اہم خبریںمضامین

قربانی کی روح ،حقیقت اور پیغام

محمد قمرالزماں ندوی

…………………………….

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

………………………….

قربانی ایک اہم اور مہتم بالشان عبادت ہے ۔ جو در اصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یاد گار اور ملت اسلامیہ کا اہم شعار ہے ۔ یوں تو دنیا کی تاریخ قربانی و جانثاری، تسلیم و خود سپردگی،اطاعت و تابعداری اور محبت و فدا کاری کے واقعات و داستان سے بھری پڑی ہے، لیکن خانوادئہ ابراہیمی کی یہ قربانی اللہ کو اتنی پسندیدہ ٹھری اور ایسی مقبول ہوئی کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے انہیں یاد گار بنا دیا، آج مسلمانان عالم انہیں اداؤں اور صورتوں کی نقل کرکے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس روش ،ڈگر ، سنت اور شعار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جاری رکھا اور یہ تسلسل اب تک امت محمدیہ علی صاحبھا و التسلیم میں قائم ہے ۔
قربانی اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں تقرب و بلندی اور مقام و مرتبہ حاصل کرنے اور جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے، قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی وجود کی تاریخ قدیم اور پرانی ہے ،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قربانی اور نذرانہ کا رواج حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے وقت ہی سے ہو چلا تھا ۔ ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی اور نذرانے کا ذکر تو تورات و انجیل کے علاوہ خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔ قربانی کا وجود کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی صورت میں ہر رسول اورنبی کے زمانہ میں ملتا ہے، اور شاید ہی کوئی قوم اور کوئی ملک ہو جہاں اس کا رواج کسی نہ کسی شکل میں نہ رہا ہو ، گو ہر عہد میں صورتیں بدلتی نظر آتی ہیں ۔ مگر اس کا رواج اب تک چلا آرہا ہے ۔


موجودہ قربانی جس کو ذی الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں ہم فرزندان توحید پیش کرتے ہیں ۔ جس کی تاریخ پھر بالکل قریب آگئی ہے ، پندرہ بیس دن کے بعد جس عبادت کو اہم ادا کریں گے ۔ یہ قربانی اس عظیم قربانی اور ذبح عظیم کی یاد گار ہے، جو آج سے پہلے اور بہت پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی تھی اور اللہ کے حکم پر اپنے اکلوتے فرزند لخت جگر اور نور نظر کے گلے پر چھری چلا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ اللہ کی محبت بیٹے کی محبت پر غالب ہے ۔ اللہ تعالٰی کو یہ ادا اتنی پسند آئی اور یہ قربانی اتنی بھائی کہ اسے قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دیا ۔


عید قرباں ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اور قابل تقلید قربانی کا یاد گاری دن ہے ،لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں نے اسے خون اور گوشت کا ایک تہوار بنا دیا ۔ اور قربانی کے مہینہ سے حج اور زیارت کعبہ کی جو اہم عبادت جڑی ہے، اسے ہم نے ایک رسمی عمل بنادیا گویا قربانی کی روح بھی ہم سے گئی اور حج اور زیارت کعبہ بھی ایک رسمی عمل رہ گیا، اس کی روح ختم ہوگئی ۔ رسم اتنی عام ہوگئی کہ دنیا کا سب سے بڑا اجتماع مکہ میں ہوتا ہے ۔ اور ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک بھی مسئلہ اس کے ذریعہ حل نہیں ہوتا ۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے مقرب بندوں میں تھے اور مقربین بارگاہ الہی کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ وہ نہیں ہوتا، جو عام انسانوں کے ساتھ ہے ،ان کو امتحان و آزمائش کی سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ،اور قدم قدم پر جانثاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ جلیل القدر نبی اور پیغمبر تھے، اس لئے ان کو بھی مختلف آزمائشوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا ،اور اپنی جلالت قدر اور شان و مرتبہ کے لحاظ سے ہر دفعہ امتحان و آزمائش میں کھرے نکلے اور کامل و مکمل ثابت ہوئے ۔ جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تو اس وقت صبر اور رضا بقضا ء الہی کا انہوں نے بھرپور ثبوت دیا اور جس عزم و استقلال اور استقامت و ہمت کو پیش کیا وہ انہی کا حصہ تھا ۔


بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوے تماشائے لب بام ابھی


اس کے بعد جب اسمعیل اور ہاجرہ کو فاران کے بیاباں میں چھوڑنے کا حکم ملا، تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا ،آزمائش اور سخت آزمائش کا وقت تھا ۔ بڑھاپے اور پیری کی تمناؤں کے مرکز راتوں اور دنوں کی دعاؤں کے ثمر اور گھر کے چشم و چراغ اسمعیل کو صرف حکم الہی کے تعمیل و امتثال میں ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑتے ہیں اور پیچھے پھر کر بھی نہیں دیکھتے کہ مبادا ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم الہی کی تعمیل اور امر الہی کے امتثال میں کوئی لغزش ہوجائے ۔ ان دونوں آزمائشوں اور کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب ایک تیسرے امتحان اور آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں سے بھی زیادہ زہرہ گذار اور جاں گسل امتحان ہے ۔ یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام تین شب مسلسل خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے ابراہیم! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کر ۔ یہ امتحان اور یہ واقعہ شفقت پدری اور سعادت اولاد کی تاریخ میں آج تک بے مثال بنا ہوا ہے ، نبی کا خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتا ہے اس لئے باپ نے اپنے اس بیٹے کے علاوہ کسی کو مشورہ کا اہل نہیں پایا ۔ جس کی جان کا معاملہ ،اس کے فیصلے پر منحصر ہے ۔ کتنا صاف اور واضح مکالمہ ہے :
*اے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو خدا کی راہ میں ذبح کر رہا ۔ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ بابا جان یہ کام آپ کو ضرور کرنا چاہیے کیونکہ خدا کا حکم ہے اس میں مشورہ کی کیا بات ہے ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔


خدا کے حکم کا سوال تھا اور خدا کی مرضی کا ،باپ نے ایک لمحہ کے لئے مشورہ کی ضرورت سمجھی ۔ لیکن بیٹے کو ایک لمحہ کے لئے بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی کہ اس نے امادگی میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ۔ سچ ہے کہ نہ ایک باپ کو رضائے الٰہی کے لئے اتنی بڑی آزمائش کبھی پیش آئی، نہ کسی لڑکے نے سعادت اور فرماں برداری کا ایسا مظاہرہ کبھی پیش کیا ۔
یہ فیضان نطر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
لیکن سعادت و ایثار اور قربانی و جانثاری کا یہ مظاہرہ بے مثال تھا تو اس سے زیادہ بخشش و انعام اور داد و دہش بھی اس دنیا میں کسے حاصل ہوسکی ،

یہ رتبئہ بلند ملا جن کو مل گیا


باپ اور بیٹا دونوں انسانی عظمت اور شرف کے اعلی مقام پر پہنچے اور اس کے سب سے بڑے ترجمان اور نمائندے تسلیم کر لئے گئے ۔ ایک نے ذبح عظیم کا خطاب حاصل کیا ،باپ نے بڑے فرماں بردار بندہ کے خطاب سے سرفرازی پائی ، ابراہیم علیہ السلام کی پوری نسل اور اسلام کے ماننے والے تمام لوگوں کو اس بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کا حکم ملا تاکہ رضائے خداوندی کے اس عظیم الشان مظاہرے کی اسپرٹ اور روح ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے ۔( مستفاد افکار و عزائم از جمیل مہدی)
لیکن افسوس کہ آج ہم قربانی تو کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شعار کو تو اپناتے ہیں ۔ لیکن ہماری یہ قربانی رسمی ہوتی ہے ۔ حقیقی قربانی نہیں، آج قربانی کا نام صرف جانور خردینا اور ذبح کرکے گوشت کھانا اور تقسیم کرنا رہ گیا ہے ۔ روح نکل گئی ۔ جسم باقی رہ گیا ۔ خدا کی حاکمیت کا تصور دل سے نکل گیا اور صرف رسم و نمائش اور رواج باقی رہ گیا ۔


ایک وہ تاریخ تھی ،ایک وہ واقعہ تھا ایک وہ قربانی تھی جسے دو افراد نے مل کر جنم دیا اور ساری دنیا میں اور سارے عالم میں سعادتوں اور برکتوں کی راہ کھول دی تھی اور ایک ہماری قربانی ہے اور ہمارا واقعہ ہے جو حج اور عید قرباں کے نام سے ہر سال پیش آتا ہے، اور پوری دنیا کے کے کروڑوں افراد پر مشتمل ایک عظیم الشان قوم نکبت و زوال اور انحطاط و تنزلی کے خوفناک چکر سے نہیں نکل پاتی ۔ ایک بے عمل قوم کا جو حال اور انجام ہونا چاہیے وہ ہو رہا ہے ۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اصل اور حقیقت سے منھ موڑ لیا ہے اور رسم و رواج اور نمائش کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔
ہماری نگاہیں کب کھلیں گی ؟۔ اور ہم کب قربانی کی روح اور اسپرٹ کو زندہ کرکے ایک زندہ اور قابل تقلید قوم کب بنیں گے؟ قربانی کے ایام اور قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے ذرا ہم سب اپنا محاسبہ کرلیں اور قربانی کی روح اور اسپرٹ ہمارے اندر کیسے پیدا ہو ذرا اس کے بارے میں بھی سوچ لیں ۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button