نیا سال اور اپنا محاسبہ
محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا۔ویشالی.
ماہ دسمبر ۲۰۲۱ء سب کو الوداع کہنے والا ہے۔اور جنوری ۲۰۲۲ء کی آمد آمد ہے۔ہر آدمی اپنے طور پر نئے سال کا استقبال نئےجوش و خروش، اور امنگ سے کرتا ہے۔حسب استطاعت اچھے سے اچھے کھانے کا انتظام وانصرام کرتا ہے۔خوشیاں مناتا ہے۔صاف ستھرے کپڑے استعمال کرتا ہے۔
بہت سے لوگ سیرو تفریح کے لئے تاریخی مقامات کی جانب رخ کرتے ہیں۔کھاتے پیتے ہیں پھر اپنے گھروں کو واپس آتے ہیں۔بہت سے کنبے کے لوگ چڑیا خانہ جاتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
نئے سال کی شروعات طرح طرح کی خرافات سے کی جاتی ہے۔
آتش بازی، سے فضا مکدر ہوجاتی ہے۔بعض گھر نذر آتش ہوجاتے ہیں۔پیسے کو پانی کی طرح بہایاجاتا ہے ۔معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ اسی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
نئے سال کی خوشی میں مسلم سماج بھی غیروں کی تقلید میں قدم سے قدم ملا کے چلنے کا عادی بن گیا ہے۔یہ قابل افسوس ہے۔پوری اسلامی تاریخ سال نو کے موقعہ پر جشن منانے،ایک دوسرے کو اس موقعہ پر مبارک باد دینے سے مسکت ہے ۔خاموش ہے۔
بہ حیثیت مسلمان،زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ہم شریعت کے پابند ہیں۔اسوۂ نبی صلعم پر چلنے کے مکلف ہیں۔ہماری خوشی،و غم،شرعی حدود سے تجاوز نہ کرنے پائے۔یہی ہماری زندگی کا عظیم مقصد ہے۔اور اسی میں اللہ کی خوشنودی پوشیدہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پاکیزہ محبت مخفی ہے۔
کوئی مسلمان ایک سنت پر عمل کرلے اس کے لئے یہ جشن منانے سے کم نہیں ہے۔ہم اسے اہمیت نہیں دیتے ہیں اور اپنی پیاری زندگی کو طرح طرحکی خرافات کا شکار بناتے ہیں۔اور اسی کو اپنی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔
نیا سال ہمیشہ آتا ہے اور ہمیشہ آئے گا۔جب تک شمس وقمر کے طلوع و غروب کا سلسلہ چلتارہےگا سال کی ابتداء و انتہا کا یہ کھیل جاری رہے گا۔اس کی ابتداء ہمیں نئے عزم لینے کی دعوت دیتی ہے جبکہ اختتام ماضی کی غلطیوں پر نادم ہونے کی۔
سال کا آنا اور جانا ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ہماری متعین عمر کم ہورہی ہے۔جوں جوں سال گذرتا جائے گا انسانی زندگی کم ہوتی جائے گی۔اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کی طرف سبقت کرنا چاہئے۔عبادت میں حتی المقدور منہمک ہونا چاہئے۔سنتوں کی پابندی،نوافل کی کثرت، سب کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ دل میں پیدا ہو۔اخلاقی بلندی،معاملے میں صفائی، راستی،دیانت داری،وغیرہ کا داعیہ پیدا ہونا چاہئے۔
سال کا اختتام ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو محاسبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔یہی محاسبہ انسان کو دونوں جہاں کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ کیا کھویا اور کیا پایا،زندگی میں ترقی ہوئی یا تنزلی،عبادت کا تناسب کیا رہا۔عبادت میں کمی ہوئی یا زیادتی۔یہ محاسبہ سے آئے گا۔
سال کے اختتام پر جو آدمی اپنے طرز زندگی کے محاسبہ کا عادی ہوگیا وہ کامیاب ہوگیا۔دنیاوی اعتبار سے بھی اور اخروی اعتبار سے بھی۔
ہمارا رویہ۔ہم ہر نیئےسال کا استقبال جوش وخروش سے کرتے ہیں ۔پسندیدہ چیز اس روز اختیار کرتے ہیں ۔عمدہ سے عمدہ دسترخوان سجاتے ہیں۔ایک دوسرے کو موبائل،کے ذریعے ،یاروبہ رو،مبارک باد دیتے ہیں۔بعض گھروں میں تحفے تحائف کا بھی رواج ہے اسے بھی نہیں بھولتے ہیں۔کھایا،پیا،خوشی منایا،پکنک پر گئے،سیرو تفریح کیا،بس زندگی کا مقصد حل ہو گیا۔جو لوگ ان خرافات سے اپنے کو ،اپنے کنبے کو الگ رکھتے ہیں انہیں گری نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔مطعون کیا جاتا ہے۔جملے کسے جاتے ہیں۔
جوں جوں سال گذرتا ہے انسان کی عمر گھٹتی ہے۔اس لئے خوشی منانے کے بجائے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور اسے اللہ و رسول صلعم کی پیروی میں نچھاور کرنے کی ضرورت ہے۔زندگی کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم زندگی کے شب وروز،مہ و سال، کو اللہ کی بندگی اور رسول صلعم کے طریقے پر ڈھالیں۔اسی میں ہماری کامیابی ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو ہر سانس کی قدر کرنے کی توفیق دے ہماری ہر سانس اللہ و رسول کی تابعداری میں نکلے۔ نیا سال ہمارے لئے خوش آئند ہو ۔رخصت ہونے والا سال ہمیں اپنا محاسبہ پر آمادہ کرے ۔آمین