اہم خبریںمضامین

تعلیمات نبوی ﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت… قسط (8)




اگر مورخین اور سماجی مفکرین انسانی اصلاح و تعمیر کی تاریخ کا اس طرح جائزہ لیں کہ کن عالمی ہستیوں نے اپنے فکر و عمل سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہے اور بڑے انسانی معاشروں اور تاریخ کے طویل فاصلوں پر اثر انداز ہوئی ہیں اور تہذیب انسانی کی تاریخ میں انقلابی و تعمیری افکار و اقدار اور شرافت و اخلاق کے اعلیٰ معیار عطا کئے ہیں تو دی ہنڈیریڈ کے مصنف مائکل ہارٹ کی طرح وہ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ صاحب جوامع الکلم اور علم شرع و نفسیات کے ماہر ۔۔۔۔۔۔۔


نبی کریم ﷺ نے اپنے اقوال زریں، اپنے کردار اور اخلاق حسنہ کے ذریعہ تاریخ انسانیت میں انسانوں کے سب سے بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے اور ان کی سنت و سیرت اور کردار و گفتار نے اقوام و ملل کی سب سے بڑی تعداد کو اپنے حلقہ اثر میں لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور حیات مبارکہ نیز آپ کی تعلیمات کا تاریخی و معاشرتی مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ان جامع تعلیمات نے ایک بدوی کلچر اور جاہلی معاشرے کو دنیا کی مہذب و شریف، بااخلاق و باکردار قوم اور فکر و عمل کی اعلی ترین صلاحیتوں کی حامل امت بنا دیا اور مثالی اقدار و معیار کو متعارف کرکے تعمیر زندگی، فلاح انسانیت، کردار سازی و آدم گری کا کیسا شریفانہ انسانی و اخلاقی کرشمہ و کارنامہ انجام دیا، جس کا پیغام ابدی و سرمدی ہے اور جو قیامت تک اخلاق و انسانیت کے جویاوں اور طلب گاروں کو فیضان و وجدان عطا کرتا رہے گا۔۔


دور نبوی ﷺ میں بعض ایسے حیرت انگیز اور محیر العقول واقعات پیش آئے کہ تاریخ انسانی میں اس طرح کے تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات اور اس طرح کے نمونے نہیں ملتے ہیں۔۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت، فراست اور دور اندیشی نے بظاہر ناممکن کو ممکن ثابت کردیا۔ (ملخص و مستفاد سہ ماہی کاروان ادب شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۴)
آنحضرتﷺ کی تعلیمات میں نفسیاتی اظہار اور انسانی فطرت شناسی کا جوہر ہر جگہ چمکتا دمکتا نظر آتا ہے، کلام رسول ﷺ میں عجیب و غریب تاثیر تھی، یہ تاثیر اس لیے بھی تھی کہ انسانی فطرت کے تاروں کو لفظوں کی مضراب سے اس طرح چھیڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے بہجت و مسرت کے نغمے ابلنے لگتے ہیں،، بخاری شریف کی روایت ہے کہ قبیلہ ہوازن سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی، جنگ میں جو تباہیاں اور بربادیاں دونوں طرف آتی ہیں، وہ آئیں، مسلمانوں نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کرکے جنگ جیت لی، مال غنیمت ہاتھ آیا، بہت سے غلام اور کنیزیں مجاہدین کے حصہ میں آئیں اور یہ سب کچھ مجاہدین میں شرعی قانون کے مطابق تقسیم کرکے ان کو مالک بنا دیا گیا اور وہ ان کے جائز مالک ہوگئے،(یاد رہے کہ اس موقع پر آپ نے تقسیم غنیمت میں جان بوجھ کر تاخیر کی، حکمت اور مصلحت یہ تھی ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ کی خدمت میں آجائے اور اس نے جو کھویا ہے، سب لے جائے لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ کے پاس کوئی نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی تقسیم شروع کردی) ۔۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد قبیلہ ہوازن میں ایک ذہنی انقلاب پیدا ہوتا ہے، پورا قبیلہ از خود دائرہ اسلام میں آجاتا ہے، وہ مسلمان ہوکر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ ہمارا مال اور ہمارے قیدی واپس ہوجائیں تو عنایت ہوگی ، مگر ان کی درخواست کی منظوری میں دقت اور دشواری یہ تھی کہ سارا مال لونڈیاں اور غلام تقسیم ہوچکے تھے اور مجاہدین اور مسلمان فوجی اس کے قانونی اور شرعی مالک ہوچکے تھے، ان سے واپس لینے کا کوئی حق نہیں تھا، اور وہ واپس کرنے پر مجبور بھی نہیں کیے جاسکتے تھے، مسئلہ بہت نازک تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن والوں سے فرمایا کہ دونوں میں سے کسی ایک کا مطالبہ کرو تو بات کی جائے، قبیلہ ہوازن کے وفد نے کہا ،،نحن نختار سبینا،، ہم کو ہمارے قیدی دلا دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان مجاہدین کو مسجد میں جمع کیا اور فرمایا،،


اخوانکم جاءوا تائبین و انی قد رائیت ان ارد الیھم سبیھم فمن منکم احب ان یطیب ذالک فلیفعل، ومن احب منکم ان یکون علی حظہ حتی نعطیہ من اول ما یفئی اللہ علینا فلیفعل،، تمہارے بھائی مسلمان ہوکر آئے ہیں، میرا خیال ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کردوں، تم میں سے جو بخوشی منظور کرے وہ واپس کردے اور جو اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہتا ہے یہاں تک کہ بیت المال کی پہلی آمدنی سے اس کا حصہ دیدوں وہ بھی واپس کردے۔
ابھی ابھی قبیلہ ہوازن سے جنگ ہوئی ہے، دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، مسلمانوں نے جان لڑا کر جیت اور فتح حاصل کی ہے، پھر ایسے دشمنوں کے لیے سب سے پہلا جملہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا اخوانکم جاءوا تائیبین ۔ تمھارے بھائی مسلمان ہوکر آئے ہیں گویا عداوت و دشمنی اور نفرت و غصہ کے دہکتے انگاروں پر برف کی سل رکھ دی، ایک بھائی میں عداوت و محبت دونوں جمع نہیں ہوسکتی، نفرت سے تپتے دلوں پر محبت کی شبنم پڑنے لگی، گرم آب و ہوا میں یک بیک خنکی پیدا ہونے لگی، آپ اس پر بھی نظر رکھیں کہ حضورﷺ نے ان کو قیدیوں کو واپس کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیا کیونکہ وہ ان کے جائز مالک تھے، مگر پھر بھی پورے مجمع میں شور مچ گیا کہ ہم سب قیدیوں کو بخوشی واپس کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح نہیں ، ہوسکتا ہے کہ وقتی جوش میں یہ بات کہہ دی گئی ہو یا اس شور میں ان لوگوں کی آواز دب گئی ہو جو اپنے قیدیوں کو واپس نہیں کرنا چاہتے، اس لیے سب لوگ واپس جائیں اور ہر حلقہ کا نمائندہ فرداً فرداً ہر شخص سے پوچھ کر مجھے مطلع کریں کہ کون اس پر بخوشی راضی ہے، اور کون نہیں؟ چنانچہ نمائندوں نے پوری تحقیق کے بعد در بار نبوت میں اطلاع دی کہ بلا استثناء ہر شخص برضا و خوشی قیدیوں کو واپس کرنے کے لیے تیار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند جملوں نے ان کے ذہن و فکر میں انقلاب پیدا کردیا، عام حالات میں ایک بھی قیدی کی واپسی دشوار تھی، لیکن ان جملوں کے بعد ایک شخص اور ایک متنفس ایسا نہیں رہا جس نے اپنی خوشی بلکہ پوری بشاشت سے اپنے قیدی کو واپس نہ کردیا ہو یہ کلام رسول ص- کی معجز نمائی تھی، انسانی فطرت شناسی کی تاثیر تھی، چونکہ لفظوں کا انتخاب جملوں کی ترتیب طرز ادا زبان و بیان عوامی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر اختیار کیا گیا تھا، اس لیے بات دلوں میں اتر گئی، پہلے کنیز اور غلام پاکر جو دل خوشیوں سے معمور تھا، اب انہیں واپس کرکے ایک دوسری خوشی سے بھر گیا۔۔ (سہ ماہی کاروان ادب شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۴ء) ……….
نوٹ باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ کریں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button