبصر،ے، خاکے، فیچر اور ڈرامے ہر اصناف میں ان کی تحریریں موجود ہیں، معلوماتی بھی ہیں، اور وقیع بھی ، ادب میں ان کی خدمات کو سمجھنا ہو تو ان کی مطبوعہ کتابوں ’’دبستان عظیم آباد، بہار میں اردو طنز وظرافت ، تلاش وتجزیہ، سانچ کو آنچ نہیں، عظیم سائنس دانوں کی کہانیاں ، آئینہ آج کا ، سب رس ، شعور کی رو، فن طباعت، بہار میں اردو طنز وظرافت اور بہار کا رثائی ادب‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے، ان کتابوں کے مطالعہ سے سلطان آزاد کی پرت در پرت شخصیت قاری کے سامنے کھل آتی ہے۔
زیر مطالعہ کتاب ’’ادبی جہتیں‘‘ ان کے اکیس مضامین کا مجموعہ ہے، اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ’’تحقیقی وتنقیدی جہتیں‘‘ میں تحقیق وتنقید ہے، ’’تخلیقی جہتیں‘‘ میںخاکے ہیں، اور ’’نقد ونظر‘‘ میںمطالعہ کا حاصل پیش کیا گیا، آخر میں مصنف کی کتاب ’’سب رس‘‘ اور’’ شعور کی رو‘‘ پر اہل علم وفن کے تاثرات پر مشتمل مضامین شامل کتاب ہیں۔ ۱۶۸؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آخری صفحہ سلطان آزاد کی کتابوں کی فہرست کے لیے مختص کیا گیا ہے، کتاب کا آغاز گفت باہمی سے ہوتا ہے، جو نذیر فتح پوری کے قلم سے ہے، پھر مصنف نے اپنی بات اپنے انداز میں کہی ہے، کتاب کے فلیپ پر ایم نصر اللہ نصر ہو ڑہ مغربی بنگال اور نذیر فتح پوری کے خیالات کو جگہ دی گئی ہے، جواسی کتاب میں شامل نذیر فتح پوری کے ’’گفت باہمی‘‘ سے ماخوذ ہے، کتاب کا انتساب ذیشان عظیم آباد کے نام ہے، جن سے سلطان آزاد کی ادبی پہچان ہے۔کتاب کی قیمت چار سو روپے رکھی گئی ہے ، جو اردو قاری کی قوت خرید کا امتحان ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے اس کی اشاعت ہو ئی ہے، اس لیے کتاب جاذب نظر ہے، سرورق کا ڈیزائن بھی دیدۂ ذیب ہے اور آنکھوں کو بھاتا ہے، یہ تو ہوا کتاب کا تعارف ۔
جہاں تک کتاب کے مندرجات کا سوال ہے تو ایمان داری کی بات یہ ہے کہ ان مضامین میں تحقیق بھی ہے اور تنقید بھی ، ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لیے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ، تحقیق بغیر تنقید کے اصلا کتابوں کے اقتباس کی نقل ہوجاتی ہے، تحقیق کو تنقید کی کسوٹی میں چھانٹ پھٹک کر ہی چیزیں سامنے آتی ہیں، سلطان آزاد کے جومضامین تحقیقی وتنقیدی جہتوں کے حوالہ سے ہیں، ان میں ان کے مطالعہ کی گہرائی ، دیدہ ریزی اور تنقیدی بصیرت کا عکس جمیل ہمارے سامنے آتا ہے ، نقد ونظر کے ذیل میں جو انہوں نے اپنا مطالعہ پیش کیا ہے ، اس سے میرے خیال کی تائید ہوتی ہے۔
خاکے اس کتاب میں چار ہی ہیں، متین عمادی ، ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی ، شاہد احمد جمالی اور اکبر رضا جمشید ، ان خاکوں میں سلطان آزاد نے خاکہ نگاری کے فن کو برتا ہے ا ور اس طرح الفاظ کے رنگوں سے کاغذکے کینوس پر ان کا عکس اتار ا ہے کہ ان کی زندگی چلتی پھرتی نظر آتی ہے، شخصیت کی خدمات کا نقشہ بھی ذہن ودماغ پر مرتسم ہو جاتی ہے ، البتہ ان کی زندگی کے شب وروز اور ان کے سوانحی حوالات آنے سے رہ گیے ہیں، یہ سلطان آزاد کی کمی نہیں ، بلکہ خاکہ نگاری کے حدود وقیود متعین کرنے والوں کی کمی ہے ، ادب کے اجارہ داروں کا خیال ہے کہ خاکہ میں سوانحی کوائف نہیں آنے چاہیے، لیکن اس سمت میںایک تجربہ کرکے دیکھنا چاہیے، کیوں کہ سوانحی کوائف سامنے آنے کے بعد ایک ہی مضمون سے قاری کی تشفی ہوجاتی ہے ، میں نے اپنے خاکوں کے مجموعے ’’یادوں کے چراغ‘‘ میں اس کا اہتمام کیا ہے ، اسے ایک تجربہ سمجھنا چاہیے ، ظاہر ہے خاکوں کے حدود وقیود جو ہمارے نقادوں نے مرتب کیا ہے وہ ’’منزل من السمائ‘‘ تو ہیں نہیں ، ادب میں تجربات جاری رہتے ہیں، ان تجربوں کے قبول میں برسوں لگ جاتے ہیں، میرا خیال ہے کہ اس تجربہ کو آگے بڑھا کر دیکھنا چاہیے، فیضان حیدر مدیر ’’سہ ماہی فیضان ادب‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’سلطان آزاد میں بات گو صحیح ڈھنگ سے پیش کرنے کا ہنر موجود ہے ، وہ بات میں بات پیدا کرنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں، تمام مضامین میں انہوں نے معیار ووقار بر قرار رکھنے کی کوشش کی ہے، اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔‘‘
سلطان آزاد کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کسی خاص ادبی تحریک کے خانے میں رہ کر بات نہیں کرتے، وہ سارے دبستان سے عطر کشید کرکے قاری کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ یہ قاری کاکام ہے کہ وہ اس کی مہک سے ذہن وشعور کو کس قدر معطر کر پاتا ہے اور ان کی تنقید کو کس خانے میں ڈالتا ہے، میرا احساس وخیال یہ ہے کہ وہ عملی تنقید میں جمالیاتی تنقید کو پسند کرتے ہیں اور پسندیدگی کا گراف اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کے ڈانڈے تاثراتی تنقید سے جا ملتے ہیں، البتہ جب وہ تحقیق کو تحریر کا مرکزی محور بناتے ہیں تو ان میں ان کی ساری توجہ تحقیق پر مرکوز ہوتی ہے، تحقیق کے ساتھ تنقید وہ ضرورتاً کرتے ہیں،مختصر تنقید میں بھی وہ کام کی بات کہہ جاتے ہیں۔
بہر کیف سلطان آزاد کو اپنا مطالعہ سلیقہ سے رکھنے کا ہنر آتا ہے، وہ جس طرح کا مضمون لکھتے ہیں، اس کے لیے ویسے ہی الفاظ اور اسلوب کو اختیار کرتے ہیں اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہیں۔
مکتبہ آزاد دپنو لین ، گلزار باغ پٹنہ اور بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے یہ کتاب قیمتاً حاصل کی جا سکتی ہے۔