سیرت نگاروں اور مفسرین و محدثین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت مبارکہ میں نفسیات کی رعایت، اس پہلو کو بہت کم نمایاں کیا ہے ۔ لیکن انہوں نے بعض ایسے پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات ارشاد فرمائی، اور جو عمل کیا اس کے پیچھے کیا نفسیات اورحکمت تھی،مخاطبین کے ذھن میں کیا خیالات و تصورات تھے جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی، نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اور دعوت میں مخاطب کے ذہن ذوق و مزاج کو ذہن میں رکھنے کی خاطر کیا کیا چیزیں پیش نظر رکھیں ،کن باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال رکھا ۔ نفسیات سیرت پر آج بھی مستقل الگ سے کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری ہے ،البتہ نفسیات سیرت پر بعض لوگوں نے مضامین لکھے ہیں جو مختلف مجلوں اور سیرت نمبروں میں شامل ہوئے ہیں ۔ حال میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسیاتی پہلو پر پڑوس ملک کے ایک اسکالر نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے ۔
آج کے پیغام میں ہم سیرت نبوی اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حکمت و نفسیات کی رعایت اس پہلو پر گفتگو کریں اور نبوی واقعات سے حکمت و نفسیات کے پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں گے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت و تبلیغ میں لوگوں کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے تدریج کی حکمت اپناتے تھے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے بخاری شریف کی روایت ہے بی بی بی اماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام دئے وہ تدریج کے ساتھ دئے اگر پہلے دن یہ کہا جاتا کہ فلاں کام نہ کرو اور فلاں فلاں کام بھی نہ کرو تو شاید لوگ اتنی آسانی سے تیار نہ ہوتے ۔ پرانی عادتوں اور رسوم و رواج کو اچانک تبدیل کردینا زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اور تدریج کے ساتھ آنے والی تبدیلی زیادہ دیر پا ہوتی ہے اور زیادہ گہری بھی ہوتی ہے ۔ یہ خود نفسیات کا ایک نکتہ ہے کہ لوگوں کے مزاج ،لوگوں کی عادات رسم و رواج اور خصائل کو اچانک تبدیل کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماضی سے یکدم اور قطعیت کے ساتھ قطع تعلق کر لیتے ہیں بیشتر لوگ ماضی سے اچانک لا تعلق نہیں ہوپاتے ۔
بعض اوقات ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کی مخالفت اور ان کی شدت کم کرنے کے لئے ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ رکھا اور ایسے اقدامات فرمائے کہ مخالفین کی شدت و مخالفت میں کمی آجائے ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کرلی اور اس کے بعد ابو سفیان کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں نہیں آئے ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا *من دخل دار ابی سفیان فھو آمن* جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ بھی امن سے رہے گا ۔ یہ بھی ایک حکمت عملی تھی کہ مکہ کے سردار کے گھر کو امن کا گھر قرار دینے سے عام لوگ بہت گہرا اثر لیں گے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں اور دعوت اسلامی کے لئے ناگزیر تھا کہ ایسا کیا جائے اور کہا جائے ۔
بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی اقدام یا فیصلہ سے خطرہ ہوتا تھا ، کہ اس کا رد عمل نامناسب یا غیر مفید ہوسکتا ہے ۔ اس کے لئے بڑے تحمل کے کے ساتھ لوگوں کے مزاج کے مطابق فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے تو آپ کا پروگرام مکہ مکرمہ کو پرامن طور پر قبضہ میں لینا تھا اور فوجی کارروائی کرنا مقصد نہیں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ہدایت دی تھی کہ جب تک کفار مکہ کی طرف سے مزاحمت نہ ہو تلوار نہ اٹھائی جائے ۔ایک موقع پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹھائی تو اس کے بارے میں آپ نے سخت برہمی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ جب مسلمان مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے اور قبضہ کا عمل مکمل نہیں ہوا تھا تو قبیلئہ خزرج کے سردار اور اسلامی فوج کے ایک اہم دستہ کے سربراہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے، جو قبیلہ انصار میں بہت محترم تھے اور بلند مقام کے حامل تھے وہ اتنے بڑے سردار تھے اور اتنے بڑے انسان تھے کہ انصار نے خلافت نبوت کے لئے ان کا نام پیش کیا تھا ۔
انہوں نے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت کسی موقع پر زور بیان میں کہہ دیا کہ الیوم یوم الملحمة الیوم تستحل الحرمة۔ یعنی آج کا دن جنگ کا دن ہے اور آج ساری حرمتیں ختم ہوجائیں گی اور ہر قسم کی حرمت کو حلال قرار دیا جائے گا ۔ اب خطرہ تھا کہ اگر اسلامی فوج کے لوگ اس جنگی جذبہ سے مکہ مکرمہ داخل ہوں اور ہتھیار استعمال کریں تو پتہ نہیں کہ کیا صورت حال پیدا ہو ۔ کسی نے آپ کو اطلاع دی کہ سعد بن عبادہ یہ کہہ رہے ہیں ۔ اب سعد بن عبادہ کو اس موقع پر کمان سے سبکدوش کرنا حکمت عملی کے خلاف تھا کیونکہ عین میدان جنگ میں کمان تبدیل کرنا مناسب نہیں تھا ۔ پھر سعد بن عبادہ جیسے بڑے آدمی کو جو مزاجا بھی بہت حساس تھے اور طبیعت کے ذرا تیز تھے حمیت و غیرت بھی کچھ زیادہ تھی ،ان کو ہٹانا مناسب نہیں تھا ۔ لیکن ان کو ہٹائے بغیر چارہ بھی نہیں تھا ۔ اس صورت حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ سعد بن عبادہ سے علم لے کر ان کے بیٹے کے حق میں دے دو ۔ظاہر ہے کوئی باپ اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے پر کیسے ناراض ہو سکتا ہے ۔ کوئی قبیلہ اس پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا، کہ ان کے سردار کے بیٹے ہی کے ہاتھ میں کمان دی گئی تھی ۔یہ ایک غیر معمولی لطیف اقدام تھا ،اس سے مقصد بھی حاصل ہوگیا اور کسی منفی رد عمل کے امکانات کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں جس سے اس طرح کی رہنمائی ملتی ہے ۔
(مستفاد محاضرات سیرت ص: ۱۰۰/ ۱۰۱ از ڈاکٹر محمود احمد غازی )
حکمت وسلیقہ ایک عجیب عمل ہے اس سے مخاطب کے دل میں رغبت پیداہوتی ہے اور قبولیت کی فضا ساز گار ہوتی ہے ، نبی کریم ﷺ مخاطب کی نفسیات کاخاص خیال رکھتے تھے ۔ اور ہر ایک کی تربیت ان کے مزاج کوسامنے رکھ کر فرمایا کرتے تھے ، طبرانی کی روایت ہے کہ قریش کاایک نوجوان جوحیوانیت کے جذبات سے مغلوب تھا آں حضرت ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔ اس کا کہناتھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پراس کو خوب ڈانٹا ڈپتا ، آپ ؐ نے یہ دیکھا تو فرمایا۔ اس سے تعرض نہ کرو، اس کو اپنے قریب بلاکر پوچھا :’’اتحبہ لأمّک ‘ ‘ کیاتم اسے اپنی ماں کے لئے پسند کروگے ؟ اس نے جواب دیا بخدا ایسانہیں ہوسکتا اس پر آپ ؐ نے فرمایا ، توکیا چاہوگے کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی شخص یہ سلوک روا رکھے ؟ اس نے جواب دیا جی نہیں میں اسے ہرگزپسند نہیں کرتا۔ اس طرح آپ ؐ نے اس کے دیگر رشتے دا رخواتین کا ایک ایک کرکے ذکر کیا اور پوچھا کیاتم پسند کروگے کہ ان سے یہ معاملہ روا رکھاجائے ، تو اس نے ہرسوال کے جواب میں یہی رویہ اختیار کیااور کہاہرگز نہیں ۔ اس کے بعد آپؐ نے اس کی مغفرت کی دعا فرمادی ۔ روایت میں آتا ہے کہ تفہیم و تعلیم کے اس انداز سے یہ اس درجہ متأثر ہواکہ اس کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا اور پھرکبھی گناہ کی طرف ملتفت (متوجہ ) نہ ہوا ۔
ہرشخص کی ذہنی سطح اور مدارج عقلی میں اختلاف پایا جاتاہے ، آں حضرت ؐ کاقاعدہ تھا کہ آپ ؐ دعوت وتبلیغ اور وعظ وارشاد کے سلسلہ میں ہرشخص کی ذھنی سطح اور اس کے مدارج عقلی کاپورا خیال رکھتے تھے ،شہری لوگوں سے ان کے انداز و معیار کے مطابق گفتگو فرماتے تھے ، اور بدوی سے اس کی ذھنیت کے مطابق بات کرتے ، اس کی بہترین مثال حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت میں ملے گی جس میں بنی فزارہ کے شخص کاذکر کیا گیاہے جو بدوی تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہامیرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو سیاہ رنگ کاہے ، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ کیونکہ ہم میاں بیوی میں کوئی سیاہ رنگ کانہیں ہے ، آں حضرت ؐ نے اس کی سمجھ اور پیشے کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔
اس سے پوچھا : ھل لک من ا بلٍ کیاتمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ’’جی ہاں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کس رنگ کے ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’سرخ رنگ کے ‘‘ آپ نے اس پر سوال کیاان میں کوئی اور ق یعنی خاکستر ی رنگ کا یاکم سیاہ رنگ کاکوئی اونٹ بھی ہے ؟ اسن نے کہا ،ہاں ،ہے آں حضرت ﷺ نے فرمایا اب تم ہی بتاؤ کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی ۔ اس شخص نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے اس کے نسب میں کوئی اونٹ خاکستری یا سیاہ رنگ کا ہو اور اس کی جھلک ہو جب بات یہاں تک پہونچی تو آپﷺ نے یہ کہہ کراس کے شبہے کو دور کردیا ۔ و ھذا عسی ان یکون نزعة عرق کہ یہاں بھی معاملہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی نسب کر کرشمہ کار فرما ہو اور اس میں تمہاری بیوی کا کوئی قصور نہ ہو ۔
ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ