مضامین

بند گلی سے آگے کی راہ ✍️طاہر ندوی

حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے اور بہت ہی واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ مسلم لڑکیوں نے اس فیصلے کو رد کردیا ہے اب بات سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی ہو رہی ہے۔ جہاں بھگوا دھاری کا لبادہ اوڑھے دیش کے مہان ججز ہوں گے۔ ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھانے کے لئے مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ کا بھوت اپنے اوپر سوار کرلیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مومن کو ایک ہی سانپ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مومن ایک ہی گڑھے میں دوبار نہیں گرتا لیکن پچھلے پچھتر سالوں سے مسلمانوں کی جو حالت رہی ہے وہ ‘ آ بھینس مجھے مار ‘ کے مرادف ہے جو کہ بہت افسوسناک ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان بے اعتمادی اور بے یقینی کا شکار ہیں جو قدم قدم پر غیروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں ‘

کبھی اِس کے در تو کبھی اُس کے در اور کبھی در بدر ہوتے نظر آئے ہیں’۔ جتنا ایمان و یقین ہم نے غیروں اور غیروں کے عدالتی قوانین پر لایا ہے کاش اتنا ایمان اور یقین اللہ پر اور اللہ کے قوانین پر لے آتے اور آزادی کے بعد سے ہی اپنے مستقبل کی فکر کرتے اور اس کے لئے کوششیں کرتے تو شاید آج مسلمانوں کی حالت وہ نہ ہوتی جو آج ہمارے سامنے ہے۔

پہلے بابری مسجد کے معاملے میں قوم کے کروڑوں روپے ضائع ہوئے جبکہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے زمانے میں مصالحت کی صورت یقینی ہو گئی تھی اگر قائدین قوم و ملت اس مصالحت کو قبول کرلیتے تو آج بابری مسجد کم از کم باقی رہتی لیکن اپنوں کی کچھ کرم فرمائیاں ایسی رہی کہ آج بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہو رہی ہے۔ اس کے بعد طلاق ثلاثہ کا معاملہ سامنے آیا اور یہاں بھی مسلکی اختلافات کا رنگ سر چڑھ کر بولنے لگا اور نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور بالآخر طلاق ثلاثہ پر پابندی لگا دی گئی۔ اب حجاب کا مسئلہ اٹھا اور اسے بھی لے کر کیرالہ ہائی کورٹ میں پہنچ گئے جبکہ کچھ نامور شخصیات کا کہنا یہ تھا کہ اس مسئلے کو کورٹ کچہری سے دور آپس میں ہی سلجھا لیا جائے جیسا کہ ظفر سریش والا اور ان جیسے بہت سے لوگوں نے یہ رائے دی تھی لیکن یہاں بھی مسلمانوں اور مسلم نمائندوں نے پھر سے اسی غلطی کو دہرایا جسے وہ بار بار دہراتے آئے ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

مسلمانوں کے پاس مسلم تنظیموں اور مسلم جماعتوں کی ایک بڑی فہرست ہے۔ کچھ قوم و ملت پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد بھی ہیں۔ کچھ سیاسی ہیں کچھ سماجی اور کچھ مذہبی شخصیات بھی ہیں۔ اب مسلمانوں کو آگے کی راہ ہموار کرنی ہے۔ اپنے مستقبل کی فکر کرنی ہے۔ آزادی کے بعد جس طرح جمعیت علمائے ہند نے پورے ملک میں مدارس اور مکاتب کا جال بچھایا آج شدید ضرورت ہے کہ اسلامک اسکول اور کالجز کھولے جائیں، علاج و معالجہ کے لئے ہسپتال کھولے جائیں، اعلیٰ تعلیم کے لئے تمام ریاستوں میں ایک ایک یونیورسٹی کھولی جائے جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں۔

مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ قوم کے سرمایہ کو بجائے عالیشان عمارات اور دفاتر قائم کرنے کے اسی سرمایہ کو جگہ جگہ اسلامی طرز پر اسکول اور کالجز بنانے میں صرف کریں۔ اہل مدارس کو چاہئے کہ اگر ان کے پاس خطیر رقم ہو اگر نہ بھی ہو تو اس کے لئے اہل ثروت حضرات سے رابطہ کریں اور ان کو اس جانب توجہ دلائیں کہ عصری علوم کے لئے اسکول و کالجز بھی ناگزیر ہیں۔ آج ہندوستان میں اور بالخصوص کرناٹک میں مسلم بچیوں کے ساتھ جو ہوا اور ہو رہا ہے کہ اگر تعلیم چاہئے تو مذہبی تشخصات سے دستبردار ہو جائیے ورنہ اپنے مذہب کو لے کر تعلیم سے دستبردار ہو جائیے اور دونوں ہی صورتوں میں نقصان لازمی ہے ایک مسلمان نا تو اپنے دین سے دستبردار ہو سکتا ہے اور نا ہی تعلیم سے کیوں کہ دین سے دور ہونے کے نتیجے نسلوں میں بے دینی پھیلے گی اور ارتداد پھیلے گا اور تعلیم سے دور ہونے کے نتیجے نسلوں میں جہالت اور غربت پھیلے گی۔ مسلمانوں کو اپنا دین بھی بچانا ہے اور اپنی نسل کو جہالت سے بھی بچانا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button