اہم خبریںکشن گنجمضامین

مسیحا جب چل بسا ۔


وہ پانچ اگست ٢٠٠٣؁ء کی ایک حبس زدہ رات تھی،حبس انتہا درجے پر ہونے کے باوجود بھی لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے،ایسی گہری نیند کہ گاؤں شہرِ خموشاں لگتا تھا،ہر سمت سکوت کا سماں تھا،افق سے افق تک سناٹا پسرا ہوا تھا،جیسے جیسے رات دبے پاؤں تاریکی کے پردے پر سرکتی ہوئی سحر کے دھندلکے کی طرف بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے میرے نانا کی زندگی دنیائے فانی سے اپنا رشتہ توڑ کر دنیائے لافانی سے اپنا رشتہ استوار کرتی جا رہی تھی۔
میرے نانا کا سر اس رات، رات بھر میری ماں کی گود میں رکھا ہوا تھا، میرے نانا کی پریشانی میں اضافہ ٤/ اگست کے دن سے ہی ہوگیا تھا،٤/اگست کے دن جب میری ماں اور میری نانی وغیرہ میرے نانا کو آخری غسل دے رہی تھیں تو میرے نانا کی زبان سے ایک غم آگیں اور اشک بار جملہ نکلا تھا کہ ” بیٹی آج تم لوگ مجھ سے نجات پاجاؤگے،تین مہینے سے میں نے تم لوگوں کو کافی پریشان کیا ہے،کل اگر تم لوگوں سے ہوگا تو میری میت کو غسل دینا،نہیں تو بس ایسے ہی مجھے چیتھڑوں میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کر دینا، ماٹی کے پتلے کو تو بالآخر ماٹی ہونا ہی ہے،چاہے اسے غسل دو یا نہ دو کفن پہناؤ یا نہ پہناؤ “ ۔
اس دن،دن کے ہرگزرتے لمحے کے ساتھ میرے نانا کی پریشانی بڑھتی رہی،جب دن کا سایہ چھٹنے کے بعد رات کی تاریکی کرۂ ارض پر نمودار ہوئی تو میرے نانا نے میری ماں کو اپنے پاس بلا لیا، اور اپنا سر ان کی گود میں رکھ کر آنکھیں موند لیں،پھرجب دن بھر کے تھکے ماندے مسافرین کے قافلے کھا پی کر بستروں کی چھاؤں میں سوگئے،حتی کہ میری نانی کی بوڑھی آنکھیں بھی نیند کے بوجھ کو سہار نہ سکیں اور وہ ایک پہلو میں وہیں لڑھک گئیں،تب رفتہ رفتہ میرے نانا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں،اور کافی حسرت و یاس سے میری ماں یعنی اپنی بیٹی کے سراپے کو نہارتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں پہلے تو اپنے بڑے بھائی کا شکوہ کرنے لگے کہ ” بیٹی! تمہارے تایا ابو کے متعلق میرے کانوں تک یہ بات پہونچی ہے کہ وہ مجھ سے کافی بدگمان ہوگئے ہیں کہ میں نے خدا اور اس کے رسولﷺ کو اپنے دل سے یکسر فراموش کردیا ہے،خدا کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کے فرمودات سے میں نے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے،بیٹی! تم کیا جانو کہ میری پریشانی کیا تھی؟ میری رات دن کی بک بک سے تم لوگ تو یہی سمجھتے رہے ہو کہ یہ بڈھا سٹھیا گیا ہے،اسے کھانے کے لئے ہوش و حواس تو ہے مگر نماز پڑھنے کے لئے اسے ہوش نہیں رہتا، بیٹی! تمہارے تایا ابو سے مجھے شکوہ نہیں،وہ میرا لنگوٹیا بھائی بھی ہے اور بے مثال رہنما بھی،مگر ان کی باتوں سے مجھے بے انتہا تکلیف پہونچی ہے کہ میں نے خدا کو اپنے دل سے بھلا دیا ہے،بیٹی!لگتا ہے اب میرا وقت آگیا ہے،میں ہمیشہ کے لئے تم سے بچھڑنے والا ہوں،جب میری آنکھیں بند ہوجائینگی تب تم لوگوں کو احساس ہوگا کہ میں کس درد و الم میں گرفتار تھا،لیکن! بیٹی اپنی آنکھیں بند کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ کچھ چھوڑ کر جاؤں تاکہ تم لوگوں کو یقین آجائے کہ میں نے اپنے خدا سے اپنا رشتہ کبھی نہیں توڑا تھا “۔
” بیٹی! میری روح مضطرب ہے کہ میں گزشتہ تین مہینوں سے اپنے رب کے حضور ایک سجدہ بھی نہ کرسکا،مجھے سورۂ بقرہ کا آخری رکوع ذرا پڑھ کر سناؤ، تاکہ میری روح کو کچھ سکون آجائے، سنا ہیکہ سورۂ بقرہ کا آخری رکوع موت کے وقت کی گرانی کو ہلکا کرتا ہے“ باپ کے آخری وقت کی اس فرمائش پر بیٹی ذرا جھینپ گئی، کیونکہ اسے اس وقت سورۂ بقرہ کا آخری رکوع یاد نہیں تھا، گوکہ بیٹی کو قرآن سے کافی شغف اور والہانہ لگاؤ تھا، دن بھر میں جب تک وہ قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت نہیں کرلیتی تھیں انہیں قرار نہیں آتا تھا،میں نے بارہا دیکھا تھا کہ میری ماں فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت وجد آفریں لہجے میں کیا کرتی تھیں، اور تلاوت کرتے کرتے کبھی ان کے آنسو رواں ہوجاتے تھے اور کبھی ان کی گھگھی بھی بندھ جاتی تھی،مگر گھریلو کام کاج کی وجہ سے اپنے وقت کو کبھی اتنا فارغ نہ کرسکیں کہ قرآن کریم کے بڑے بڑے رکوع یا بڑی سورتوں کو حفظ کرلیتیں۔(بعد میں میری ماں نے سورۂ بقرہ کے آخری رکوع کے ساتھ سورۂ یس،سورۂ رحمن،سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک یاد کرلی تھیں)


اس دن جب اپنے آخری وقت میں باپ نے بیٹی سے سورۂ بقرہ کا آخری رکوع سنانے کی فرمائش کی تو بیٹی جھینپ گئی، اور متاسفانہ لہجے میں کہنے لگی ” ابا مجھے تو یہ یاد ہی نہیں “ باپ جو نڈھال پڑا تھا اور سرگوشی کے انداز میں باتیں کر رہا تھا یکلخت چوکنا ہوگیا،کہنے لگا ” بیٹی! سورۂ بقرہ کے آخری رکوع کی کافی اہمیت ہے،اس کے پڑھنے میں بڑا ثواب ہے، اور تم کو یہی یاد نہیں “ اس کے بعد باپ نے کہا ” اچھا چلو میرا سنو“باپ نے پڑھنا شروع کیا اور پڑھتا ہی چلا گیا،ان کی آواز میں بلا کا درد اور سوز تھا یہاں تک کہ جب رکوع اپنے اختتام کو پہونچا اس وقت ان کی آواز رقت میں دب گئی،اور آنکھوں کے پردے پر آنسوؤں کے دھندلکے حائل ہوگئے۔
اس کے علاوہ باپ نے اور بھی کئی سورتوں کے سنانے کی فرمائش کی، جن میں سورۂ یٰس، سورۂ رحمن،سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک کے نام شامل ہیں، مگر بیٹی ایک بھی نہ سنا سکی،آخر باپ نے اپنی بیٹی سے ” آیۃ الکرسی “ سنانے کی فرمائش کی، بیٹی نے پڑھنا شروع کیا، جس وقت بیٹی ” وھو العلی العظیم “ تک پہونچی اس وقت باپ پر غشی طاری ہوگئی، بیٹی نے سوچا کہ شاید باپ کو نیند آگئی ہے، اس لئے وہ بھی اپنی کمر سیدھی کرنے کے لئے اٹھی،ادھر سحر کا اجالا بھی نکھرنے ہی والا تھا، بیٹی اٹھی اور اپنی ماں کو جگا کر خود دوسرے کمرے میں جا کر سوگئی۔


لیکن وہ غشی موت کا پیش خیمہ تھی، جسے بیٹی سمجھ نہیں پائی تھی، صبح ہوتے ہوتے میرا نانا عالمِ نزع میں پہونچ چکا تھا،اس وقت انہیں صرف اتنا ہی ہوش تھا کہ سر کے اشارے سے اثبات و نفی میں جواب دے سکیں،لگاتار تین مہینے سے قینچی کی طرح چلنے والی زبان پر قفل لگ گئے تھے، اس وقت میں تیرہ پارے کا حافظ تھا، میری نانی،میری خالہ،میری ماں اور میرے مامو وغیرہ نے مجھے میرے نانا کے ادھ موا جسم کے سامنے کھڑا کردیا اور انہیں جھنجھوڑنے کے انداز میں پوچھنے لگا کہ ابا جان ” یہ ظفر ہے، یہ آپ کے پاس بیٹھ کر سورۂ یسین پڑھنا چاہتا ہے “ یہ سن کر میرے نانا کے سر حرکت میں آئے اور ہلکے سے اوپر سے نیچے کی طرف جھک گئے، یہ اشارہ تھا کہ ہاں پڑھے۔
میں قرآن کریم لیکر بیٹھ گیا، اور سورۂ یٰسین کھول کر پڑھنے لگا، مجھ پر ہیجانی کیفیت طاری تھی، میں سورۂ یٰسین پڑھتا جاتا تھا اور اپنے نانا کے بےجان پڑے جسم کو دیکھتا جاتا تھا،مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے میری آنکھوں کے سمندر میں کنکری پھینک دی ہو کیونکہ میری نگاہوں میں میرے نانا کا چہرہ جھلملانے لگا تھا، تب میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھوں میں آنسوؤں کے پردے حائل ہوگئے ہیں۔
آنسوؤں کے ان پردوں کے اس پار میرا ماضی رقص کر رہا تھا،میرا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہوگیا تھا، ماضی کی منتشر یادوں کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑ کر ایک کتابی شکل میں میرے سامنے پڑی تھیں،مجھے اس کتاب کے ہر ہر پنے میں اپنا ماضی نقش نظر آرہا تھا،مجھے میرا ماضی دور بہت دور لے گیا تھا۔
مجھے اس وقت وہ لمحہ نظر آرہا تھا جب میں نہایت چھوٹا سا بچہ تھا،میں اپنے گاؤں کے اسکول کی پہلی کلاس میں بیٹھا تختی میں ورن مالا کے پہلے حرف ” ک “ لکھنے کی کوشش میں پسینے بہا رہا تھا،مگر اس کا ڈھانچہ صحیح طور سے مجھ سے بن ہی نہیں پا رہا تھا کہ اچانک بغل میں چھتری دبائے میرے نانا کا سراپا مسیحا بن کر رونما ہوا،اور جو جملہ انہوں نے اس وقت کہا وہ آج تک میرے سینے میں محفوظ ہے، میرے نانا نے کہا تھا کہ ” لاؤ پنسل! میں نے پنسل بڑھائی اور نظریں تختی پر گاڑ دیں،ہاتھ میں پنسل لئے میرے نانا مجھے سمجھا رہے تھے کہ ” ک“ لکھنے کے لئے سب سے پہلے اوپر سے نیچے کی طرف لاٹھی ( لکیر) بنائینگے،جب لاٹھی بن جائے تو دونوں طرف اس پر یوں کرکے گھما دینگے “ یہ پہلی بار تھا جب میرے نانا نے میری مسیحائی کی۔
پھر جب لاشعور کے زمانے سے نکل کر عہدِ شعور میں داخل ہوا تو ماں باپ نے مجھے اٹھا کر مدرسے میں بھرتی کردیا،بچپن کی آزادانہ زندگی کو چھوڑ کر مدرسے کی محبوس زندگی مجھے کسی ناگ کی طرح ڈس رہی تھی،جس کے تلخ زہر سے پریشان ہوکر میں بار بار گھر بھاگ اٹھتا تھا،اور ہفتہ ہفتہ گھر میں پڑا رہتا تھا، میرے والد مجھے مارتے اور ڈانٹتے تھے،کبھی کَن اینٹھی کرتے اور کبھی کھری کھوٹی سناتے تھے، ایسے میں میرے نانا مسیحا بن کرمیرے سامنےآتے اور بڑے پیار سے مجھے سمجھاتے، اور اکثر ” خرگوش اور کچھوے “ کی کہانی سناکر مجھے ڈراتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ادھر گھر میں پڑے رہو اور ادھر تم سے پیچھے چلنے والے ساتھی تمہیں پیچھے چھوڑدے،تم جھاڑیوں میں نیند کے مزے لو اور وہ رینگتے ہوئے منزل تک پہونچ جائے،اور جس وقت تمہاری آنکھیں کھلے اس وقت کچھوا اپنی بازی جیت کر تم سے تمہارے کان کاٹنے کی مانگ کرنے لگے،کبھی ڈر کھلاتے کہ اگر نہیں پڑھوگے تو تمہارا باپ تم کو فلاں کے گھر چرواہا رکھ دے گا، کبھی کہتے کہ اگر آج نہیں پڑھوگے تو کل جب بڑے ہوگے تو تمہیں لوگوں کے کھیتوں میں کام کرنے جانا پڑے گا، ان باتوں میں ایسی مقناطیست ہوتی کہ میں کھنچتا ہوا ان کی باتوں میں محلول ہوجاتا اور ان کے ساتھ راضی خوشی نئے ارادے کے ساتھ مدرسہ چل پڑتا، یہ اور بات ہیکہ میں اپنے اس ارادے پر دو ایک دن سے زیادہ قائم نہیں رہ پاتا۔
ایک بار میں مدرسہ سے بھاگ کر گھر آیا، میرے والد نے مجھے اسی وقت مدرسہ بھیج دیا، میں مدرسہ جانے کے بجائے سیدھا کھیتوں کی طرف نکل گیا، میرے نانا کا دل کھٹکا کہ ”ہو نا ہو ظفر مدرسہ نہ پہونچا ہو“ اس کھٹکے کے آتے ہی انہوں نے پہلے تو میرے بڑے بھائی کو مدرسہ دوڑایا کہ ”معلوم کر آؤ ظفر مدرسہ گیا ہے یا نہیں؟“ تھوڑی دیر بعد آکر میرے بھائی نے بتایا کہ ” وہ اب تک مدرسہ نہیں پہونچا“۔
مغرب کا وقت گزر چکا تھا، رات کی تاریکی پھیل چکی تھی،نہ اس وقت بجلی تھی نہ بتی،نہ راستہ پختہ تھا نہ سواری تیز، میرے نانا اسی وقت ہاتھ میں لالٹین لیکر دور پار کے رشتے داروں میں مجھے ڈھونڈھنے نکل گئے،مگر میں وہاں ہوتا تب نہ ملتا، اس دن میرے نانا میری وجہ سے کافی پریشان ہوئے تھے۔
آج میرے وہی مسیحا کہ جس نے میرے مردہ عزم میں نئی جان اور مضمحل ارادوں میں تازگی کی نئی روح پھونکی تھی بستر مرگ پر پڑے اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے، اور میں تھا کہ ماضی کی لہروں میں بہتا چلا جا رہا تھا، موجیں اٹھا اٹھا کر مجھے ماضی کے سمندر میں پٹختے جا رہی تھیں کہ اچانک ” ختم ہوگئے، ختم ہوگئے “ کی آواز نے مجھے میرے ماضی سے نکال لایا، دیکھا کہ میرے نانا کی زندگی کا چراغِ سحر بجھ چکا ہے،لب یک دوجے سے پیوست اور آنکھیں پتھراگئی ہیں،میری زبان سے بےساختہ ” ہائے نانا “ کے بین نکلے اور چند لمحے اس کی صدائے بازگشت گونجنے کے بعد فضا میں تحلیل ہوگئے۔
مجھے آج تک وہ منظر یاد ہے،جب میرے نانا کی روح اس کے جسدِ خاکی سے جدائی اختیار کرچکی تھی، تب میں روتا ہوا کھیتوں کی طرف نکلا تھا اور ہکلاتی ہوئی زبان سے اپنے والد صاحب کو اپنے نانا کے مرنے کی خبر جا سنایا تھا۔
میرے نانا کی وفات سے گھر میں کہرام مچ گیا تھا، لیکن ان کی رحلت کا جو دھچکا مجھے لگا تھا نہیں معلوم کہ کسی اور کو اتنا زبردست دھچکا لگا ہو، کیونکہ مجھ سے میرا مسیحا دور جا چکا تھا، ایک ایسا مسیحا جو زندگی کی سرد گرم حالات اور حیاتِ فانی کی دھوپ چھاؤں میں ہمیشہ ساتھ رہتا اور قدم قدم پر میری رہنمائی کرتا تھا، میری تربیت میں ان کا اتنا بڑا ہاتھ تھا کہ آج بھی اس کے نقوش میرے وجود میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔
جس دن میرے نانا کی وفات کا یہ عظیم سانحہ پیش آیا اس سے فقط چار مہینے پہلے میری اکلوتی خالہ کی بڑی دھوم دھام سے شادی رچی تھی،ابھی میری خالہ کی شادی کو ایک مہینے ہی ہوئے تھے کہ ایک صبح اچانک میرے نانا کو بیماری کا جھٹکا لگا، بیماری کیا تھی صحیح طور پر کوئی ڈاکٹر اس کی تشخیص نہیں کرسکا تھا،اب ان کے اندر درد کا کون سا الاؤ دہک رہا تھا کہ اس کی تپش ان کی زبان سے نکلتی رہتی تھی،ہر وقت چاہے رات ہو یا دن وہ کچھ نہ کچھ بڑبڑاتے رہتے تھے، کبھی ان پر ہذیانی کیفیت بھی طاری ہوجاتی تھی جس کے زیرِ اثر وہ ہذیان بکنے پر بھی اتر آتے تھے۔
یہ بیماری تین ماہ میرے نانا کے ساتھ چپکی رہی، اس بیچ گھر کا کوئی فرد کبھی سکھ کا کھانا نہ کھا سکا،میں نے دیکھا کہ میرے وہی نانا جو ہر وقت جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھتے،راتوں کو اٹھ کر تہجد میں رویا کرتے اور اپنی نالۂ شب گیریوں سے رب کو منایا کرتے تھے،بیماری کے ایام میں یکسر نماز پڑھنا بھول گئے،وہ نماز پڑھتے بھی کیسے کہ ہوش میں ہوتے ہوئے بھی وہ اپنا حواس کھو بیٹھے تھے،اسی کا شکوہ ( کہ جو آدمی نمازوں کا اتنا پابند تھا،سنن و نوافل کا اتنا عادی تھا،تعلیم و تبلیغ سے جن کا رشتہ استوار تھا، وہ سنن و نوافل تو دور فرض کی ادائیگی سے بھی محروم ہوگیا تھا ) ان کے بڑے بھائی نے میری ماں کے پاس کیا تھا،اور اپنے بھائی کی محبت میں سرشار یہ خلجان ظاہر کیا تھا کہ ” العیاذ باللہ کہیں میرا بھائی بری موت نہ مر جائے “، لیکن جب موت کا وقت قریب آیا تو خدا نے میرے نانا کی ایسی یاوری کہ اپنے بڑے بھائی کو مطمئن کرکے دنیا سے رخصت ہوئے، کیونکہ ان کی زبان سے آخری الفاظ جو نکلے تھے وہ قرآن کریم کی آیات تھیں، قرآن کریم کی آیات تلاوت کرنے اور سننے کے بعد کوئی لفظ ان کی زبان سے اور نہیں نکلا تھا۔
اس بیماری میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے نانا کے تیور بھی بڑھتے جا رہے تھے،آج بھی جب میں اس دن کو یاد کرتا ہوں تو میرا کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے، آنکھیں نم اور دل رنجور ہوجاتا ہے کہ میں نے کیسے اپنے اس پیارے مسیحا اور عظیم محسن کو جھڑکیاں دی اور گھرکیاں سنائی تھیں،ہوا یہ تھا کہ میرے نانا کے انتقال سے چند روز قبل ہمارے علاقے میں مچھلیوں کی ایک لہر آئی تھی، دھوپ چونکہ شدت کی پڑ رہی تھی جس کی ناقابلِ برداشت تپش کی وجہ سے مچھلیاں پانی کی گہرائی سے نکل کنارے لگ جاتی تھیں، جنہیں مچھیرے آسانی کے ساتھ شکار کرلیتے تھے،اس دن میں بھی مچھلی شکار کرنے گیا ہوا تھا، ادھر میرے نانا میرے لئے پریشان ہو رہے تھے، جب میں مچھلی مار کر گھر پہونچا تو میرے نانا نے مجھے پاس بلایا،اور کھری کھوٹی سناتے ہوئے لیٹے لیٹے ہی ایک طمانچہ مجھے رسید کردیا، میں یہاں یہ کہنے سے چوکونگا نہیں کہ وہ طمانچہ میرے نانا نے مجھے اپنی پریشانی کے زیر اثر لگایا تھا ، ورنہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ عالمِ صحت میں کبھی انہوں نے مجھے ایک تھپڑ بھی لگایا ہو، ادھر دھوپ کی تمازت،ادھر ان کے طمانچے کا دھماکہ اور اوپر سے بچپن کی نافہمی،میں باؤلا ہوگیا،ہائے افسوس کہ میرے ہاتھ بھی اوپر اٹھے اور بلا سوچے میرے نانا کے چہرے پر جا پڑے،میں اقرار کرتا ہوں کہ میں اس وقت غصے سے اتنا بھر گیا تھا کہ اپنے اوپر قابو نہ پاسکا اور زیادہ زور سے تو نہیں آہستہ ہی سہی ایک چپت اپنے نانا کے رخساروں پر لگا دیا۔
مجھے وہ منظر اب بھی یاد ہے کہ میری اس حرکت سے میرے نانا پگھل کر رہ گئے تھے، غالبا ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آگئے تھے، جب میں وہاں سے چلا گیا تو انہوں نے میری ماں کو بلا کر میرے اس حرکت کے بارے میں بتایا، میری ماں کو پہلے تو یقین ہی نہیں آیا، جب میرے نانا نے رونی صورت بنا کر کہا کہ ” میں تمہیں جھوٹا لگ رہا ہوں “ تب میری ماں نے میری طرف سے ان سے معافی مانگی اور کہنے لگی کہ ابا جان ” وہ ابھی نادان ہے،اس بات کو دل سے مٹا دیجیے، اس کی طرف سے کوئی کدورت اپنے دل میں مت رکھئے گا “ اس پر میرے نانا تڑپ اٹھے اور کہنے لگے ” بیٹی! تم مجھے اتنا گرا ہوا سمجھتے ہو کہ اپنے نواسے کی اس حرکت کو اپنے وجود کے لئے خار بنا لونگا،اس کے لئے میرے دل میں کوئی مَیل نہیں“ یہ باتیں بعد میں مجھے میری ماں نے بتائی تھیں،آج بھی جب مجھے اپنی وہ بچکانہ حرکت یاد آتی ہے میرا سر خود بخود شرم سے زمین میں گڑ جاتا ہے۔
میرے نانا باضابطہ کوئی سند یافتہ عالم اور فاضل نہیں تھے،وہ اسکول کے پڑھے لکھے انسان تھے، تاہم علم اور علماء سے والہانہ گرویدگی نے ان کی ذات میں علم و عمل اور فضل و کمال کا در وا کردیا تھا،ان کی زندگی کے رات و دن ذکر و اذکار اور دینی مسئلوں کی تکرار میں گزرتے تھے،کتب بینی کی برکت سے مذہب و شریعت میں اچھا خاصا درک رکھتے تھے،فارسی کے مشہور شعر کا ایک مصرعہ وہ اس کثرت سے گنگنایا کرتے تھے کہ وہ مجھے اسی عمرِ غیر شعور میں زبان زد ہوگیا تھا، وہ مصرعہ یہ تھا۔

ع_ قلم گوید کہ من شاہِ جہانم

میں قلم کا بادشاہ تو نہ بن سکا، تاہم خدائے بے ہمتا نے مجھ ہیچ مداں پر کرم کی اتنی بارش ضرور برسائی کہ آج اٹھارہ سال کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اپنے نانا اور مسیحا کی شخصیت پر چند بے ربط جملے اور بےہنگم تعبیریں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔
میرے نانا کو اسی رات تقریبا دس بجے ہم منوں مٹی تلے دبا آئے تھے،میرا تقریبا مشغلہ بن گیا تھا کہ میں ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے اکثر قبرستان جایا کرتا تھا،اس کا صلہ نانا مجھے یوں دیا کرتے تھے کہ وہ اکثر میرے خوابوں میں آجایا کرتے تھے،اپنے نانا کو تو خواب میں میں نے بارہا دیکھا ہے، مگر آخری بار جس حالت اور جس کیفیت میں میں نے اسے خواب میں دیکھا تھا اس سے مجھے امید بندھ گئی ہے اور میرے دل کو اللہ کی ذات سے ایک گونہ تسلی حاصل ہوگئی ہے کہ میرے نانا کو خدا نے اپنے ابرِ کرم کے سائے میں جگہ دیا ہوگا۔
وہ دلچسپ اور امید افزا خواب سنانے سے پہلے میں یہ بات بتادینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرے نانا جہاں سادہ لوح اور خوش طبع انسان تھے وہیں فطری طور پر تھوڑے شکی مزاج بھی تھے،شکی مزاج کا مطلب ہر بات میں انہیں شک ہوتا تھا، جہاں ان کا پیٹ ہلکا سا بھی بُھربُھرایا وہیں اب گھنگھنانے لگتے تھے کہ ” معلوم نہیں مجھے کیا ہوگیا؟ میرا پیٹ کیوں بھربھرا رہا ہے؟ میں نے جو چیز کھائی تھی شاید اس نے اپنا اثر الٹا کردیا ہے “ وغیرہ وغیرہ، میرے نانا کی ان باتوں کی وجہ سے کبھی کبھی میرے والد ان کو تھوڑا بہت جھڑک دیتے تھے۔
اس رات جب میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا تو اس کیفیت میں دیکھا کہ میرے نانا اپنی قبر سے باہر نکلے بیٹھے ہیں،اور ان کی قبر اپنی ساخت سے کچھ زیادہ پھیلی ہوئی ہے،میں اپنے نانا کو قبر سے باہر بیٹھا دیکھ کر پہلے ان کی قبر میں جھانکا، پھر خواب ہی میں اچانک مجھے یاد آگیا کہ میرے نانا تو اس دنیا سے رخصت ہوکر ایسی دنیا میں پہونچ چکے ہیں جہاں انسان کا مقدر یا تو جنت ہوتی ہے یا دوزخ، میں نے فورا اپنے نانا سے سوال کیا ” نانا! آپ یہ بتائیں کہ اللہ نے آپ کو جنت میں رکھا ہے یا دوزخ میں؟ “ میرے نانا کہنے لگے، ”چھوڑو ان باتوں کو اگر میں نے حقیقت بتادی تو تمہارے والد میری بات کو مذاق میں اڑادینگے اور میری بات کا یقین نہیں کرینگے “اس پرمیں نے اپنے نانا سے کہا کہ ” اچھا چلئے! میں اپنے والد کے پاس اس کا تذکرہ نہیں کرونگا “ اس پر وہ بتانے پر راضی ہوگئے،میں نے دیکھا کہ ان کا ایک ہاتھ بڑھتے بڑھتے جیب تک پہونچا، اور جب وہ ہاتھ جیب سے نکلا تو اس میں ایک چھوٹی سی سبز ٹہنی تھی جس میں ہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے خوشنما پتے کھلے ہوئے تھے،میرے نانا وہ ٹہنی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگے ”یہ ٹہنی جنت کی نشانی ہے، جس کے پاس یہ ٹہنی ہوگی سمجھ جاؤ وہ جنتی ہے “ میں نے وہ ٹہنی اپنی مٹھی میں دبالی،میرے نانا کی باتیں سن کر مجھ پر سرور و کیف طاری ہوگیا، اور پھر اسی عالمِ کیف نے میں نے اپنے نانا سے پوچھا ” اس کا مطلب آپ جنتی ہیں؟ “ اس پر میرے نانا نے اثبات میں سر ہلایا،اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی،میری مٹھی بیدار ہونے کے بعد بھی بند تھی،مگر اب وہاں وہ ٹہنی نہیں تھی،اس خواب سے مجھے اتنا سرور حاصل ہوا کہ بیدار ہونے کے بعد بھی اس کی لذت میرے وجود میں باقی رہی۔
بیدار ہونے کے بعد کافی دیر تک مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی، میں تصوروں میں جنت کی کیاریوں میں ٹہل رہا تھا، جنت کے باغ و بہار میں جھولا جھول رہا تھا، کافی دیر بعد مجھے نیند آئی تو اس وقت میری آنکھیں کھلیں جب دھوپ نکھر کر منڈیروں تک پہونچ چکی تھی،میں ہڑ بڑا کر اٹھا اور اپنے ماں باپ کو رات کا خواب کہہ سنایا،خواب کا کہہ سنانا تھا کہ میرے نانا مجھ سے روٹھ گئے اور آج تک خواب میں نظر نہیں آئے سوائے ایک دوبار اپنی ہلکی سی جھلک دکھانے کے۔
آج میرے نانا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے ہیں،مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ کل کی ہی ایک رات تھی جب ہم نے اپنے نانا کو قبر کے گڈھے میں اتارا تھا، اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یادوں کے انمٹ نقوش اس طرح تر و تازہ ہیں کہ انہیں یاد کرتے ہی دل کی ہر کلی گنگنا اٹھتی ہے کہ

زمانہ ہوگیا گزرا تھا کوئی بزم انجم سے
غبارِ راہ روشن ہے بشکلِ کہکشاں اب تک

دعا ہیکہ اللہ پاک میرے نانا اور میرے مسیحا کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت کے بالاخانوں میں جگہ عنایت کرے اور حوض کوثر پر ہماری ملاقات کے اسباب مہیا فرمائے۔۔۔۔ آمین

ظفر امام، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
٥/ اگست ٢٠٢١؁ء

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button