مضامین

ذرائع ابلاغ کی بے بسی ✍️محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ


تینوں زرعی قوانین کی واپسی کے بعد ذرائع ابلاغ بہت بے بس نظر آرہا ہے، سب سے زیادہ سُبکی ان قوانین کی واپسی سے پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈا کو اٹھانی پڑی ہے، وہ اینکر جو ٹی وی پر چیخ چیخ کر ان قوانین کی افادیت ، اہمیت اور ضرورت پرزمین وآسمان ایک کیے ہوئے تھے، وہ حاشیہ پر آگیے ہیں، ان اخبارات کے مالکان اور مدیران بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہیںجو کسان تحریک کے خلاف لکھنے میں ساری حد پار کر چکے تھے، سبکی تو وزیر اعظم کو بھی اٹھانی پڑی، کیوں کہ ان کی جملہ بازی ہار گئی اور انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم کسانوں کو سمجھانے میں ناکام رہے انہیں اس ناکامی کا خیال مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخاب کی وجہ سے آگیا ، ورنہ وزیر اعظم حسب سابق’’ من کی بات‘‘ کہتے رہتے اور کسان ٹھنڈ سے مرتے رہتے۔

اس سلسلے میں نیوز اینکر سو شانت سنہا اپنے دل کے درد کو روک نہیں سکے ، انہوں نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لوڈ کرکے بتایا کہ ہم ہیرو سے زیرو ہو گیے، انہوں نے وزیر اعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم لوگ جنہوں نے قانون پڑھا ، اسے سمجھا، اور انہیں لگا کہ چلو اب کسانوں کے لیے کچھ اچھا ہو رہا ہے،وہ نریندر مودی کے جھکنے کے ساتھ ہی ہار گیے، مودی جی کچھ کسانوںکو سمجھا نہیں پائے تو کچھ کے لیے انہوں نے سب کو قربان کر دیا، سوشانت سنہا اتنے ہی پر نہیں رکے، انہوں نے کہا کہ اگر کچھ کے حساب سے ہی چلنا ہے تو جموں اور کشمیر میں ۳۷۰؍بھی لے آئیے، وزیرا عظم کو ان لوگوں کو بھی جواب دینا چاہیے جو لوگوں کو قانون سمجھا رہے تھے۔

سوشانت سنہا نے کچھ غلط نہیں کہا ہے، لیکن اس واقعہ میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی عبرت کے لیے بہت کچھ ہے، جو وزیر اعظم کی ہر بات میںسُر سے سُر ملانے کے عادی رہے ہیں، یہ صحیح ہے کہ گودی میڈیا اس کام کے لیے حکومت سے بڑی رقم لیتا ہے، جس کے بدلے وہ حکومت کی قصیدہ خوانی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاتا ہے، بِکے ہوئے لوگ آقا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر پاتے اس زاویہ سے دیکھیں تو بکی ہوئی گردن اور جھکے ہوئے سر میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button