اقوام متحدہ کا انتباہ: اگر اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو گرمی ثابت ہوگی جان لیوا
رپورٹ: ڈاکٹر سیما جاوید
ترجمہ: محمد علی نعیم
کلائمیٹ چینج پر اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ اس معنی کر بہت خاص ہے کہ اس میں عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے کاربن کے اخراج اور اس کی وجہ سے تبدیل ہورہے موسم کے انسانی برادری پر مرتب ہونے والے اثرات کا مفصل ذکر ہے
یہ پہلی بار ہے کہ آئی پی سی سی کی رپورٹ نہ صرف کلائمیٹ اور اس سے متعلق ٹھوس ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ اس بارے میں اقدامات بیحد ضروری ہے کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ محدود ہوگی اور بھوک، غربت نیز صنفی عدم مساوات کو کم کیا جائے گا
اس رپورٹ میں ایک بڑی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ کثیر تعداد میں ماہرین کا خیال ہے کہ ایڈاپٹیشن اخراج کو کم کرنے کا آپشن نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر درجہ حرارت میں اضافہ اسی طرح جاری رہا تو دنیا کو تیزی سے ایسی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جنکو ایڈاپٹ نہیں کیا جاسکتا ہے
یہ باتیں آئی پی سی سی کی اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں سامنے آئیں، جس میں رپورٹ کے تمام تجزیہ کار شامل تھے
رپورٹنگ ٹیم کے رکن ڈاکٹر ارومر ریوی کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے لئے اس سمت میں تبدیلی لانے کا ایک چھوٹا سا موقع ہے، جس سے اگر بروقت فائدہ نہ اٹھایا گیا تو دونوں ہی ملک کلائمیٹ چیلنجز میں اضافے کے شکار ہونگے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اڑیسہ میں طوفان سے بچنے والے ایک امریکی پاور سسٹم کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بہار میں راشن کارڈ کے لیے آن لائن درخواست شروع، جلدی کریں رجسٹریشن، یہاں جانیں درخواست دینے کا طریقہ
مزید رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے کچھ شہر جیسے سورت، بھونیشور اور اندور پہلے ہی شہر کی سطح پر ایڈاپٹیشن کا منصوبہ بنا چکے ہیں، انہوں نے اپنی عوام کو بھی کلائمیٹ چینج سے آگاہ کیا ہے، لیکن وہ صرف ایک ہی خطرے پر اپنی توجہ مرکوز ہیں۔ مثال کے طور پر اندور صرف پانی کی کمی پر ہی دھیان دےرہا ہے
اس مسئلے کے حل کی وضاحت کرتے ہوئے تجزیہ کار انجل پرکاش کہتے ہیں کہ انہیں ہائبرڈ اور ملٹی سیکٹرل بننے کی ضرورت ہے
اجل بتاتے ہیں کہ روز افزوں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بھارت کی اونچائی والے ہمالیہ کے علاقے میں ڈینگو اور ملیریا پھیلا ہوا ہے،چونکہ جنوبی ایشیا میں شہری ترقی بہت زیادہ ہے اس لئے بھارت میں گلوبل وارمنگ کا بہت زیادہ خطرہ ہے
اس کی خوفناک شکل کے طور پر رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ سخت موسم اور بیماری کے نتیجے میں ہیلتھ کی بدنظمی اور اچانک موت میں بہت اضافہ ہوگا
نیز تمام 51 ایشیائی ممالک میں گرمی کے بڑھنے کے ساتھ ذہنی صحت کے چیلنجز جیسے پریشانی اور تناؤ میں اضافے کی توقع ہے
ڈاکٹر چاندنی سنگھ کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمالیہ کی نازک چوٹی بہت جلد خطرے میں آتی ہے اور پھر سے چمولی جیسی مزید تباہی ہو سکتی ہے
اسی طرح گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے ہمالیہ میں رہنے والے لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کو ایڈاپٹ نہیں کیا جاسکتا ہے
یہی نہیں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں گلوبل وارمنگ ساحلی شہروں میں انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث بن سکتی ہے
بھارت کے ساحلی شہروں میں گرمی کی لہر اور آبی سیلاب شدید ہوتے ہیں۔ شدید بارشوں،لہری طوفانوں اور خشک سالی کے ساتھ یہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت سے لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں
رپورٹنگ ٹیم کے ممبر ڈاکٹر بیگم روشن آرا کا کہنا ہے کہ مستقبل میں گرمی بڑھنے سے نقصان بھی زیادہ ہوگا اخراج میں تیزی سے کمی ہی موسمیاتی تبدیلی کے نتائج کو محدود کرنے کا واحد طریقہ ہو گا
جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، بعض خطرات کو ایڈاپٹ کرنا یا تو ناممکن ہو جائے گا، یا انتہائی مہنگا ہو جائے گا۔ جب تک اخراج کو حکومتیں منصوبہ بند طریقے سے کم نہیں کرتی ہے تب تک نقصان تیزی سے بڑھتا رہیگا اور زمین کے کچھ حصے ناقابل رہائش ہوجائیں گے۔
آئی پی سی سی ورکنگ گروپ 2 کی اس رپورٹ کو جو چیز آپ کے لیے خاص بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ہندوستان کے بارے میں انتہائی تشویشناک باتیں کہی گئی ہیں۔ اگر ہم اس رپورٹ کی بنیادی باتوں کا جائزہ لیں تو وہ درج ذیل ہیں۔
(١)کاربن کے اخراج میں کمی کے بغیر مستقبل قریب میں گرمی اور امس انسانی برداشت سے باہر ہوجائے گی
رپورٹ کے باب 10 صفحہ 57 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہندوستان کو ناقابل برداشت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں ویٹ بلب کا ذکر کیا گیا ہے، جو درجہ حرارت کی ریڈنگ کا حساب لگاتے وقت بنیادی طور پر حرارت اور امس کو مدنظر رکھتا ہے
ایک عام آدمی کے لیے اکتیس ڈگری ویٹ بلب درجہ حرارت انتہائی خطرناک ہے،اور پینتیس ڈگری سیلسیس کی شکل میں تو سایہ میں آرام کرنے والے ایک صحت مند بالغ کے لئے بھی تقریباً 6 گھنٹے سے زیادہ زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا
رپورٹ کے باب 10 صفحہ 43 پر بتایا گیا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ویٹ بلب درجہ حرارت شاذ و نادر ہی 31 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہوتا ہے، اکثر مقامات پر ویٹ بلب درجہ حرارت پچیس سے تیس ڈگری کے درمیان ہوتا ہے
تحقیق کے مطابق اگر فی الحال حسب وعدہ اخراج کو کم کیا جاتا ہے تب بھی شمالی اور ساحلی ہندوستان کے بہت سے حصے صدی کے آخر تک اکتیس ڈگری سیلسیس سے زیادہ کے انتہائی خطرناک ویٹ بلب درجہ حرارت کا تجربہ کریں گے
اور اگر اخراج میں اسی طرح اضافہ جاری رہتا ہے تو ہندوستان کے بیشتر حصوں میں ویٹ بلب درجہ حرارت خطرناک حد تک پینتیس ڈگری سیلسیس تک پہنچ جائے گا
حیران کن بات یہ ہے کہ رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہا تو لکھنؤ اور پٹنہ ویٹ بلب درجہ حرارت پینتیس ڈگری تک پہنچ جائیں گے
اس کے بعد، بھونیشور، چنئی، ممبئی، اندور اور احمد آباد میں ویٹ بلب درجہ حرارت 32-34 ڈگری سیلسیس تک پہنچنے کی امید ہے۔ مجموعی طور پر آسام، میگھالیہ، تریپورہ، مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
(٢) سمندری سطح میں اضافے سے ہندوستان میں عوام نیز زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو خطرہ ہو گا
رپورٹ کے باب 3 صفحہ 50 پر مذکور ہے کہ اگر حکومتیں اخراج میں کمی کے اپنے موجودہ وعدوں کو پورا کرتی ہیں، تو اس صدی میں عالمی سطح پر سمندر کی سطح 44-76 سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گی
لیکن اگر اخراج میں تیزی سے کمی لائی جائے تو ترقی کو 28-55 سینٹی میٹر تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے سمندر کی سطح بڑھتی ہے کھارے پانی کی دراندازی زمین کو نقصان پہنچائے گی اور یقینی طور سےسیلاب آئے گا جو زمین کو زراعت کے لئے غیر موزوں بنا دے گا
اس باب میں صفحہ 58 پر مذکور ہے کہ بھارت اپنی آبادی کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافے سے متاثر ہونے والے ممالک میں سب سے زیادہ کمزور ہے
صدی کے وسط تک ہندوستان میں تقریباً 35 ملین افراد کو سالانہ ساحلی سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسی طرح تیسرے باب کے صفحہ 126 میں کہا گیا ہے کہ صدی کے آخر تک 45-50 ملین افراد خطرے میں ہوں گے
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
بھارت کے لئے سمندری سطح میں اضافے اور دریائی سیلاب کی اقتصادی قیمت بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہوگی، اس کا انکشاف دسویں باب کے صفحہ 59 پر ہوا ہے جہاں ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر اخراج کو حسب وعدہ تیزی سے کم کیا جائے تو براہ راست نقصان کا تخمینہ 24 بلین ڈالر لگایا جاسکتا ہے اور اگر اخراج زیادہ ہے اور برف کی چادریں غیر مستحکم ہیں تو یہ تعداد 36 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی البتہ اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہا تو صرف ممبئی میں سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے 2050 تک سالانہ 162 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے
اگر اخراج زیادہ ہوتا ہے تو ہندوستان کے کچھ حصوں میں چاول کی پیداوار میں 30 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ البتہ اگر اخراج میں کمی کی جائے تو یہ تعداد 10 فیصد ہوجائے گی، اسی طرح اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مکئی کی پیداوار میں 70 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے اور اگر اخراج میں کمی کی گئی تو یہ تعداد 25 ہو جائے گی۔
مسلسل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہندوستان میں مچھلی کی پیداوار میں بھی کمی آئے گی اس کا ذکر بھی رپورٹ میں باب 10 کے صفحہ 47 موجود پر ہے
(٣) زراعت کی پیداوار بھی ہوگی متاثر
عالمی سطح پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور شدید موسمی حادثات جیسے خشک سالی، گرمی کی لہریں اور سیلاب، فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اگر درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہتا ہے تو فصلوں کی پیداوار میں تیزی سے کمی آئے گی
رپورٹ کے پانچویں باب کے صفحہ 14-15 پر یہ بتایا گیا ہے کہ کلائمیٹ چینج اور بڑھتی ہوئی وارمنگ کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں تقریباً 40 فیصد لوگ 2050 تک پانی کی کمی کے ساتھ زندگی گزاریں گے، جبکہ ابھی یہ تعداد 33 فیصد ہے ،اسی کے نتیجے میں اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہو جائے تو گنگا اور برہما پترا دونوں دریا بھی سیلاب میں اضافہ دیکھیں گے اس کا ذکر باب 10 صفحہ 40 پر درج ہے
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!