دھرم سنسد کی اشتعال انگیزی اور سیاسی پارٹیوں کی خاموشی! تحریر : جاوید اختر بھارتی
آجکل اخباروں اور سوشل میڈیا پر دھرم سنسد کا لفظ بہت آتا ہے آخر دھرم سنسد کا مطلب کیا ہے دھرم تو مذہب ہوگیا اور سنسد کا مطلب پارلیمنٹ تو کیا آجکل جو دھرم سنسد کا انعقاد ہورہاہے اور اس میں اقلیتوں کے خلاف جو اشتعال انگیزی کی جارہی ہے تو اس پروگرام کو مذہبی پارلیمنٹ کہا جائے گا اگر ہاں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کا آئین ایسے اشتعال انگیز پروگرام کی اجازت دیتا ہے کہ کسی کے جذبات کو بھڑکایا جائے اور ملک کا ماحول زہر آلود بنایا جائے ،، اگر نہیں تو پھر اس پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی ؟ ملک کا آئین مذہبی آزادی دیتا ہے اور اظہار رائے کی بھی اجازت دیتا ہے، مذہب کی ترویج و اشاعت کی بھی اجازت دیتا ہے، عبادت گاہوں کی تعمیر کی بھی اجازت دیتا ہے اور سیاسی و سماجی، دینی و دنیاوی جلسہ وجلوس کی بھی اجازت دیتا ہے مگر کسی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ہے، کسی مذہبی پیشوا اور مذہبی کتابوں کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ہے اور آئین جس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے تو وہ بات اور وہ چیز اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوسکتی اور جس بات کی آئین اجازت نہ دے تو وہ کام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی بھی ہونی چاہئے تاکہ آئین کی بالادستی قائم رہے اور ملک میں پوری طرح امن و امان برقرار رہے بھائی چارگی کا ماحول قائم رہے
مگر افسوس کہ ادھر کئی ماہ سے مسلسل اقلیتوں اور باالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ جاری ہے نرسنگھا نند جیسے بدنام زمانہ کی زبان سے نفرت کے شعلے نکلتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہورہے ہیں اور مسلمانوں نے کبھی بھی جواب دینے کی کوشش نہیں کی ہے کیونکہ مسلمان اس ملک سے اور ملک کے آئین سے بے پناہ محبت کرتا ہے اس ملک کی مٹی اور ذرے ذرے سے محبت کرتا ہے اس ملک کی مٹی میں ہمارے آباؤ و اجداد کی ہڈیاں دفن ہیں، ملک کی آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی بے شمار قربانیاں شامل ہیں مسلمانوں کے مدارس صرف اسلام کے ہی قلعے نہیں ہیں بلکہ ملک کے تحفظ کے لئے بھی قلعے ہیں انہیں مدارس میں انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی اور تحریک آزادی کا لائحہ عمل مرتب کیا جاتا تھا اور آج بھی ان مدارس میں وطن سے محبت کرنا ایمان کا ایک حصہ بتایا جاتاہے اور یہی تعلیم دی جاتی ہے-
آج مٹھی بھر فرقہ پرست ملک میں خانہ جنگی کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں، بھائی چارگی کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور رنگ برنگے لباس میں ملبوس ہو کر خود کو مذہبی رہنما کہلواتے ہیں جبکہ کوئی بھی مذہب بغض و حسد کی آگ بھڑکا نے کی تعلیم و تربیت اور اجازت نہیں دیتا ہے ہر مذہبی رہنما کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے مگر کسی دوسرے مذہب کی توہین کرنے کا اسے قطعی حق حاصل نہیں ہے اور وہ ایک اچھا انسان بھی نہیں ہوسکتا جو دوسروں کے مذہب کی توہین کرے تو جو ایک اچھا انسان نہیں ہوسکتا ہے تو وہ مذہبی رہنما کیسے ہوسکتا ہے اسی لئے مذہب اسلام نے انسانیت کے فروغ پر زور دیا ہے –
- سکشمتا – 2 کا رزلٹ ڈاؤن لوڈ کریں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
یہاں ایک بات اور بیحد تشویشناک یہ ہے کہ ایک طرف فرقہ پرست دھرم سنسد کا نام دے کر اشتعال انگیزی کررہے ہیں تو دوسری طرف اپنے کو سیکولر کہنے والی سیاسی پارٹیاں خاموش کیوں ہیں؟ ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے تو ملک کی اقلیتوں کو ڈرانے و دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی ہے تو یہ سیکولر سیاسی پارٹیاں ان فرقہ پرستوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے میدان میں کیوں نہیں آتی ہیں آخر کس بنیاد پر اپنے کو سیکولر کہتی ہیں اور کہلواتی ہیں جبکہ چند شرپسند عناصر جمہوریت کی دھجیاں اڑارہے ہیں اور یہ سیاسی پارٹیاں اپنی زبان پر تالا لگائے ہوئے ہیں ایسے نازک اور خطرناک موقع پر خاموشی اختیار کرنا بھی ظالم کی حمایت کرنے کے مترادف ہے،، اترپردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں کیا ایسے حالات میں خاموش رہ کر سیاسی پارٹیاں اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرسکتی ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے جب مسلمان سوال کرے گا تو ان کے پاس کیا جواب ہوگا ؟
حکومت کو بھی اشتعال انگیزی کے خلاف قدم اٹھانا ہوگا اور میڈیا کو بھی سچائی کا دامن تھامنا ہوگا تاکہ فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں اور ملک میں خوشگوار فضا قائم رہ سکے اور ہر شخص اپنے آپ کو محفوظ سمجھے –
نرسنگھا نند جیسے نفرتی انسان کی زبان پر لگام نہیں لگائی گئی تو یہ لوگ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیں گے وہ لوگ دھرم سنسد کا نام دیکر بغض و حسد اور نفرت پر مبنی تقاریب کا انعقاد کرکے جمہوریت کی بھی توہین کررہے ہیں اور آئین کی بھی توہین کررہے ہیں اور یہ ہمیں اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے اور حکومت کو بھی واضح طور پر ایسا قدم اٹھانا چاہئیے کہ یہ سب کو یقین ہوجائے کہ چاہے کوئی کتنا ہی اڑیل، پاور فل اور بڑا کیوں نہ ہو لیکن وہ آئین سے بڑا نہیں ہے،، جو شخص بھی آئین کے خلاف چلے گا اور آئین کی توہین کرے گا تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا-
سیاسی پارٹیوں کی خاموشی سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ جو ہورہاہے وہ ہوتا رہے تو مسلمان ہمیں ووٹ دے گا کیونکہ مسلمان جانتا ہے کہ مرکزی و صوبائی حکومت بی جے پی کی ہے تو دھرم سنسد پر روک لگانا اور اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا بی جے پی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب بی جے پی حکومت اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اشتعال انگیزی کرنے والوں کو یہ احساس ہے کہ ہمارے خلاف کارروائی نہیں ہوگی،، تو ایسی صورت میں مسلمان آخر ووٹ تو ہمیں کو دے گا کیونکہ ہم تو اقتدار میں ہیں نہیں،، اس لئے زبان بند رکھنا ہی بہتر ہے تاکہ دونوں ہاتھوں میں لڈو رہے-