محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن، منجیا ، ویشالی
میں رمضان ہوں ۔چند گھنٹوں کا مہمان ہوں۔میں پابہ رکاب ہوں۔میرا تیس (۳۰)دنوں کا سفر مکمل ہونے کو ہے۔اللہ جانےآئندہ سال تم سے ملاقات ہو یا نہ ہو۔
میں سال کا انوکھا مہینہ ہوں۔اللہ نے ہر طرح کے خیر سے مجھے گھیردیاہے اور بحر دیا ہے۔اتنا خیر میری دوسری بہنوں کو میسر نہیں ہوا۔اللہ نے روزہ جیسی عظیم عبادت سے مجھے نوازہ۔جس میں بندہ اپنے کو بھوک،وپیاس،اور جائز نفسانی خواہشات سے درمیان روزہ اپنے کو بچاتا ہے۔زبان سے صادر ہونےوالی ہرقسم کی برائیوں سےاپنی زبان کو روکتا ہے۔اپنے اعضاء کی حفاظت کرتا ہے۔
میری آمد نیکیوں کی بہار ہے۔لوگ کثرت سے نیکی کرتے ہیں۔نیکیوں کےثواب میں اللہ اضافہ کرتاہے۔نوافل کا بدلہ فرض کے برابر،فرض کابدلہ ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔لوگ کثرت سے ذکرواذکار، کرتے ہیں
تسبیحات کی پابندی کرتے ہیں۔درود کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔میں اس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہوں کہ نزول قرآن کے لئے اللہ نے میرا ہی انتخاب کیا۔لوگ کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔میرے آتے ہی جنت ہر روز سجتی ہے۔سرکش شیاطین بند کردیئے جاتے ہیں۔میں رحمت ومغفرت اور جہنم سے خلاصی کا باعث ہوں۔بھوکے رہنے کی وجہ سے بندے کے خالی پیث کی بدبو مشک سے بھی بہتر ہے۔شام میں غروب آفتاب کے وقت لوگ اپنے دستر خوان پر بیٹھتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں۔مغرب کی اذان کا بے بڑی سےانتظار کرتے ہیں۔اذان سنتے ہی اللہ کی دی ہوئی پاکیزہ نعمتوں سے افطار کرتے ہیں۔یہ سماں صرف میری وجہ سے ہے۔ورنہ غروب آفتاب تو ہردن ہوتاہے۔
میری آمد نماز تراویح کو لاتی ہے۔نماز تراویح صرف میری خصوصیت ہے۔بندہ قرآن کی تلاوت سنتاہے اور بیس رکعت نماز اضافی اداکرتاہے۔میرے رخصت ہوتے ہی یہ اضافی نماز موقوف ہوجاتی ہے۔میں اعتکاف کبھی باعث ہوں۔بندہ دس روز اپنے مالک حقیقی کا دربان بنا گوشۂ مسجد میں مقید ہوتا ہے۔دوران اعتکاف صرف اپنے رب سے رازو نیاز کی باتیں کرتاہے۔اپنے کو کبھ تلاوت قرآن میں،کبھی ذکرواذکار میں تو کبھی نوافل میں مشغول رکھتاہے۔کبھی لمبی دعاؤں میں رب کے حضور گریہ وزاری کرتا ہے۔اس پر اللہ اسے مزید انعام سے نوازتا ہے۔
اللہ تعالٰی نے شب قدر سے میرے دامن کوبھردیاہے۔شب قدر پانچ(۵)بنائی ہے۔یہ آخری عشرے کی پانچ طاق راتیں ہیں۔اور ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس میں شب بیداری قرب خداوندی کا بہتر ذریعہ ہے۔ان راتوں میں بیدار رہنا،اور اپنے کو مختلف عبادتوں میں مشغول رکھنا بڑے ثواب اور نجات کا باعث ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی بھی میرے ہی وجود سے وابستہ ہے۔اس سے محتاجوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔لوگ ثواب میں اضافے کی امید میں اپنے مال کی زکوت بھی ادا کرتے ہیں۔
میرے آنے سے لوگ لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرتے ہیں۔صبر کے دامن کو تھامتے ہیں۔ایک دوسرے سے ہمدردی بڑھاتے ہیں۔آپس میں ایک دوسرے کی ضیافت کرتے ہیں۔غریبوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
دیکھو اب میں چلنے کوتیار ہوں۔میرے جانے پر حسرت وافسوس مت کرنا۔میں دوبارہ آؤں گا۔البتہ تم ملو یا نہ ملو۔میں تمہارے درمیان لمبے دنوں تک ٹھرارہا۔تم نے میری قدر اور عزت کس قدر کی۔میرے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہا۔مذکورہ تمام صفتوں کے ساتھ تم نے مجھے گلے لگایا تب تو بہتر ورنہ تمہیں افسوس کرنا چاہئے۔
افسوس اس پر کرناچاہئے کہ تم تلاوت کے پابند بنے کہ نہیں۔اللہ سے رشتہ مضبوط ہوا کہ نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جذبہ پیدا ہوا کہ نہیں۔نماز زندگی میں آئی کہ نہیں۔لڑائی جھگڑے،عداوت،دشمنی،بغض،حسد جلن،جھوٹ،چغلی،غیبت،دوسروں کی عیب جوئی،بہتان تراشی،زنگی سے نکلی یانہیں۔معاملات میں صفائی اور صاف گوئی پیدا ہوئی کہ نہیں۔افسوس اس بات پر ہونا چاہئے کہ مجھ سے وابستگی کے باوجود بھی انسانیت آئی یا نہیں۔زندگی کامقصد کیاہے اس باب میں فکر ہوئی کہ نہیں۔
دیکھو میں تو جانے کو چلاجاؤں گا پر اپنی فکر کرنا۔اپنے رب کو راضی کرنا۔آخرت کو سنوارنا اور سجانا۔اپنے نفس کی غلامی قبول کرنے کی بجائے رب کی غلامی قبول کرنا۔اپنے آخری نبی کی سیرت وصورت اختیار کرنا۔دوست ودشمن سب کے لئے نفع بخش ثابت ہونا۔
دیکھو زندگی کا چراغ کب،کہاں،کیسے،گل ہو جائے پتہ نہیں پر اپنی زندگی کو اللہ کی بندگی اور رسول کے طریقے پر گزارنا۔اپنے پرائے سب کے لئے دروزۂ دل صاف اور کھلا رکھنا۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاص خیال رکھنا۔
دیکھو میرا اور تمہارا ساتھ لمبے دنوں تک رہا۔اس میں بھی اچھی خصلت پیدا نہ ہوئی تو بہت افسوس کی بات ہے۔
دیکھو ہر روز اپنا محاسبہ کرتے رہنا۔گناہوں پر ندامت کے آنسو بہانہ۔ہر حال میں اپنے رب کو خوش رکھنا۔
مجھے اس وقت بہت خوشی ہوگی جب تم اپنے رب کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئےجنت میں بنے باب ریان سے داخل ہونا۔
میری دعاء ہے کہ اللہ تمہیں نیکی کی توفیق دے برائی سے بچنے کی توفیق دے۔کبر وغرور سے دل کو صاف کردے۔آمین۔