مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر محمد عطا حسین انصاری (ولادت یکم نومبر ۱۹۶۲ئ) بن عابد حسین انصاری بن منیر کا قلمی نام عطا عابدی ہے ، خاصے پڑھے لکھے ہیں، یعنی ایم اے اردو پی ایچ ڈی ہیں، ان کی شناخت اہل علم میں اچھے شاعر، بہترین نثر نگارعمدہ صحافی اور قابل قدر منتظم کی ہے، وہ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک ماہنامہ افکار ملی کے سب ایڈیٹر رہے اور اب بھی درجن بھر رسائل سے ان کی صحافتی وابستگی بر قرارہے،
ایک درجن ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں، آئینہ ٔ عقیدت ، عکس عقیدت ، بیاض، مطالعہ سے آگے، افکار عقیدت ، نوشت نوا، زندگی، زندگی اور زندگی، مناظر مذکر ومؤنث کے ، خوشبو خوشبو نظمیں اپنی، شعر اساس تنقید ، دریچے سے ، سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب چھپ کر مقبول ہو چکی ہیں، تین کتابیں خودان پر لکھی جاچکی ہیں، غیر مطبوعہ اور زیر ترتیب کتابوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، ’’بچوں کی کتابیں- تعارف وتذکرہ‘‘ بہار کے حوالہ سے ان کی تازہ ترین تصنیف ہے ، جو ادب اطفال سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑے کام کی چیز ہے، کتاب کا انتساب بڑا پیارا ہے، ’’ہمارے آپ کے بچپن کے نام ، ہمارے آپ کے بچوں کے نام‘‘، کتاب کے آغاز میں پانچ مضامین ادب اطفال کے حوالے سے شامل ہیں
یہ کتاب ؛دو لفظ، ادب اطفال؛ ایک تاثر، بچوں کی تربیت میں ادب کا وسیلہ ، انسانی اقدار اور نصابی ادب اطفال ، بچوں کی کتابیں: چند اور باتیں، معلوماتی، تحقیقی اور چشم کشا ہیں، اس کے بعد چھیانوے(۹۶) ایسے مصنف ، مؤلف اور مرتب کا تذکرہ کیا گیا ہے، جنہوں نے اطفال کے لیے کچھ بھی لکھا ہو، یہ مضامین مواد کی دستیابی کے اعتبار سے مفصل اور مجمل ہیں، ان میں بہت سارے غیر معروف ہیں اور بچوں کے لیے لکھی جانے والی ان کی کتابوں سے ہم پہلی بار متعارف ہوئے ہیں، در اصل متعارف، غیر متعارف ، معروف اور غیر معروف کا تعلق بڑی حد تک مطالعہ کرنے والے کی ذات سے ہوتا ہے ، وہ جن کو پہلے سے جانتا ہے اسے متعارف اور معروف سمجھتا ہے اور جن سے واقفیت پہلے سے نہیں تھی ، ان کو غیر معروف کی فہرست میں ڈال دیتا ہے
عطا عابدی صاحب نے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا ہے اور ایک جامع کتاب تصنیف کر ڈالی ہے ، اور اس کا مقصد ان کی اپنی تحریر میں یہ ہے کہ ان مضامین اور بچوں کی کتابوں کے تذکرے کے پس پردہ بچوں کے لیے لکھنے والوں اور تعلیمی تربیتی منصوبہ بنانے والوں کے سامنے صالح افکار واقدار کی بنیاد پر بچوںکے نشو ونما کے لیے ایک سمت ورفتار کی نشاندہی مقصود ہے ، کتابیں اپنے آپ میں اہم نہیں ہوتیں، کتابوں کو اہم بناتی ہیں وہ اہم باتیں جو ان کا حصہ ہوتی ہے‘‘(صفحہ ۱۱)
بچے خاندان کے پھول ہوتے ہیں، ان کا چُلبلا پن گھروں میں زندگی کی رمق دوڑاتا ہے، لیکن بچوں کی حرکات وسکنات کو بچپن پر محمول کرکے جس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی طرح بچوں پر لکھی گئی کتابیں نظر انداز ہوتی رہی ہیں، حالاں کہ ادب اطفال کے ذریعہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی جا سکتی ہے، اور اس کے ذریعہ بچوں کی ذہنی اٹھان اور دماغی تشکیل میں بڑی مدد مل سکتی ہے ، بلکہ ملتی رہی ہے، ایک زمانہ میں غنچہ، شگوفہ، نور وغیرہ بچوں کی توجہ کا مرکز رہا کیے ہیں
لیکن موبائل اور جدید دور میں ان رسائل سے بچوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہے تخلیق ہو رہا ہے ۔
عطا عابدی صاحب نے اس کتاب کے شروع میں ہی ہماری توجہ بہت ساری باتوں کی طرف مبذول کرائی ہے، جن کو ملحوظ رکھنا ادب اطفال میں ضروری ہے اور جن لوگوں نے ملحوظ نہیں رکھا، اس کے مضر اثرات کا ذکر بھی انہوں نے برملا کیا ہے،
عطا عابدی سنجیدہ قلم کار ہیں، اس لیے ان کے یہاں جار حانہ تنقید کے عناصر کم پائے جاتے ہیں، لیکن اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ وہ ادب میں مداہنت کو جائز سمجھتے ہیں، وہ باتیں ساری اپنی کہہ جاتے ہیں ، لیکن اسلوب اور لب ولہجہ میں ایسی پاکیزگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ’’گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہوا‘‘ پورے طور پر صادق آتا ہے ، یہ محاورہ کے طور پر استعمال ہو گیا ہے ورنہ صحیح یہ ہے کہ ادب میں کیا، حقیقی زندگی میں بھی کسی کو گالی دینا ان کے بس میں نہیں ہے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کتاب پر بعض مصلحتوں سے کچھ لکھنے سے وہ انکار کر دیں ، لیکن لکھیں گے تو پاکیزہ لکھیں گے ، اچھا لکھیں گے۔
اس کتاب میں عطا عابدی نے وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ذریعہ مفتی رشید احمد قاسمی کی مطبوعہ کتاب رحمانی قاعدہ کا بھی ذکر کیاہے اور پیش لفظ کا حوالہ دے کر میری عزت افزائی کی ہے ۔
عطا عابدی کی یہ کتاب ۲۰۲۲ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھی ہے، کمپوزنگ پٹنہ کے شفا کمپوزنگ کی ہے ، ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ڈھائی سو رکھی گئی ہے ، جو اردو کے قاری کے لیے زیادہ محسوس ہوتی ہے، یہ کتاب بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ دربھنگہ اور بیت العطا محلہ فقیر ا خان (اردو بازار) دربھنگہ سے مل سکتی ہے۔ عطا عابدی کی سخاوت سے بعید نہیںکہ آپ فون کریں اور شوق ظاہر کریں تو مفت ہی ہاتھ آجائے، کتاب قیمتاً ملے یا مفت، پڑھنے کی عادت ڈالیے ، اس لیے کہ یہی مصنف کی خدمت کا بہترین اعتراف ہے، اور اسی طرح ہم اردو کے قارئین کی تعداد کو بڑھا سکتے ہیں۔