یوں تو ہر صحابی رسول کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے کسی ایک کی بھی سیرت کو اپنانا راہ نجات ہے مگر ہاں اصحابِ کرام میں بھی بعض کی شان اہم ترین ہے انہیں شان والوں میں حضرت عمر فاروق اعظم کی بھی نرالی شان ہے آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرید بھی ہیں اور مراد بھی ہیں آپ کے ایمان لانے سے دین اسلام کو زبردست تقویت ملی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشان رعب و دبدبہ بھی عطا کیا کپڑا تو پہنا سترہ پیوند لگا لیکن حکومت 22 لاکھ مربع میل پر کی اور عدل و انصاف ایسا قائم کیا کہ جن و انس کیا فرشتوں کو بھی ناز ہے خدا کا خوف اتنا کا روتے روتے دونوں آنکھوں کے نیچے آنسوؤں کے بہنے کی وجہ سے نالی کی طرح گڈھے پڑ گئے تھے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ اپنے ساتھیوں سے پوچھتے رہتے یہاں تک کہ ایک بار ابی ابن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ تو انہوں نے مثال دیکر بتایا کہ ائے امیر المومنین اگر آپ کو کسی مقام پر جاناہے اور راستہ ایسا ہے کہ جنگل ہی جنگل ہے،کانٹے ہی کانٹے ہیں تو آپ کیا کریں گے تو حضرت عمر نے کہا کہ کانٹوں سے بچ کر قدم رکھوں گا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچوں گا ابی ابن کعب نے بچنے بچانے کے بعد بھی اگر دو چار کانٹے لگ ہی جائیں گے تو آپ کیا کریں گے تو حضرت عمر نے کہا کہ میں مرہم پٹی کرلوں گا تو ابی ابن کعب نے کہا کہ ائے امیر المومنین یہی تو تقویٰ ہے یعنی دنیا دارالعمل ہے اور دنیا کی رنگینیاں بڑی خطرناک ہیں مگر جب تک حیات ہے تو اسی دنیا میں رہنا بھی ہے مگر مسافر کی طرح مطلب اس دنیا میں رہکر بھی دنیا کی رنگینیوں سے بچنا ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی گناہ ہوہی جائے تو فوراً اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے-
ایک وقت تھا کہ حضرت عمر کہتے تھے کہ انتالیس مسلمان ہوگئے اور اب کوئی چالیسواں مسلمان نہیں ہوگا لیکن نبی کریم کی دعا اور اللہ کی شان کہ چالیسویں مسلمان خود حضرت عمر ہوئے اور جیسے ہی وہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو نبی پاک نے کہا ائے عمر بتاؤ کیا چاہتے ہو ، کیا خواہش ہے تو حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم حق پر ہیں؟ نبی نے فرمایا ہاں تو عمر نے کہا کہ جب ہم حق پر ہیں تو آج سے خانۂ کعبہ میں اللہ کی عبادت ہوگی یارسول اللہ آپ مصلے پر ہوں گے اور آپ کی امانت میں کھلے عام نماز ادا کی جائے گی اور عمر خود تلوار لے کر خانۂ کعبہ کے دروازے پر کھڑا ہوگا اگر بیت اللہ میں کسی نے نماز پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی تو اس کی گردن تن سے جدا کردوں گا جب کفار مکہ نے حضرت عمر کے قبول اسلام کے بارے میں سنا تو ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی اللہ نے آپ کو وہ رعب و دبدبہ عطا فرمایا تھا اٹھائیے نزہتہ المجالس اور یہ واقعہ دیکھئیے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے مدائن کسریٰ میں ایک لشکر بھیجا جب لشکر دجلہ کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ وہاں کوئی کشتی نہیں ہے جس کے ذریعے دریا پار کرتے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ لشکر کے جرنیل تھے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکر سے آگے بڑھ کر فرمایا کہ اے دریا اگر تو حکم الٰہی سے بہتا ہے تو ہم تجھے حرمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمر کے عدل کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو ہمیں راستہ دیدے تاکہ ہم باسانی پار ہوجائیں یہ کہہ کر ان دونوں بہادر جرنیلوں نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے اور جب جانثار اور وفادار لشکر نے دیکھا کہ ہمارے سرداروں کے گھوڑے دریا میں داخل ہو گئے ہیں تو سب نے اپنے گھوڑوں کو دریا میں داخل کردیا دریا نے ان پاک لوگوں کو راستہ دیدیا اور ان کے گھوڑوں کے کھر تک پانی میں تر نہ ہوئے اور پورا لشکر دریا پار کر گیا،، یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عدل کی برکت تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ظہور پذیر ہوئی حضرت عمر کی وہ شان ہے کہ آپ کی خواہشوں اور کاموں کی نبی پاک نے بھی تائید کی ہے اور خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی تائید کی ہے اور حضرت عمر کا اس بات پر یقین تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاکم اعلیٰ ہیں اور ان کا فرمان و فیصلہ مومن کے لئے واجب العمل ہے یعنی نبی پاک کا فرمان و فیصلہ نہ ماننے والا مجرم ہے گنہگار ہے،، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بے شمار واقعات ہیں جن سے عدل و انصاف اور مساوات کا پرچم بلند ہوتا ہے،،
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک رات خواب دیکھتے ہیں کہ سرخ رنگ کے مرغ نے آپ کے بدن میں دو تین ٹھونگیں ماری ہیں آپ نے یہ خواب خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا اس خواب کی یہ تعبیر بتائی گئی کہ کوئی کافر عمر کو شہید کر دے گا چنانچہ جمعہ کے دن یہ خواب بیان کیا اور بدھ کے روز صبح فجر کی نماز میں آپ پر حملہ ہوا،، آپ کی یہ عادت تھی کہ نماز شروع کرنے سے پہلے صفوں کو سیدھا کیا کرتے تھے جب صفیں سیدھی ہوجاتیں تب اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھا کرتے آج ہمارا یہ حال ہے کہ نماز پنجگانہ سے لے کر نماز جنازہ تک کی صفیں ٹیڑھی رہتی ہیں اور اب تو ہمارا سارا نظام ہی ٹیڑھا ہوگیا ہے،، بدھ کا دن ہے نماز فجر کی جماعت کے لئے صفیں لگ چکی ہیں خود حضرت عمر نے حسب معمول صفوں کو سیدھا کیا اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لی اسی صف میں شامل ایک مشرک، مجوسی، آتش پرست ابو لولو فیروز نے آپ کو حالت نماز میں خنجر مارا بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ صرف ایک وار نہیں بلکہ اس بدبخت نے چھ وار کیا جس سے امیر المومنین کا پیٹ پھٹ گیا آپ کو گراکر بھاگنے لگا صفوں کو چیرتا ہوا اور دیگر صحابہ کرام کو زخم لگاتا ہوا بھاگ رہا تھا کہ آخر ایک انصاری نے اس پر کمبل ڈال کر اسے پکڑ لیا جب اس ظالم نے دیکھا کہ اب تو میں پکڑ گیا ہوں تو میرا انجام بھی برا ہوگا تو اس نے اپنے ہی خنجر کو اپنے پیٹ میں گھونپا اور اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار لیا،، امیرالمومنین نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نماز پڑھانے کا حکم دیا جب نماز ہو گئ تو حضرت عمر نے حضرت ابن عباس سے فرمایا کہ اے عباس دیکھو تو مجھے کس نے قتل کیا ہے؟ ابن عباس نے عرض کیا کہ ایک آتش پرست مشرک نے جس کا نام فیروز ہے،، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ میری موت کسی کلمہ گو شخص کے ہاتھوں نہیں ہوئی زخم اتنا شدید تھا کہ شربت، دودھ، شہد جو بھی چیزیں کھلائی پلائی چٹائی جاتیں وہ پیٹ میں لگے زخم کے راستے سے باہر آجاتیں جب آپ کی حالت زیادہ بگڑنے لگی تو آپ نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے فرمایا بیٹا! تم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ میرا سلام کہنا اس کے بعد کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے کہ آپ اپنے حجرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں میں دفن ہونے کی اجازت فرمائیں چنانچہ جب حضرت عبداللہ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ خود حضرت عمر کے غم میں رورہی ہیں حضرت عبداللہ نے حضرت عمر کا سلام و پیغام عرض کیا تو ام المومنین نے فرمایا کہ یہ جگہ تو خاص اپنے لئے میں نے رکھی تھی مگر میں اپنی جان سے عمر کی جان کو زیادہ پسند کرتی ہوں جاؤ میں نے اجازت دی شوق سے امیر المومنین حضرت عمر اس مبارک جگہ پر دفن کئیے جائیں جب عبداللہ نے یہ بات اپنے والد عمر کو بتائی تو عمر نے کہا الحمدللہ اجازت مل گئی،، مگر ائے بیٹے دنیا طعنہ نہ مارے، کوئی یہ نہ کہے عمر امیرالمومنین تھے بیٹے نے زبردستی اجازت لی اس لئے مجھے غسل دینے کے بعد میرے جنازے کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر رکھ دینا ایک بار پھر اجازت لینا جب اجازت مل جائے تو اندر دفن کر دینا،، پھر فرمایا میرا سر تکیہ سے ہٹا کر زمین پر ڈال دو میں اپنا سر زمین پر رگزوں بارگاہ خداوندی میں گڑگڑاؤں تاکہ اللہ مجھ پر رحم کرے،، حضرت ابن عباس نے اس موقع پر کہا کہ قسم اللہ کی میں تو آپ کے متعلق یقین رکھتاہوں کہ آپ تو برائے نام ہی قیامت کی ہولناکیاں دیکھیں گے کیونکہ آپ امیرالمومنین ہیں، آپ کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کرنے والے ہیں، آپ نے قوم کی خدمت کی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بہت پسند آئی اور سخت تکلیف کے باوجود بھی جوش میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اے عباس کیا اللہ کے سامنے تم قیامت کے دن ان باتوں کی گواہی دوگے تو ابن عباس نے کہا کہ ہاں ضرور دوں گا یہ سنکر عمر کو اطمینان ہوا پھر کچھ نصیحتیں کیں اور وصیتیں کیں اس کے بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی انا للہ و انا الیہ راجعون پھر آپ کے جنازے کو تیار کرکے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے سامنے رکھ دیا گیا اور باواز بلند عرض کیا گیا کہ اے ام المومنین! یہ جنازہ عمر کا حاضر ہے اور اب پھر آپ سے اجازت مانگتا ہے اگر حکم ہو تو حجرے شریف میں دفن کیا جائے حضرت ام المومنین روتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں خوشی سے پھر اجازت دیتی ہوں چنانچہ حضرت عمر کو حجرے شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن کیا گیا-
جس دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گہن لگا، شہر مدینہ میں اندھیرا ہوا، اس طرح لوگوں کا رونا ، ادھر سورج کا سیاہ ہونا ایک معرکۂ قیامت نظر آتا تھا مدینہ منورہ کے بچے اپنی ماؤں سے پوچھتے تھے کہ اے ماں کیا آج قیامت ہے؟ مائیں کہتی تھیں کہ نہیں آج 22 لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے عدل و انصاف کی عظیم الشان مثال قائم کرنے والے مرید رسول و مراد رسول حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا ہے بعد از وفات حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اے امیرالمومنین کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا وجدت ربی رحیما ( میں نے اپنے رب کو بڑا رحم والا پایا / سیرت الصالحین)