مسلمانوں میں دور اندیشی کا فقدان
محمدامام الدین ندوی، مدرسہ حفظ القرآن منجیاویشالی
پنچایتی انتخابات مرحلہ وار اختتام پذیر ہو رہے ہیں۔اور دو دنوں بعد نتاٸج بھی آرہے ہیں۔کہیں خوشی تو کہیں غم کا ماحول ہے۔کسی کے گلے میں پھولوں کا مالا اور چہرے پر گلال کی سرخی نمودار ہے تو کسی کے چہرے کا رنگ اترا ہوا ہے ۔کسی کی آنکھوں میں جیت کی وجہ سے خوشی کے آنسو تیر رہے ہیں تو کسی کی آنکھیں ندامت وششرمندگی سے جھکی ہوٸی ہیں۔کسی خیمے میں شادیانے بج رہے ہیں تو دوسرے خیمے کی طنابیں زمیں بوس ہیں۔
الیکشن کااعلان آتے ہی امیدوار الیکشن لڑنے کا اظہار کرنا شروع کرتا ہے ۔ہر محلہ گلی شاہ راہ پر چند افراد بیٹھ کر اسی پر اظہار خیال کرتے ہیں۔وارڈ ممبر،مکھیا،پنچایت سمیتی،ضلع پارشد،پنچ وسرپنچ،کے عہدے کے لٸے لوگ بطور امیدوار اپنے کو پیش کرتے ہیں ۔اپنے چند حامیوں کو تیار کرتے ہیں اور اپنی تشہیر کرواتے ہیں۔ایک ہی عہدے پر لڑنے کے لٸے چند افراد کھڑے ہوتے ہیں۔نامینیشن سے لیکر ووٹنگ ہونے تک سارے امیدوار جیت رہے ہوتے ہیں ووٹ کی جب گنتی ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک امیدوار کے علاوہ سب کنارے لگ گٸے
الیکشن لڑنے کا رجحان مسلمانوں میں بھی بڑھا ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے۔پچھلے زمانے میں اور آج بھی ان کا کام کسی کو مسند پر بٹھانا اور کسی کو مسند سے اتارنے کا رہاہے۔اب یہ خود مسند نشیں ہونا چاہتے ہیں تو یہ خوش آٸند بات اور مستحسن قدم ہے۔
اس الیکش میں ہر جگہ دیکھا گیا کہ ایک ہی سیٹ پر کٸ لوگ کھڑے ہو گٸے۔نتیجہ یہ ہوا کہ سیٹ ہاتھ سے نکل گٸی۔کہیں ایسا بھی ہوا کہ ایک مسلان دوسرے مسلمان کو شکست دینے کے لٸے کھڑے ہوۓ اور ووٹ کا بندر بانٹ ہوا اور سیٹ ہاتھ سے چلی گٸ۔حیرت تب ہوٸی جب ایک فریق کی ناکامی پر دوسرا خوشی کا اظہار کیا۔کہیں پر غیروں کی دانش مندی کام کر گٸی ۔انہوں نے مسلمان کو شکست دینے کے لٸے کچھ پیسے دیکر دوسرے مسلمان کو کھڑا کردیا اور کہا کہ ہم تمہارا سپورٹ کریں گے تم کاماب ہوجاٶ گے یہ بیچارہ آٶ دیکھا نہ تاٶ کھڑا ہوگیا اور لاکھ کوشش کے باوجود بیٹھنے پر آمادہ نہ ہوا نتیجةً دونوں ہارگٸےاور وہ آپس میں لڑاکر کامیاب ہوگیا۔ایک وارڈ ممبر کے لٸے ١٥ /١٥ لوگ کھڑے ہوگٸے اور جیت درج نہ کراسکے کوٸی اور سیٹ لے گیا۔مسلمان ذاتی دشمنی کا بدلہ بھی الیکشن میں ہی لیتا ہے۔اگر ایک عہدے کےلٸے مشورہ کرکے لاٸق آدمی کو چن لے اور دشمنی رنجش گلے شکوے سب بالاۓ طاق رکھ کر ایک آدمی کا سپورٹ کرے تو اکثر عہدہ ان کی جھولی میں آسکتا ہے۔مگر اس قوم سے ایسی امید باندھنا فضول ہے ۔
اس الیکشن سے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کا فقدان ہے ۔اسےبات سمجھنے کی صلاحیت ہے ہی نہں۔وہ حالات کو نہیں بھانپتا ہے۔ہر فیصلہ یاتو جذبات میں لیتا ہے یا کام بگاڑنے کی نیت سے میدان میں آتاہے۔جس حلقے میں اکثر ووٹ ان کے ہیں وہاں کم ووٹ والے افراد چن کر آتے ہیں۔اور یہ ان کی غلامی کرتے ہیں۔اللہ انہیں دور اندیشی عطا فرماۓ ۔آمین