اتر پردیش : سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اعظم خان جمعہ 20 مئی کو جیل سے رہا ہوئے۔ رام پور میں ان کے گھر پہنچنے کے بعد ہی میڈیا نے ان سے بڑا سوال کیا۔ گیانواپی مسجد کے مسئلہ پر اعظم خان نے میڈیا کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے گیانواپی کیس میں اپنی رائے دی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ بابری مسجد سے تھوڑا مختلف ہے کیونکہ اس کی سماعت گزشتہ 2-3 ہفتوں سے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے اس معاملے پر اس وقت کچھ بھی کہنا غلط ہوگا اور اس سے ملک کا ماحول خراب ہوگا ۔
تباہی میں اپنے پیاروں کے ہاتھ
اعظم خان نے کچھ اور کہا، جب ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن کے لیڈروں میں ان کا نام کیوں نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ اس سے بھی بڑے لیڈر ہیں۔ اعظم خان نے کہا۔
"میری تباہیوں میں میرا اپنا ہاتھ ہے، میرے اپنے لوگوں کا بڑا حصہ ہے۔ اتنا کورونا تھا تب بھی نہیں مرا۔ میرے اپنوں نے بہت کوشش کی۔ میں اب بھی زندہ ہوں.”
سمجھا جا رہا ہے کہ یہ اعظم خان کا سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کی طرف اشارہ تھا۔ انہوں نے اپنے گھر پر حامیوں سے بھی خطاب کیا۔ 73 سالہ اعظم خان نے کہا کہ ان کے خاندان پر جو بھی ظلم ہوا وہ اسے نہیں بھول سکتے۔
انہوں نے اقلیتوں کے خلاف حملوں پر بھی حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو جو سزا مل رہی ہے وہ ان کے حق رائے دہی پر مل رہی ہے۔
دوسرے کیس میں بھی بری ہوں گے – اکھیلیش
اکھلیش یادو رہائی کے بعد اعظم خان سے ملنے نہیں گئے۔ حالانکہ ایس پی صدر نے ٹویٹ کرکے کہا
ایس پی کے سینئر لیڈر اور ایم ایل اے جناب اعظم خان جی کی ضمانت پر رہائی پر ان کا پرتپاک استقبال۔ ضمانت کے اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے انصاف کو نیا معیار دے دیا ہے۔ پوری امید ہے کہ وہ باقی تمام جھوٹے مقدمات اور مقدمات سے بری ہو جائیں گے ۔ جھوٹ کے لمحات ہوتے ہیں، صدیاں نہیں!
اعظم خان کو 27 ماہ بعد جیل سے رہا کیا گیا۔
وہ 2019 سے سیتا پور جیل میں بند تھے ۔ پرگتی شیل سماج پارٹی کے صدر شیو پال یادو اعظم خان کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور ادیب اعظم کو لینے سیتا پور جیل پہنچے تھے۔ اعظم خان کو سپریم کورٹ نے 19 مئی کو عبوری ضمانت دی تھی۔ اعظم کے رہائی کے آرڈر کی مصدقہ کاپی جمعرات کی شام 5.30 بجے تک جیل نہیں پہنچ سکی اس لیے انہیں جمعرات کو رہا نہیں کیا جا سکا۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
اعظم خان کو جمعرات 19 مئی کو سپریم کورٹ نے عبوری ضمانت دی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اعظم خان کی ضمانت کی شرائط کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ عام ضمانت کے لیے اعظم کو دو ہفتوں کے اندر ٹرائل کورٹ میں درخواست دینا ہوگی۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک ٹرائل کورٹ باقاعدہ ضمانت کے بارے میں فیصلہ نہیں دیتی۔
اعظم خان کو اب تک 88 مقدمات میں ٹرائل کورٹ سے ضمانت مل چکی تھی تاہم 89 ویں کیس میں ضمانت کے لیے ٹرائل شروع ہونا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے اپنی آئینی طاقت یعنی آرٹیکل 142 کا استعمال کرتے ہوئے انہیں عبوری ضمانت دے دی۔