آثار قدیمہ کی حفاظت
_ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دنیا کے تمام ممالک میں آثار قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے ، کیوں کہ یہ آثار اس ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ کا حصہ ہیں، ان کے مٹانے کی کسی بھی کوشش کا صاف مطلب اپنی تہذیب اور تاریخ پر کلہاڑا چلانا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک آخری حد تک اس کی بقا کا انتظام کرتا ہے، اور اس کی حفاظت پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا فائدہ ملک کو یہ ہوتا ہے کہ سیاح اس کو دیکھنے کے لیے دو ر دور سے آتے ہیں، جو اس ملک کی آمدنی میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے اوراس کے ذریعہ ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ سے دیگر ممالک کے لوگ بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
برطانیہ ، متحدہ عرب امارات وغیرہ اس سلسلے میں زیادہ حساس ہیں، وہ قدیم گھروندے اور پرانی روش اور بود وباش کے طریقوں کو بھی نقاشی اورمصوری سے اجاگر کرتے ہیں، اس طرز کے مکانات بنا کر اس میں وہاں کی تہذیب وثقافت کو محفوظ کر لیتے ہیں، وہ پائے اور پیلر تک کو تاریخی سمجھتے ہیں اور ان کو برباد کرنے کی کوئی مہم جرم کے درجے میں شمار ہوتا ہے۔ مصر اور موہن جو داڑو، ہڑپا کی تہذیب عالمی طور پر قدیم تصور کی گئی ہے ، ایک مصر کے حصہ میں آئی اور دوسری غیر منقسم ہندوستان کے،
تیسرے نمبر پر ویشالی کے لچھوی راجاؤں کی تہذیب تھی، جو بہار کے لیے باعث فخر ہے۔ مصر کے اہرام، ابو الہول، غار وغیرہ آج بھی موجود ہیں اور مصر کی معاشی استحکام کا ذریعہ در اصل یہی ہیں، اسکندریہ علاقہ کی زر خیزی اور قاہرہ علاقہ کی سیاحت نہ ہو تو مصر کنگال ہوجائےگا، ان عمارتوں نے پورا اسلامی دوردیکھا ، لیکن اسے مٹانے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آیا، بلکہ ان لوگوں نے فرعونی دور کو یاد رکھنے کے لیے میوزیم میں فرعون کی لاش محفوظ رکھی ہے ،رمسیس ثانی کے نام پر اسٹیشنوں کے نام رکھے ہیں اوراس دور کی چیزوں سے اپنے یہاں کی میوزیم کو آباد کر رکھا ہے،
انگلینڈ میں پرانے گرجاگھروں کو محفوظ کرنے اور رکھنے کے لیے دوسروں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں، لیکن اس کی اصلی ہیئت کو تبدیل کرنے کی اجازت قطعا نہیں ہوتی، افغانستان میں طالبان نے پہلے دور حکومت میں بدھ کی تاریخی مورتی کو زمین بوس کر دیا تھا توشرعی نقطہ نظر سے قطع نظر عالمی طور پر اس کی مذمت اس لیے کی گئی تھی کہ وہ ایک تاریخی ورثہ تھا، اس معاملہ میں طالبان کا کہنا تھا کہ اسلام بت شکنی کے لیے آیا تھا اور بتوں کی حفاظت ہمارا کام نہیں ہے ، ان کی دلیل میں وزن ہونے کے باوجود دنیا بلکہ عالم اسلام نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
ہندوستان مین بھی 2014 تک حکومت کا رجحان آثار قدیمہ کی حفاظت کا تھا، بھاجپا کی حکومت میں اسے دوسری نظر سے دیکھا جانے لگا، مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور حکومت کو یہ حملہ آوروں کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک ان عمارتوں کو نئے نئے نام دے کر اس کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے ، عمارت کے ساتھ شہروں ، سڑکوں، پارکوں اور ریلوے اسٹیشن تک کے نام بدلے جا رہے ہیں، حالاں کہ یہ ہمیں اس دور کی تاریخ کو یاد دلاتے ہیں، تہذیب وثقافت کو جاننے اور سمجھنے کی اہمیت بتاتے ہیں، الٰہ آباد پریاگ راج ہو گیا،مغل سرائے دین دیال اپادھیائے اور اب مغل گارڈن ”امرت ادھان“ کے نام سے جانا جا رہا ہے ، گیٹ آف انڈیا کرتویہ پتھ بن گیا، انڈیا گیٹ کے پتھر پر کندہ نام تاریخ کا حصہ بن گیے، امر جیوتی گیٹ آف انڈیا سے اٹھالی گئی ، پارلیامنٹ کی عمارت کو انگریزوں کی یاد گار قرار دے کر نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا، مغل حکمرانوں کے نام پر جو سڑکیں تھیں اسے بھی بدل دیا گیا اور جن کا کوئی رول ملک کی آزادی اورتاریخ میں نہیں تھا، وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں، گاندھی جی کو کئی جگہ سے نکال دیا گیا ہے، اور روپے پر بھی کب تک رہیں گے کچھ کہنا مشکل ہے، ڈیجیٹل انڈیا اور ڈی جیٹل روپی پر اس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
ہندوستان کے حکمرانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ آثار قدیمہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا تعلق کسی حکومت اور کسی بھی مذہب سے ہو وہ ملک کا مشترکہ ورثہ ہے، اور جس طرح دوسرے ممالک اس کی حفاظت کرے ہیں اور اس میں تبدیلی گوارہ نہیں کرتے، ہمیں بھی اس کو نہیں بدلنا چاہیے، صرف میوزیم میں مختلف ادوار کے کنکر پتھر جمع کرنا اور موتی مسجد اور لال قلعہ کے دربار خاص سے قیمتی پتھروں کو نکالنے پر نگاہ نہ رکھنا شعور کی علامت نہیں ہے ، اس لیے حکومت کو اپنا نظریہ بدلنا چاہیے اور آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے رقم بھی فراہم کرانی چاہیے، اور اس نفسیات سے نکلنا چاہیے کہ سب کچھ ہم بدل کر رکھ دیں گے۔ اس طرح تو ہندوستان بازیچہء اطفال ہوجائے گا۔