تحریر : عین الحق امینی قاسمی
خانقاہ رحمانی مونگیر اور امارت شرعیہ پٹنہ: ربط مسلسل اور اساسی کردار کا سوسالہ سفر :- از 25۔جون/ 1921ءتا 3،اپریل 2021
1857ء کے بعد کا زمانہ ، ہندی مسلمانوں کے لئے انتہائی جبر وقہر کا رہا ہے ، غدر کی ناکامی کے بعدصورت حال کچھ ایسی بن گئی تھی کہ اسلام اب رخصت ہوا تب ہوا ،مگر اس کے بعد ہی مسلمانوں میں زبردست تبدیلی آئی اور انہوں نے ہند میں آزادی کی جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ہی اپنی اسلامی شناخت باقی رکھنے کی غرض سے بھی صفوں کو متحد کرنا اورایمانی وروحانی جڑوں کو مضبوط کرنا شروع کیا ،اسی فکری انقلاب کے نتیجے میں انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے اندر سینکڑوں مدارس قائم ہوئے ،خانقاہیں قائم ہوئیں ، انجمنیں بنیں،مکاتب کے جال پھیلائے گئے او عام لوگوں میںکلمہ واحدہ کی بنیاد پر شیرازہ بندی اور جماعت کی بنیاد پر اجتماعی زندگی گذارنے کی دعوت جیسی خالص مذہبی کوششیں تیز تر ہوئیں
چناچہ 1919 ءسے ہی مولانا محمد سجاد نے امارت شرعیہ فی الہند کی مورچہ بندی شروع کردی تھی ، ذہنی طور پر وہ اس بات کے لئے کوشاںتھے کہ گرچہ قوت واقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں یہاں فی الوقت نہیں ہے ،مگر جو احکام وقوانین خاص مسلمانوں کی اجتماعی زندگی سے وابستہ ہیں ،ان تمام امور کو مسلمان ،اپنے امیر کے ماتحت انجام دیں اور اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہوئے اسے پورا کریں۔
مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ انقلابی ذہن کے مالک تھے ،ان کا دماغ مسلسل ملت کی بہبود اور آنے والے دنوں کے خطرات کو محسوس کر،اس کے دفاع میں لگا رہتا تھا ،اس لئے وہ سب سے زیادہ بے چین بھی رہتے تھے ، وہ ہندوستان بھرکے لئے ایک امیر الہند کا انتخاب چاہتے تھے،اسی لئے وہ لگا تار جمعیة علماءہند کے اجلاسوں میں ملکی سطح پر اس مسئلے کو اٹھاتے بھی رہے ،یہاں تک کہ حضرت شیخ الہند سے اس کے سلسلے میںمنظوری بھی لے لی تھی ،مگر اس درمیان حضرت شیخ الہند کی علالت اور مولانا آزاد کی گرفتاری اور بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے جب وہ اُدھر کامیاب نہیں ہوئے تو واپس آکر انہوں نے قطب عالم مولانا محمد علی مونگری اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے مشورہ کے بعد اپنے وطن بہار میں ہی اختلافات اور شبہات کے باوجود "امارت شرعیہ “کے قیام کے لئے ماحول سازی شروع کردی اور فرمایا کرتے تھے کہ جمعیة علماءہند کی طرح یعنی جس طرح سب سے پہلے جمعیةعلماءبہار قائم ہوئی ،پھر وہی جمعیةعلماءہند بنی ،اسی طرح امارت شرعیہ بہار قائم ہو ،اللہ نے چاہا تو وہی ہندوستان پیمانے پر پھیل جائے گی ۔
حضرت مولانا مفتی اختر امام عادل صاحب قاسمی زید مجدہ مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور اپنی مایہ ناز تصنیف حیات ابوالمحاسن میںحضرت مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ کی تحریر ی شہادت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”انسب تو یہی تھا کہ سب سے پہلے امیر الہند کا انتخاب ہوتا ،بعدہ امیر صوبے کا تعین وتقرر ،لیکن مسلمانان ہند کی بدقسمتی کو کیا کیجئے کہ وہ ابھی اصل مرکز کے بنانے کو تیار نہیں ،ایسی صورت میں سوائے اس کے چارہ کار نہیں کہ صوبے وار امیروں کا انتخاب کرلیا جائے ،کیوں کہ ہندوستان کا تساہل ہمارے لئے عذر نہیں ہوسکتا ……… غالبا آپ کو معلوم ہوگا کہ جس زمانے میں جمعییة علماءبہار ،جن اغراض ومقاصد کو لے کر قائم ہوئی ،وہ سرزمین ہند میں اس جہت سے پہلی جمعیت تھی ،اس وقت علماءکرام اقدام سے گھبراتے تھے ،حتی کہ خود ہمارے صوبے کے بہتیرے علماءپس وپیش میں مبتلا تھے ،مگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے اقدام وجرا¿ت کا کیا نتیجہ برآمد ہو ا،آخر اس تین سال میں انہیں مقاصد کو لے کر تقریباً تمام صوبوں میں جمعیةعلماءقائم ہوگئی اور وہی فروعی اختلافات کا پہاڑ جو ہمیشہ اس راہ میں حائل تھا ،کس طرح کافور ہوگیا ،پس اس طرح بہت ممکن ہے بل کہ ظن غالب ہے کہ صوبہ بہار میں اس کام کے انجام پانے کے بعد ان شاءاللہ تعالی تمام صوبوں میں امیروں کا انتخاب جلد ازجلد عمل میں آجائے گا اور جس طرح جمعیةعلماءہند بعد میں قائم ہوئی اسی طرح امیر الہند بھی آخر میں نہایت آسانی کے ساتھ منتخب ہوجائے گا۔(حیات ابوالمحاسن ،ص،485)
اس طرح سے ہوتے ہواتے باہمی مشوروں کے بعد قیام امارت اور انتخاب امیر شریعت کی غرض سے مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ نے جمعیةعلماءبہارکے پلیٹ فارم سے بالآخر اس سلسلے کی ایک یاد گار میٹنگ، 25/26/ جون1921کو جمعیة علماءکی مجلس منتظمہ کے زیر اہتمام ،پتھر کی مسجد بانکی پور پٹنہ میں رکھی ،جس میں شرکت کے لئے مشارکین کے نام مولانانے ایک تفصیلی دعوت نامہ جاری کیا ،جس میں امارت شرعیہ کی شرعی حیثیت ،اس کی ضرورت ،علماءکی ذمہ داریاں ،دشواریاں ،اُسی خط میں انہوں نے امیر شریعت کی اہلیت کے اُن پانچ شرائط کا بھی کر کیا ہے ،جو حسب ذیل ہیں:
1 عالم با عمل ،صاحب فتویٰ ،جس کا علمی حیثیت سے زمرہ علماءمیں ایک حد تک وقار واثر ہو ،تاکہ علماءکرام اس کے اقتدار کوتسلیم کریں اور صاحب بصیرت ہو ،تاکہ نہایت تدبیر کے ساتھ احکامات نافذ کرے۔
2……. مشائخ طریقت میں بھی صاحب وجاہت ہو ،اور اس کے حیطئہ اثر میں اپنے صوبے کے مسلمانوں کی ایک معتد بہ جماعت اس حیثیت سے موجود ہو کہ عوام وخواص اس کے اثر سے متا¿ثر ہوں اور تنظیم شرعی واجتماعی قوت، جلد سے جلد پیدا ہوسکے۔
3……..حق گوئی وحق بینی میں نہایت بے باک ہو اور کسی مادی طاقت سے متاثر ومرعوب ہونے کا بہ ظاہر اندیشہ نہ ہو۔
………4مسائل حاضرہ میں بھی ایک حد تک صاحب بصیرت ہو اور تدبیر کے ساتھ کام کررہا ہو ،تاکہ ہمارا کام بحسن وخوبی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے۔
5…….. لاپر وائی اور خود رائی کے مرض سے پاک ہو ۔
بہر حال ! خط ملتے ہی اور یہ جان کر کہ جو باتیں مشورے میں تھیں ،اب ان کو مولانا محمد سجاد کے ہاتھوں عملی شکل دینے کا وقت قریب آگیا ہے ،قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے اس خط کے جواب میں مولانا محمد سجا ؒ کو لکھا : آپ کا مطبوعہ خط اور اشتہار پہنچا ،آپ کی حمیت اسلامی اور علو ہمتی اور دینی مستعدی سے نہایت مسرت ہوئی ،آپ کی باتیں تو طبیعت کو ایسا بھاتی ہیں کہ دل بے چین ہوگیا ،مگر میری حالت نے ایسا مجبور کررکھا ہے کہ اب میں کسی کام کا نہیں ہوں…. اللہ تعالی آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے ،(حوالہ بالا،ص،488)
واضح رہے کہ صوبہ بہار کی بافیض قدیم خانقاہوں میں خانقاہ رحمانی مونگیر اور خانقاہ مجیبیہ کو اللہ نے بڑی مقبولیت بخشی ،آج تک ان خانقاہوں سے وابستہ صاحب سجادہ کی ہمہ جہت خدمات سے ملت اسلامیہ مستفید ہورہی ہے۔اول الذکر خانقاہ رحمانی مونگیر کے بزرگوں نے تقریباًاپنے سواسو سالہ سفر میں دعوت ،عزیمت اور خدمت کی راہ سے جو کارہائے نمایاں انجام دی ہیں ،وہ صرف کتابوں میں محفوظ نہیں زمینی سطح پر بھی امت اسلامیہ کے دلوں میں نقش ہیں ، اس کے متوسلین ، محبیین ،مسترشدین ملک کے گوشے گوشے میں دعوت و اصلاح کے فریضے انجام دیتے چلے آرہے ہیں ،خانقاہ رحمانی کے ایک انگ کے طور پر جامعہ رحمانی کے فیضان علمی سے کون انکار کرسکتا ہے ،جس کے سپوت، ملکی سطح پر ملک وملت کی دینی ،شرعی اورسماجی رہنمائی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ بانی خانقاہ رحمانی مونگیر ،قطب عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری کی فراست ایمانی، جذبہ خدمت خلق اور باطل کے خلاف زبان وقلم کی طاقت ،نیز! مونگیر کی سرزمین پرعلم و روحانیت کے اس حسین امتزاج نے ملت اسلامیہ ہندیہ کے دلوں میں خانقاہ رحما نی کی عظمت وعقیدت کو پوری طرح مرکوز کردیا ۔
خانقاہ رحمانی کی ہمہ جہت خدمات وکردار ،امتیازات واولیات ،ملک وملت کے لئے اس کی طرف سے دی جانے والی جاں پرسوز قربانیاں ، قرآن وسنت پر مبنی اس کے روز مرہ کے معمولات ، دین اسلام کا تحفظ ،عقیدے کی درستگی ،فرائض وارکان اسلام کی پابندی ،نبوی خطوط پر تبلیغ دین کی تاکید ،خدا ترسی ،فکر آخرت ،محاسبہ نفس ،توبہ واستغفار کی کثرت ،بدعات وخرافات اور رسوم ورواج سے احتراز کرنے ، دینی معرفت کے لئے بیدار کرنے اور دینی شرعی ،اصلاحی ،تعلیمی ،تنظیمی ،فکری ،دعوتی صفات جیسی بنیادی خدمات اور آنے والے وقت کی شر انگیزی کو بھانپ کر اُس کے دفاع کی تیاری کرتے ہوئے ،ملک وملت کی فلاح کے لئے بے باکانہ طریقے سے سامنے آنے اور "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ” والے انقلابی فکر وذہن کے ساتھ باطل سے لوہا لینے اورقادیانیت ،آریت ومسیحیت کا قلع قمع کرنے جیسی خوبیوں کی وجہ سے خانقاہ رحمانی مونگیرنے وقت کے اہل اللہ ،صاحب علم وعمل اور چوٹی کے علماءربانیین اور سیاسی گلیاروں کے ناخداو¿وں کے درمیان بھی علمی اعتماد ، روحانی عظمت،سیاسی تمکنت اور غیر معمولی وقار قائم کرنے میں کامیاب رہی۔
غرض! مذکورہ تاریخ میں مقررہ مقام پر جلسہ منعقد ہوا ، مولانا محمد سجاد نے جلسے کی دوسری نشست، جس میں ارباب شوری و حل وعقد کی خصوصی شرکت تھی ،اس خصوصی نشست میں انہوںنے اغراض ومقاصد پیش کرتے ہوئے بہ طور خاص ،مولانا محمد علی مونگیر ی خانقاہ رحمانی کا خط بھی سنا یا اور اس خط میں انتخاب امیر کے سلسلے میں حضرت مونگیری کی ایک تجویز بھی پڑھ کر سنایا ،جس میں اغلب یہی ہے کہ انہوں نے مولانا سیدشاہ بدرالدین صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ کو امیر شریعت منتخب کرلینے کے سلسلے کی اپنی ذاتی رائے پیش کی تھی۔ جیسا کہ ایک دوسرے خط سے جو مولانا محمد علی مونگیری نے بعد انتخاب امیر شریعت ،اپنے مریدین ومتوسلین کے نام بیعت امارت کرلینے کی تاکید میں لکھا تھا ،جس میں انہوںنے صاف صاف لکھا ہے اور جس سے اِس "غالب گمان "کی تائید بھی ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں : امارت شرعیہ کا خاص مقصد یہی ہے کہ مسلمانوںکو شریعت اسلامیہ سے آگاہ کریں ،اور اسلام کی عملی زندگی میں روح پھوکیں،اس لئے میری دلی خواہش ہے کہ تمام مسلمان خصوصا ہمارے متوسلین ،امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل میں مستعدی سے حصہ لیں اور اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
اخیر میں یہ فقیر اپنے خاص محبیین سے اتنا اور کہتا ہے کہ اس وقت جو امیر شریعت ہیں، انہوں نے میرے کہنے سے اس امارت کو قبول کیا ہے ،اب تمام محبیین سے بہ اصرار منت کہتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کریں ،بل کہ اسلام میں اتفاق کی بنیاد قائم کریں ،تاکہ صوبہ بہار کا اتفاق تمام ہندوستان کے لئے نظیر ہوجائے۔”(حیات ابوالمحاسن۔ص،500)
ذہن میں اس بات کوجگہ دیجئے کہ جب حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ کی طرف سے پورے صوبے کے اندر اکابر علماءکی خدمت میں خطوط جاری ہوئے تو تائید میں سب سے پہلے خانقاہ رحمانی سے جواب آیا ،جسے مولانا محمد سجادؒ نے حل وعقد کی میٹنگ میں پیش بھی فرمایا جس میں امیر شریعت کے طور پر مولانا بدرالدین صاحب کے نام کی نشان دہی کی گئی تھی "قلندرہر چہ گوید دیدہ گوید ” کے مصداق، حسن اتفاق اُسی نام کی تعیین پر مجمع نے باتفاق رائے مولانا آزاد کی صدارت میں ہونے والی مجلس کے اندر امیر شریعت کی مہر بھی لگائی۔مولانا محمد سجاد صاحبؒ کے پاس دوسرا خط مولانا بدرالدین صاحب کا آیا تھا ،جس میں انہوں نے امیر شریعت کے لیے موزوں نام کے طور پر مولانا محمد علی مونگیری کی طرف رہنمائی کی تھی۔ خط کا مضمون یوں ہے :
” میں جمعیۃ علماءبہار کے اس جلسہ میں حاضر ہونے سے معذور ہوں ،اور اس تحریر کے ذریعے سے اپنی رائے ظاہر کردیا ہوں ،محکمئہ شرعیہ کے امیر کے لئے میری رائے میں جو پانچ صفات بتا ئی گئی ہیں ،بہت مناسب ہیں ،اس صوبہ بہار میں ان صفات سے موصوف اس وقت جناب مولانا شاہ محمد علی صاحب رحمانی کے سوا دوسرے کسی کو میں نہیں پاتا ،اس لئے میری رائے ہے کہ اس منصب پر وہی مقرر کئے جائیں ” (تاریخ امارت,ص،75)
میر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین صاحب قادریؒ:
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ مولانا محمد سجادؒ بہار میں امارت کے قیام کے سلسلے میں مولانا آزاد اور مولانا محمد علی مونگیری سے براہ راست رابطہ میں پہلے سے تھے ،اور جب قیام کی نوبت آئی تو نہ صرف مولانا مونگیری ؒنے بڑھ کر سب سے پہلے اپنی رائے پیش کی ، ان کا حوصلہ بڑھا یا ،بل کہ امیر شریعت اول کے لئے حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین صاحب قادریؒ کے نام کی تجویز بھی بھیج دی ،جسے مولانا محمد سجاد ؒنے بہ طور خاص ارباب حل وعقد کے اجلاس میں پڑھ کر بھی سنایا ، اس طرح الحمد للہ پہلے پہل امارت شرعیہ کے قیام کی تائید و رہنمائی اور امیر شریعت اول کا حسن انتخاب بھی بخیر وخوبی خانقاہ رحمانی مونگیر کی پیش قدمی اور مخلصانہ رہنمائی میں ہوا مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نے ایک دفعہ اپنے بیان کے دوران بھی فرمایا تھا کہ :انہیں مقاصد کے پیش نظر حضرت مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تائید و رہنمائی میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے آج سے تقریباً چوراسی سال پہلے صوبہ بہار واڑیسہ کے لئے امارت شرعیہ قائم کی "(خطبات امیر شریعت ،ص، 90)
مولانا محمد علی مونگیری قد سرہ کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی حیران کن اور جس سے اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ حضرات آپس میں کتنے مخلص اور بے لوث تھے؟بتایا جاتا ہے کہ انتخاب کے بعد دونوں بزرگوں کی بات ہوئی کہ حضرت آپ ہی اس کے اہل ہیں ،اس پر مولانا مونگیریؒ نے فرمایا کہ آپ بڑے ہیں یا میں بڑا ہوں ؟جواب ملا کہ بڑے تو آپ ہیں ،فرمایا کہ پھر میرا حکم ہے کہ آپ اس عہدے کو قبول فرمائیں ،ہم لوگ اللہ تعالی سے دعاکریں گے۔ پھر جب بعد کے دنوں میں خانقاہ رحمانی سے وابستہ بعض متوسلین کو فکر ہوئی کہ اب تک تو خانقاہ رحمانی سے وابستگی تھی ،اب خواہی نہ خواہی خانقاہ مجیبیہ سے وابستہ ہونا پڑے گا ،جہاں کا مزاج، اصول میں گرچہ موافق ہے ،مگر فروع میں وہاں کا مزاج وآہنگ اور معمولات کا اپنا الگ رنگ ہے ،تب حضرت کی طرف سے باضابطہ دوسرا مکتوب اپنے متوسلین کے نام جاری ہو ا ،جس میں حضرت مونگیری ؒنے زور دے کر فرما کہ میرے کہنے سے امیر شریعت کا عہدہ انہوں نے قبول کیا ہے اور جہاں تک وابستگی کی بات ہے تو سمجھنا چاہئے کہ بیعت طریقت الگ ہے اور بیعت امارت الگ ہے ، اجتماعی سمع اطاعت کے لئے بیعت امارت تو سب کے لئے امیر شریعت کے ہاتھ پر ضروری ہے ،البتہ بیعت امارت سے بیعت طریقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ،اس لئے اجتماعی زندگی کے قیام کے لئے بیعت امارت سے سبھوں کو منسلک ہوجاناچاہئے اس طرح بجا طور پر کہنا چاہئے کہ امیر شریعت اول کا انتخاب ،خانقاہ رحمانی کی قابلیت ،صلاحیت اور اہلیت کے باوجود، بے لوثی ،ایثار،خانقاہ مجیبیہ کے تئیں پیش قدمی اور جذبہ اطاعت کے نتیجے میںبخیر وخوبی عمل میں آیا۔
امیر شریعت دوم حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادریؒ:
امیر شریعت اول کے وصال کے بعد” امیر شریعت ثانی“ کے انتخاب کے لیے مو¿رخہ 8/9/ ربیع الاول 1343 ھ کو پھلواری شریف میں ایک کھلا اجلاس منعقد ہوا ،جس کی صدارت کے لئے باتفاق رائے خانقاہ رحمانی کے روح رواں قطب عالم مولانا سید شاہ محمد علی مونگیر ی کام نام نامی طے ہوا ،مگر وہ اپنی علالت کے باعث اجلاس میں شریک نہ ہوسکے ،لیکن قائم مقام صدر کے طور پر انہوں نے اپنے صاحب زادے حضرت مولانا سید شاہ لطف اللہ صاحب رحمانی کو بھیجا ،ان کی صدارت میں شایان شان اجلاس منعقد ہوا ،اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے مولانا مونگیری کا وہ مقالہ بھی پیش کیا ،جس میں امارت شرعیہ کو مضبوطی فراہم کرنے ،امیر کی اطاعت ،اجتماعی زندگی کیوں ضروری ہے اور اتحاد بین الناس کے قیام کے سلسلے میں ایسی بنیادی گفتگو کی گئی ہے کہ اس سے پہلے اتنی مدلل گفتگو خاص اس موضوع پر تحریر میں نہ آسکی تھی ،اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ،جس کا اظہا حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ امیر شریعت خامس نے اپنی ایک تحریر میںاعترافاً کیا ہے :”اس خطبے میں اسلام کے ایک اہم مسئلے کو جسے عام طور پر لوگوں نے فراموش کردیا تھا پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،علماءکی ذمہ داریاں کیا ہیں ،مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے انہیں کیا نقصان پہنچ رہا ہے ،اسلامی نقطئہ نظر سے جماعتی زندگی کی کیا اہمیت ہے ،مسلمان ایک جماعت کس طرح بن سکتے ہیں ،مسئلہ امارت کا مآخذ کیا ہے ،امیر کے تقرر کے بعد مسلمانوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،امیر اپنے احکام ،مسلمانوں پر نافذ کرنے میں مادی قوت کا محتاج ہے یا امت مسلمہ کی سمع و طاعت کا ،یہ وہ اہم مسائل ہیں، جن پر اس خطبے میں روشنی ڈالی گئی ہے "(مسلمان ایک امت ،ایک جماعت،ص،2)
خانقاہ رحمانی کے پیرطریقت حضرت قطب عالم ؒ کا عمر کے اس مرحلے میں مسئلہ امارت سے خصوصی لگاو¿ اور دل چسپی کا ہی نتیجہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک پورا تحقیقی دستاویزی مضمون تحریرفرمایا ،تاکہ امارت شرعیہ کی کنہیات مسلمانوں کے سامنے پوری طرح واضح ہو اور عام مسلمانوں کے لئے اس سے جڑنا آسان ہو سکے ۔اجلاس میں بحیثیت صدر خود پہنچنا مشکل ہو ا تو اپنے صاحب زادے محترم کو بھیج کر اجلاس کو کامیاب فرمایا اور بالواسطہ نگرانی فرماکر” انتخاب امیر شریعت ثانی“ کے مراحل کو بخیر وخوبی انجام دینے میں ضعف ونقاہت کو آڑے آنے نہیں دیا ۔ اس طرح قیام امارت سے لے کر بعد کے ادوار میں امیر شریعت ثانی حضرت مولانا سید شاہ مولانا محی الدین رحمہ اللہ کے حسن انتخاب تک مکمل نگرانی فرماتے ہوئے بہار میں امارت شرعیہ کے احکام کی تنفیذ کے لئے نہ صرف اپنے علمی وروحانی اثرات کا استعمال فرمایا، بل کہ ضعیفی کے باوجود بلا واسطہ وہ امارت کے تقاضوں کو دم آخر تک دیکھتے بھی رہے۔
امیر شریعت ثالث حضرت مولانا سید شاہ قمرالدین صاحب قادریؒ:
27/جون 1947 میں امیر شریعت ثالث حضرت مولانا سید شاہ قمر الدین صاحبؒ کا انتخاب عمل میں آیا ،اجلا کی صدارت شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ کو کرنی تھی۔ مگر اسی درمیان حکومت بہار نے تمام طرح کے جلوس پر پابندی عائد کردی تھی ،جس وجہ کرتاریخ انتخاب آگے بڑھادی گئی ، مگرحضرت مدنی پھر بھی تشریف نہ لاسکے،البتہ خود آنے سے معذرت کرتے ہوئے اپنی طرف سے حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی ؒکو جلسے کی صدارت کے لئے بھیجا تھا،تب وہ جمعیة علماءبہار کے ناظم تھے ،مولانا حسب حکم تاریخ مقررہ میں سفر شروع کر چکے تھے دوران سفر کار حادثے میں زخمی ہونے کے سبب اجلاس کی صدارت نہیں کرسکے۔ مولانا میاں صاحب نے صدارت کی تھی ،تاہم یہ بڑی بات ہے کہ شیخ الاسلام نے آپ کو اپنے بدلے اس انتخاب کے لئے صدر منتخب کیا تھا ،اور آپ شرکت کے لئے نکل چکے تھے ۔
اس سے بھی آپ کی امارت اور مولانا محمد سجاد کے تئیں عقیدت ومحبت اور جذبہ قربانی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ،مولانا رحمانی چوں کہ مولا نا محمدسجاد صاحبؒ کی سرپرستی میں 1935 سے ہی جمعیةعلماءبہار کی نظامت فرمارہے تھے اور37ءمیں ان کی پارٹی، مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی سے لیکشن بھی لڑچکے تھے ،جس میں وہ واضح طور پر کامیاب ہوکر بہار اسمبلی میں اپنی قابلیت وصلاحیت کالوہا منواچکے تھے،اس لئے مولانا محمد سجادؒ کی مذہبی اور سیاسی فکر وشعور سے وہ قریب بھی تھے ،اور امارت کے مسئلے میں شروع سے حساس بھی۔وہ مولانا محمد سجاد صاحبؒ اور بعد کے دنوں میں نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد صاحب رحمانی ؒؒ ؒکے ساتھ کئی مقامات پر مسئلہ امارت کے سلسلے میں نمائندگی کا فریضہ بھی اداکر تے رہے ،خواص کے علاو¿ہ عام عوام میں بھی مولانا رحمانی کی قربانیاں، قانون شریعت پر عمل درآمد کے حوالے سے ان کی مسلسل بے چینیا ںجگ ظاہر تھیں ،مگر کبھی بھی انہوں نے امیر شریعت کے لئے لابنگ نہیں کی، بل کہ بے لوث خدمت کرتے رہے،یہاں تک کہ مولانا محمد سجاد ؒنے جس خون جگر سے امارت شرعیہ کو سینچا تھا ،مولانا رحمانیؒ اس کو دن بدن آفاقی بنانے کے لئے کوشاں تھے اور اس کے دائرہ عمل کو وسعت دینے کے لئے ان کی فکر مندی بلند خیالی اور تگ ودو کی جہتیں اس بات کی طرف مشیر تھیں کہ امارت شرعیہ کی حیثیتوں اور اس کے روشن کردارکو کسی بھی سطح پر کم تر ہونے سے بچایا جائے۔امارت کے تئیں آپ کے نیک جذبات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے:
” تمام مسلمانان بہار واڑیسہ اس نظام اجتماعی کی حقیقی روح کو سمجھ کر اپنے اندر کی تمام فرقہ بندیوں سے ماوراءہوکر کلمہ واحدہ کی بنیاد پر منظم ہوجائیں ،اور اپنے اس اجتماعی نظام کو اتنا طاقت ور بنا دیں کہ ان کے معاشرے میں احکام خدا وندی کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ ہو “(سوانح امیر شریعت ،ص:200)
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانیؒ:
تقریبا دس برس بعد جب امیر شریعت ثالث گذر گئے ،امارت شرعیہ اپنے امیر شریعت سے خالی ہوگئی ،تب 25/جون 1957 کو مدرسہ رحمانیہ سوپول ،میں امیر شریعت رابع کے انتخاب کی غرض سے مولانا حفظ الر حمان صاحب ناظم عمومی جمعیةعلماءہند کی نگرانی اور مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری مغربی چمپارن کی صدارت میں ایک باوقار اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا ، جس میںارکان جمعیةکے علاو¿ہ ایک بڑی تعداد ارباب حل وعقد کی تھی ،مولانا عبد الصمد رحمانی صاحبؒ امیر شریعت ثانی کے مدت کار میں ہی نائب امیر شریعت منتخب ہو چکے تھے اس لئے بحیثیت نائب امیر انہوں نے اجلاس میں غرض وغایت سمیت تمہیدی گفتگو فرماکر اس اہم منصب کے لئے نام پیش کرنے کی تجویز رکھی ،اس موقع پر پہلا نام حضرت مولانا شاہ امان اللہ صاحبؒ ، دوسرا مولانا شاہ منت اللہ صاحب رحمانیؒ ،تیسرانام مولانا شاہ نظام الدین صاحب پھلوارویؒ ،جب کہ ایک چوتھا نام مولانا عبد الصمد رحمانی صاحبؒ کا پیش کیا گیا ،مگر مولانا عبد الصمد صاحب نے بذات خود انکار کردیا کے میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں ،اب جو تین نام رہ گئے وہ بھی بہت اہم تھے ، کھلے اجلاس میں ان پر بحث ومباحثہ کرنے میںبے احترامی ہوسکتی تھی ،اس لئے نو افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی کہ وہ کسی ایک نام پر اتفاق کر کے اجلاس میں پیش کرے ،چنانچہ کمیٹی نے بحسن وخوبی مغرب تک اپنی رائے پیش کردی ،جس میں باتفاق رائے حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ کو امیر شریعت رابع کے لئے منتخب کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ بعد مغرب کھلے اجلاس میں آپ کے حسن انتخاب کا اعلان کیا گیا ،مولانا کو اسٹیج پر بلایا گیا اور آپ نے اپنی موجودگی میں مزید 28/افراد کو شوری میں شامل کرنے کی منظوری دی ۔
27 / مارچ کو آپ اپنے چند احباب کے ساتھ امارت شرعیہ بمقام خانقاہ مجیبیہ بحیثیت امیر شریعت رابع تشریف لائے ،اور کتاب الاحکام میں سب سے پہلا حکم جو درج فرمایا ،اس سے آپ کی دور اندیشی ،معاملہ فہمی ،امارت شرعیہ کو ہر طبقے سے جوڑے رکھنے کا مخلصانہ جذبہ اور امارت کے عظیم مقصد کو بروئے کار لاکر اسے مستحکم کرنے اور اس کے نظام کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر فروغ دینے کا ہنر حرف حرف سے عیاں ہوتا دیکھائی دیتا ہے :” امارت شرعیہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے مسلمانوں کا مشترک ادارہ ہے ،جس کا مقصد بنیادی عقیدے کی وحدت پر مسلمانوں کی شرعی تنظیم ہے ،تا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو ،مسلمانوں میں ممکن حد تک اسلامی احکام جاری ہوں ،اور مسلمان اس ملک میں اسلامی زندگی گذار سکیں ،ظاہر ہے کہ یہ مقصد عظیم تعصب ،تنگ نظری ،پارٹی بندی اور اپنے مقصد سے ہٹے ہوئے لوگوں پر طعن و تشنیع کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا ،اس لئے کارکنان امارت کا فرض ہے کہ وسعت نظر اور فراخ دلی سے کام لیں ،پوری یکجہتی کے ساتھ مقصد عظیم پر نظر جمائے ہوئے ،فرورعی اور جزوی اختلافات سے دامن بچاتے ہوئے آگے بڑھیں ،اور جب تک کسی مسلک اور خیال سے کفر و اسلام کا اختلاف نہ ہو ،رواداری ترک نہ کریں ،ہر معاملے میں اور بالخصوص تبلیغ وہدایت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں زمانہ رسالت اور عہد صحابہ کے اسوہ کو مشعل راہ بنائیں ،اور ایسا طریقہ اختیار کریں کہ مختلف مسلک اور خیال کے ادارے اور اشخاص مقصد عظیم کے لئے امارت شرعیہ کے گرد حسن ظن رکھتے ہوئے جمع ہوسکیں کہ یہاں ان کی انفرادیت پر حملے نہ ہوں گے اور نہ ان کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جائے گا "(سوانح امیر شریعت ،ص،187)
امیر شریعت کی حیثیت سے آپ نے امارت شرعیہ کی ذمہ داری قبول تو کرلی ،لیکن امارت کی صورت حال بہت اچھی نہیں رہ گئی تھی ایسے ماحول میں امارت کو لے کر چلنے کا مطلب دودھاری تلوار پر چلنا تھا ،قاضی صاحب لکھتے ہیں :جس وقت آپ ،امیر شریعت منتخب ہوئے امارت شرعیہ کی مالی حالت نہایت خراب ہوچکی تھی ،،امارت شرعیہ کا رابطہ عوام سے ٹوٹ چکا تھا ،لوگوں کے ذہنوں میں امارت شرعیہ کا تصور دھند لا سا ہوگیا تھا ،ایسے نازک حالات میں جب اس کشتی کا کھیںون ہار آپ کو مقرر کیا گیا تو کچھ اہل ہوس اور کچھ ارباب سیاست کو یہ سب کچھ پسند نہیں آیا ،اور طرح طرح سے امارت کی مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ،کچھ لوگوں نے اپنی اپنی خانقاہی وابستگیوں کا حوالہ دے کر یہ کہنا شروع کردیا کہ اب تو امارت شرعیہ فلاں خانقاہ سے فلاں خانقاہ میں چلی گئی ہے ،غرض یہ کہ تنظیم امت کے اس وسیع سمندر کو اپنے محدود ذہن کے ساتھ ایک چھوٹی سی حد بندی میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی ،ذاتیات پر حملوں ،اخباری مراسلوں ،گمنام اور فرضی خطوط اور امارت شرعیہ مبلغین اور کارکنوں کو تنگ اور پریشان کرنے کی کوشش کی گئی ،طوفان سخت تھا ،رات تاریک تھی ،کشتی امارت بیچ موج اور گرداب بلا میں گھری ہوئی تھی ،ایسے وقت میں وہ مرد زیرک اللہ پر اعتماد کی پتوار لے کر امارت کو اس بھنور سے نکالنے کے لئے مشکل صورت حال سے نبرد آزما تھا ،آخر وہ مرد درویش جسے اللہ تعالی نے "نگہ بلند ،سخن دل نواز ،جاں پرسوز کی دولت عطا کی تھی ،اس کشتی کو بھنور سے نکال لایا ،امارت شرعیہ کو فعالیت کی حرارت اور روح تازہ بخشی ،اور آج امارت شرعیہ ،بہار اڑیسہ ہی میں نہیں ،پورے ملک میں ،بل کہ عالم اسلام میں اپنی امتیازی شناخت کے ساتھ متعارف ہے "(حوالہ بالا،ص،191)
ڈاکٹر وقارالدین لطیفی صاحب سوانح امیر شریعت رابع میں ایک جگہ لکھتے ہیں : یقینا آپ کا عہد امارت ،امارت شرعیہ کا عہد زریں ہے ،جو تقریبا 34/سالوں پر محیط ہے ،آپ نے امارت شرعیہ کومختلف جہتوں سے ترقی دی ،اور کئی اہم شعبوں کا اضافہ کیا۔دارالقضاءکی توسیع پر خصوصی توجہ فرمائی ،اور بہار واڑیسہ کے مختلف اضلاع میں مرکزی دارالقضاءکی شاخیں قائم فرمائیں ،اور لوگوں کو امارت شرعیہ کے مبلغین کے ذریعے اپنے معاملات کو علاقائی دارالقضاءمیں حل کرانے کی ترغیب دلائی، اسی طرح آپ کے زمانے میں دارالافتا کو بھی وسعت دی گئی قدرتی آفات وفسادات کے موقع سے لوگوں کی امداد کے لئے شعبہ تحفظ مسلمین قائم کیا ، امارت کے کاموں میں تیزی لانے کے لئے نقباءمقرر کئے ،امارت شرعیہ کے لئے زمین حاصل کرکے دارالامارةکی تعمیر کرائی ،اور امارت شرعیہ کو ایک تنگ جگہ سے نکال کر ایک وسیع عمارت میں منتقل فرمایا ،اور اس زمین پر مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے نام سے اسپتال کی عمارت تعمیر کرائی ،عصری علوم وفنون کے حصول کے لئے ٹیکنیکل عمارت کی بنیاد رکھوائی اور آپ کی حیات میں ہی اس کی تین منزلہ عمارت تیار ہوگئیں ،امارت شرعیہ کا ترجمان ،نقیب جو پہلے پندرہ روزہ تھا اسے ہفت روزہ کیا ،اور آٹھ رورقی سے سولہ ورقی کیا ،اسی طرح بیت المال کو آپ نے مستحکم کیا (سوانح امیر شریعت،ص،190)مذکورہ بالا حقائق واقتباس کی روشنی میں یہ بات تسلسل کے ساتھ سامنے آ چکی ہے کہ مولانا رحمانی نے اپنے 35/ سالہ دورہ امارت میں تمام تر اختلافات اور امارت کی خستہ حالی کے باجود اسے سینچ کر ایک تنا ور درخت بنایا اور اپنی ہمہ جہتی خدمات وکردار سے امارت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ انسانی شعور اس بلندی کا بہت آسانی سے تصور بھی نہیں کرسکتا۔
امیر شریعت خامس وسادس کاانتخاب اور مولانا محمد ولی رحمانیؒ کا کردار
1991 میں امیر شریعت رابع کے انتقال کے بعد پھلواری شریف میں انتخابی جلسہ رکھا گیا ،اس انتخابی اجلاس میں حضرت مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ بھی موجود تھے ،بل کہ حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب کے نام کا اعلان بہ طور امیر شریعت خامس ،خود مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے پیش کیا تھا ،جس کی باتفاق رائے اجلاس نے پرزور تا ئید کی اور مولانا عبد الرحمان صاحبؒ کا انتخاب بخیر وخوبی عمل میں آیا۔ستمبر1998/29 میں جب امیر شریعت خامس بھی اللہ کے پیارے ہوگئے اور امیر شریعت سادس کے انتخاب کے لئے پھلواری شریف پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا تب انتخاب امیر کے سلسلے میں بعض لوگوں نے ماحول کو غلط رخ دینے کی کوشش کی اور ایک پر سکون ماحول کو مخالف بنا کر پیش کیا گیا ،مگر مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی دور اندیشی نے تمام اٹکلوں کو خارج کرتے ہوئے ازخود سب سے پہلے امیر شریعت خامس کے لئے مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کے نام کا نہ صرف اعلان کیا ،بل کہ مخالف گروپ سے خوش دلی کے ساتھ اس اعلان کا خیر مقدم کرنے کی درخواست بھی کی:
” میرے لئے یہ سعادت کی بات ہے کہ پانچویں امیر شریعت کے متفقہ انتخاب کا میں ذریعہ بنا تھا ،اور اب بھی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ چھٹے امیر شریعت کو بھی ہم لوگ متفقہ طور پر چن لیں ،اس لئے میں مولانا سید نظام الدین صاحب کا اسم گرامی امیر شریعت کے لئے پیش کرتا ہوں ،یقین ہے ،آپ سب اس تجویز کی تائید کریں گے "(حیات ولی ،ص،150)
مولانا فقیہ الدین دہلویؒ سابق مہتمم مدرسہ رحیمیہ محلہ مہدیان دہلی نے مولانا محمد ولی صاحبؒ رحمانی کے اس اقدام کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ لائق و فائق اور تمام جہتوں سے موزوں ومناسب کردار کا حامل ہونے کے باوجود جاہ ومنصب کی قربانیاں کیسے دی جاتی ہیں ،کوئی مولانا محمد ولی رحمانی سے سیکھے ” مجھے فخر ہے مولانا محمد ولی رحمانی پر ،جنہوں نے اپنی ذات کو عہدہ سے الگ رکھا ،اور اپنی فرا ست ،ایثار اور جذبہ اخلاص کو کام میں لاتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ امارت شرعیہ کے دو امیر شریعت ،یعنی مولانا عبد الرحمان ،اور مولانا سید نظام الدین متفقہ طور پر منتخب ہوئے ،یوں کہئے کہ انہوں نے دومتفق علیہ امیر شریعت بہار واڑیسہ کو دیئے ہیں "(حوالہ بالا)
مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ یو ں تو اپنے والد محترم کے دورامارت سے ہی دست وبازو بن کر، امارت کے کاز میں ہاتھ بٹا تے رہے ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے امیر شریعت رابع ؒکے دور امارت میں امارت شرعیہ کے لئے زمین کو حاصل کرنے میں نہ صرف اپنے سرکاری پاور کابحیثیت ایم ایل سی ،استعمال کیا ،بل کہ انہوں نے امارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی غرض سے اس وقت کے گور نر اخلاق الرحمان قدوائی صاحب سے اپنے دیرینہ تعلقات کو بھی امارت ہی کے لئے استعمال کیا ،وہ اپنی عمر کے ابتدائی دور سے ہی امارت کے اتار چڑھاؤکوقریب سے دیکھ رہے تھے ،والد محترم کے ایماءپر امارت کی طرف سے ریلیف فنڈ کی تقسیم بھی ،اپنی جان جوکھم میں ڈال کرانہوںنے متعددبار کیا ہے ،یہاں تک کہ جیب خاص سے مزید رقوم کا نظم فرماکر ، رانچی وغیرہ کے علاقے میں بھی ر احت رسانی کا کام کرتے رہے ہیں ،اس طرح سے جب آپ 2005 میں نائب امیر شریعت منتخب ہوئے تو اس راہ سے ان کی سرگرمیاں مزید تیزہوگئیں اور نیابت کے زمانے میں بھی حسب توفیق امارت کے لئے ان سے جو بن پڑا ،اس میں انہوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی ۔
امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی صاحب رحمانیؒ:
29 /نومبر 2015 کو جب آپ باتفاق رائے امیر شریعت منتخب ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے امارت کے تحفظ کے لئے غیر معمولی جد وجہد کی اور امار ت کی ملکیت کو آزاد کرا یا ،امارت کی ملکیت جہاں جہاں تھی ،نہ صرف سبھوں کے کاغذات ،امارت کے حوالے کیا ،بل کہ امارت سے منسلک اداروں کو بھی امارت کے سپرد کیا،اس دوران اُن پر بہت سی جہتوں سے ذہنی و فکری طور پر دشواریاں آئیں ،مگر انہوں نے اس کی پراہ کئے بغیر امارت کی صحت کا خیال رکھ کر کائیوں کو صاف کرنا ضروری سمجھا۔اس طرح سے امیر شریعت سا بع کوئی نصف صدی تک امارت شرعیہ سے جڑے رہے اور اپنی بساط بھر اس کی ترقی کے لئے جہاں تک ہوسکا اس کے انجام دینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔معروف کالم نگار ،ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب پٹنہ ،حضرت مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ صاحب قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار واڑیسہ ،جھار کھنڈ،حضرت مفکر اسلام امیر شریعت سابع ؒکے دور امارت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ،جس کا ایک پرا گراف بہ طور خلاصہ پیش ہے :
” اس مختصر دورامارت میں حضرت رحمانی نے امارت شرعیہ کے استحکام کے لئے متعدد اقدام کئے، تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لئے ہرضلع میں صدر سکریٹری اورفعال کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا، بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی عمل میں آئی، تاکہ تنظیم وتبلیغ کے کاموں کو زمینی سطح پر وسعت دی جاسکے، اس کے لئے دربھنگہ ،مدھوبنی،مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن،سیتامڑھی، مظفرپور، سوپول، سہرسہ، مدھے پورہ میں دودوروز قیام کرکے آپ نے امارت شرعیہ کے تنظیمی کاموں کو مضبوطی عطا کی،جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو وسعت دینے کے لئے انتقال سے ایک ہفتہ قبل پانچ روز قیام کیاتھا اورمختلف سطح پر کام کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کو آخری شکل دی تھی، اس سلسلے کا آخری پراﺅ اڈیشہ تھا، رمضان بعد اس کی ترتیب بنی ہوئی تھی، لیکن موت نے اس کا موقع نہیں دیا، دارالقضاءکے کاموں کوو سعت بخشی اوراب ارسٹھ(۶۸) دارالقضاءکام کررہے ہیں، تعلیمی میدان میں امارت پبلک اسکول کے مبارک سلسلہ کا آغاز کیا ، گریڈیہہ کے بن کھجنجو اورپسکانگری رانچی میں نئے اسکول کھولے گئے، امارت انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد اربارانچی میں ڈالی گئی ،پہلے سے چل رہے تمام تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے سلسلے میں ضروری اورمناسب اقدامات کئے گئے، طلبہ وطالبات کے لئے الگ الگ نظام بنایاگیا، بنیادی دینی تعلیم کے فروغ ،عصری تعلیمی اداروں کے قیام اوراردو کی بقاءوتحفظ اورترویج واشاعت کے لئے پورے بہار اورجھارکھنڈ میں تحریک چلائی گئی اورضلعی سطح تک کی تعلیمی تنظیم قائم کی گئی ،بہار میں اس کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوچکاتھاکہ اس عظیم حادثہ فاجعہ کی وجہ سے اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا،بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لئے خود کفیل نظام تعلیم کے جامع منصوبہ کو جو اکابر امارت نے بہت پہلے ترتیب دیا تھا، تھوڑے اضافہ کے ساتھ نظام تعلیم کے راہنمااصول کے نام سے شائع کراکر بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں تقسیم کرایاگیا، اردو کو داخلی سطح پر مضبوط اورسرکاری سطح پر حقوق کی یافت کے لئے اردو کارواں کا قیام عمل میں آیا، جس نے حضرت صاحب کی توجہ سے دوماہ کے اندر ہی اپنی ایک شناخت بنالی،حضرت امیر شریعت کے اس جملہ نے کہ اردو کو اب دودھ پینے والے مجنوں کی ضرورت نہیں، خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے،ضرب المثل کی شکل اختیار کرلی۔ دفتری کاموں میں تیزی لائی گئی، اورجمودوتعطل کو دور کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی، امارت شرعیہ کے دوسرے تعلیمی اورتکنیکی اداروں ،خدمت خلق کے شعبوں کو چوکس ،مستعد اور مزید نفع بخش بنانے کا کام کیاگیا“(ایک مضمون سے ماخوذ )
آئنہ سر محفل جو دیکھا:
امارت شرعیہ کے قیام سے ہی اس کے ساتھ خانقاہ رحمانی کی شمولیت اور تادم تحریر شمولیت،یہ اولیت صرف اورصرف خانقاہ رحمانی کوحاصل ہے، تاریخی حوالے سے،ایک سرسری نظر اگر آپ اس اتفاق پر ڈالیں، تو لگتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں ،بل کہ اس میں یقیناً اللہ تعالی کی مرضی شامل ہے،خانقاہ رحمانی موبگیرنے بنا کسی لابنگ اور ذاتی طلب کے پورے سوسال سے جس طرح غیر معمولی خلوص وللہیت کے ساتھ نظام امارت شرعیہ کو فروغ دینے ،اس کو تحفظ فراہم کرنے اور مسلمانان بہار اڑیسہ جھارکھنڈ سمیت عالم اسلام کی نگاہ میں اس کو ایک عظیم اسلامی سینٹربنائے رکھنے کی جد جہد کی ہے، وہ اللہ کی مشیت کے بغیر ناممکن تھا ۔
آپ دیکھیں کہ امارت شرعیہ کے پہلے امیر کاانتخاب ،خانقاہ رحمانی کے پہلے سجادہ نشی کی تجویز پر ،دوسرے امیر کا انتخاب ، خانقاہ کے دوسرے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ لطف اللہ رحمانی کی صدار ت وتائید سے۔تیسرے امیر کا انتخاب ،تیسرے سجادہ نشیں کی صدارت میں۔چوتھے امیر کا انتخاب ، خودخانقاہ کے تیسرے سجادہ نشیں کی صورت میں۔پانچویں اورچھٹے امیر شریعت کا انتخاب ،خانقاہ رحمانی کے چوتھے سجادہ نشیں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی ؒ کی تجویز واعلان پر۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خانقاہ رحمانی کے ہر صاحب سجادہ ،ہرایک امیر شریعت کے انتخاب اور بعد انتخاب ، امارت شرعیہ کے کاز سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امارت کو شاد کام سمت سفر جاری رکھنے میں ،خانقاہ رحمانی نے پورے سوسال میں کبھی تسلسل کو نہ صرف ٹوٹنے نہیں دیا ،بل کہ امارت شرعیہ کو دنیاءاسلام کی نگاہ میں قابل رشک بنانے میں بھی خانقاہ رحمانی کے بزرگوںنے اپنی ہمہ جہت صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کردیں۔
زیب سجادہ خانقاہ رحمانی مولانا ڈاکٹر احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم:
بزرگوں کی اسی امانت کے تحفظ وفروغ کے لئے آج بھی خانقاہ رحمانی کے پانچویں سجادہ نشیں، محترم ڈاکٹر حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی ازہری صاحب دامت برکاتہم خاندانی شرافت ونجابت ،عزیمت وجرئت اور علمی وروحانی سطح پر باوقار صلاحیت اورمثالی شناخت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے باکمال دادا کی جہاں تربیت حاصل کی ہے ،وہیں اپنے عظیم والدکے زیر سایہ انسانی دنیا کے نشیب وفراز کو بھی نزدیک سے سمجھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ،انہوں نے جس طرح باہری دنیا کی برق رفتاری کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے ،وہیں عصری دنیا کو ان کی ہی زبان میں دین اور احکام دین کو پیش کرنے کا ہنر بھی پایا ہوا ہے ،وہ جس طرح اے سی کی دنیا کے لوگوں کو حق کی دعوت دینے میں پیش پیش رہے ہیں ،اِن آنکھوں نے دیکھا ہے کہ وہ سیمانچل اور بعض دوسرے علاقوں میں پیادہ پا چل کر غریب ،مزدور اور تنگ حال کی مدد کے کے لئے ریلیف کا سامان تقسیم کرنے اور اُن ضرورت مندوں کی زندگی کا جائزہ لینے گھر گھر گھوم رہے ہیں ۔خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ کے بزرگوں کے طریقہ عمل ، فکر ونظر،تحفظ دین ،وحدت امت کے لئے جد وجہد اور کلمہ واحدہ کی بنیاد پر جماعت کو مضبوط کرنے جیسی بے شمار خوبیوں سے مالا مال ،اکابر و اسلاف کے پر تو حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو اللہ تعالی صحت وسلامتی کے ساتھ قائم رکھے ،تاکہ امیر شریعت سابع ؒکے بعد ان کے سچے جانشین اور خانقاہ رحمانی وامارت شرعیہ کی روایتوں کے امین بن کر وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی دینی ،شرعی ،ملی ،سماجی اور علمی واصلاحی رہنمائی فرماتے رہیں۔آمین یارب العالمین
نائب صدر جمعیۃ علماء بیگوسرائے