ریختہ ڈاٹ کام

مٹی کا دِیا                      

( افسانہ) 🖊 ظفر امام

  ”تجھےکتنی بار کہا ہے ماں کہ اس بدنما دِیے کو یہاں میرے کمرے میں مت رکھا کرو،اس کی وجہ سے کمرے کی اچھی خاصی خوبصورتی میں کمی آجاتی ہے،ہزاروں کی کی ہوئی ڈیکوریشن بد رنگ ہوجاتی ہے اور تم ہو کہ میری بات پر کان دھرتی ہی نہیں“وکیل جمال نے جھلاتے ہوئے کہا اور قبل اس کے کہ اس کی بوڑھی ماں رضیہ اسے کچھ کہہ پاتی اس نے مٹی کے اس بوسیدہ دِیے کو اپنے کمرے کی کارنس سے اٹھا کر ڈسٹ بین میں لے جا کر پھینک دیا۔
     اس کی بوڑھی ماں جو اپنے کمرے میں بیٹھی تھی،اٹھی، آہستہ آہستہ ڈسٹ بین تک پہونچی اور مٹی کے اس دیے کو اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے اٹھا کر پہلے اسے اپنی ساڑی کے پلو سے صاف کیا اور پھر بڑے قرینے سے اسے اپنے کمرے میں لاکر رکھ دیا۔
   

مٹی کے اس دیے کے ساتھ رضیہ کا کافی پرانا تعلق تھا، اس کی بہت ساری تلخ و شیریں یادیں اس دیےکے ساتھ جڑی تھیں،وہ ہمیشہ اسے سنبھال کر رکھا کرتی،وہ اسے اپنے کمرے میں بھی رکھ سکتی تھی،مگر وہ اسے اپنے کمرے میں نہ رکھ کر اپنے بیٹے کے کمرے میں اس لئے رکھاکرتی تھی تاکہ  اس کا بیٹا ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ساتھ نبھانے والے محسنوں کو خوشحالی کی زندگی میں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
    

مگر مفاد پرستی کی چادر میں مستور اس کے بیٹے نے آج  جب شکرمندی کی تمام حدیں پھلانگ کر  اسے اٹھا کر ڈسٹ بین میں لے جا ڈالا تو رضیہ کے دل میں ہوک کی ایک لہر سی دوڑ پڑی جس نے اس کی آنکھوں کے کٹوروں میں آنسوؤں کا دھندلکا حائل کردیا،آنسوؤں کے اس دھندلکے میں اسے ماضی کا عکس تیرتا دکھائی دینے لگا،یادیں اسے دور بہت دور ماضی میں لے گئیں،اسے شدت سے وہ دن یاد آنے لگا جب وہ دلہن بن کر اس گھر میں آئی تھی،گھاس پھوس سے بنے اس گھر کے حجلۂ عروسی میں اسی دیے کی زرد پیلی روشنی جھلملا رہی تھی،وہ شب عروسی کے پہناوے میں گھونگھٹ تانے اپنے شریکِ حیات کے دیدار کے لئے انتظار کی گھڑیاں گن رہی تھیں کہ کافی وقت بیت جانے کے بعد دو مردانے ہاتھ نے آکر اس کے گھونگھٹ کو اٹھایا تھا اور اس نے اسی مٹی کے دئے کی روشنی میں پہلی بار اسے دیکھا تھا۔
  

جس گھرانے میں اس کی شادی ہوئی تھی وہ گھرانہ معاشرے میں متوسط طبقے کا مانا جاتا تھا،سماج میں بلند اقدار حاصل کرنے کا جو معیار قائم تھا وہ گھرانہ اس سے عاری تھا، اس کا شوہر ایک چھوٹے سے کارخانے میں معمولی سا کلرک تھا،اس کی تنخواہ واجبی سی تھی کہ بس کسی طرح دن گزر جایا کرتے تھے،ہر دن کی کمائی پیٹ کی نذر ہوجاتی تھی،کھا پی کر اتنا بھی بچ نہیں پاتا تھا کہ گھر میں بجلی کی فراہمی ہوجائے تب مٹی کا یہی دیا اندھیری راتوں میں اس کے گھر کو اجالے رکھتا تھا۔
      

شادی کے دو سال مکمل ہونے پر رضیہ کی کوکھ نے جمال کو جنم دیا،اس وقت رضیہ کا شوہر کارخانے میں بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا،جب اس کے کانوں نے بیٹے کی پیدائش کی نوید سنی تو وہ خوشی سے ناچنے لگا،اسے یوں لگنے لگا جیسے اب کلفتوں کے سائے چھٹ جائیں گے اور راحتوں کے در کھل جائیں گے،وہ تصوروں میں خود کو اس دنیا کا سب سے امیرترین آدمی سمجھنے لگا تھا،جیسے اسے بیٹا نہ مل کر ہفت اقلیم کی سلطنت مل گئی ہو،اس نے جلدی سے اپنے مالک سے چھٹی لی اور تصورات کا ایک جہاں اپنے دماغ میں بسائے گھر کے لئے چل کھڑا ہوا،وہ گرد و پیش سے بے خبر اپنے تصورات کی دنیا میں مگن پختہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک اوور لوڈ ٹرک نے اسے اس زور سے دھکا مارا کہ وہ اوندھے منہ وہیں پرگرپڑا،اور جب اسے ہوش آیا تو وہ اس وقت ہسپتال میں پڑا تھا،اس کے تصوراتی نشیمن پر بجلیاں گر چکی تھیں،اس کا سر پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا،اس کے دونوں پاؤں گھٹنوں سے کاٹے جا چکے تھے اور اس کے چہرے پر ڈراؤنی خراشیں لگی ہوئی تھیں،وہ اب اپنی اس بے بسی پر سوائے چیخنے اور چلانے کے کیا کر سکتا تھا۔
  

  ایسی مشکل گھڑی میں رضیہ نے ہمت نہیں ہاری اور گھریلو اخراجات کا ذمہ اپنے سر اٹھا لیا،گھر کے راشن سے لیکر شوہر کی دوائی تک کی ذمہ داری رضیہ کے نازک کندھوں پرآن پڑی،اس نے راتوں میں سوت کاتنے کا کام شروع کیا،وہ کھانا ہانڈی سے فارغ ہوکر ہر رات سوت کاتنے بیٹھ جاتی اور گھنٹوں سوت کات کر دن میں اسے بازارمیں فروخت کرآتی، اس سے اسے اتنی آمدنی ہو جاتی تھی جس سے دو وقت کی روٹی اور شوہر کی دوائی کا انتظام ہوجایا کرتا تھا۔
     

  یہی سلسلہ برابر جاری رہا یہاں تک کہ پانچ سال کا عرصہ گزر گیا،اب جمال اسکول جانے کی عمر میں داخل ہوچکا تھا،ساتھ ہی رضیہ کے کندھے پر جمال کی پڑھائی کی فیس کی ذمہ داری کا بھی اضافہ ہوگیا،اس کی بھر پائی کے لئے اس نے اپنے کام کے وقت کو تھوڑا سا اور بڑھادیا،اس تھوڑے سے اضافہ شدہ وقت کی جتنی آمدنی ہوتی رضیہ اسے کھانا ہانڈی سے پس انداز کرکے جمال کی فیس کے لئے رکھ لیتی۔
    

   جمال کو پرائمری میں داخل کردیا گیا،بازار جاتے ہوئے اس کی ماں اسے اسکول چھوڑ جاتی اور آتے ہوئے واپس لے آتی،جمال توقع سے زیادہ محنتی نکلا،اس نے پڑھائی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اس کی نگاہ میں پڑھائی سے زیادہ با وقعت دنیا کا اور کوئی مشغلہ نہیں تھا، وہ پڑھ لکھ کر بیمار باپ اور دکھیاری ماں کا آسرا بننا چاہتا تھا، اور اس میں کامیابی پانے کے لئے وہ شب و روز جی توڑ محنت کرتا تھا۔
     

وقت پرندے کی طرح فضا میں پرواز کرتا رہا،جمال پرائمری سے مڈل،مڈل سے ہائی اسکول اور ہائی اسکول سے کالج میں داخل ہوتا چلا گیا،اس بیچ وہ اپنی ذاتی محنت،فطری لگن، ماں کی عنایت،باپ کی دعائیں اور اساتذہ کی توجہات کی بدولت ہر کلاس میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتا رہا اور نصیب نے اسے گریجویشن میں اسٹیٹ ٹاپر بنا دیا،جس کا ثمرہ اسکالر شپ کی شکل میں اسے یہ ملا کہ گورنمنٹ نے اس کے آگے ولایت جانے کا آفر رکھ دیا،اس آفر کے سنتے ہی جمال کی خوشی کا کیا ہی پوچھنا تھا،اس کے پیر زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے،وہ پھولے نہیں سما رہا تھا،ماں کےآنسو رواں ہوگئے تھے،یہ خوشی کے آنسو تھے،چلنے پھرنے سے معذور باپ کا انداز قابل دید تھا،کبھی وہ اپنے بیٹے کو چومتا کبھی اپنی بیوی کی بلائیں لیتا اورکبھی رب کے حضور ادائیگئ شکر کے لئے بِچھ بِچھ جاتا۔
    پھر وہ کرب انگیز منظر بھی آیا جب رضیہ اور اس کا شوہر اپنے اکلوتے بیٹے کو نم آنکھوں کے ساتھ وداع کر رہے تھے بیٹا ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ولایت پہونچ گیا،یہ اڑان اس غریب کےلئے ایک خواب سے کم نہ تھی،وہ اپنی سوچوں میں گم ہوا میں تیرتا چلا جا رہا تھا،بار بار اسے گھر کا خیال آتا،ماں باپ کے مرجھائے ہوئے چہرے اس کے دل پر نشتر لگاتے، مگر وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ وہ تو اپنے ماں باپ ہی کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہے،وہ وہاں جاکر وکالت کی پڑھائی میں لگ گیا،اور جب پانچ سال بعد وکالت کی پڑھائی سے فارغ ہوکر گھر لوٹا تو گھر کا نقشہ بدل چکا تھا،باپ بیماریوں کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوچکا تھا،ماں بیچاری دل پر شوہر کی فرقت کا روگ لئے وقت سے پہلے ہی بڑھاپے کی منزل کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔
    

  چند مہینوں کے بعد جمال سپریم کورٹ کی وکالت کے لئے سرکاری طور پر منتخب ہوگیا،پھر تو اس کے دن ہی پھر گئے، ماں کے کندھے سے محنت و مشقت کا بوجھ اٹھ گیا،گھر میں دولت و ثروت کی ریل پیل ہونے لگی،اس نے اپنی وکالت کی کمائی سے شہر کے وسط میں ایک شاہکار اور بے مثال حویلی تعمیر کرائی،حویلی کے بیچوں بیچ نہایت قیمتی اور دیدہ زیب فانوس لگوایا اور اپنی ماں کو لے کر اس میں شفٹ ہو گیا۔
    

باوجودیکہ فانوس کی چکاچوند روشنیوں اور قمقموں کی دلکش کرنوں نے حویلی کو مٹی کے اس دیے سے بے نیاز کردیا تھا، پھر بھی اس کی ماں نے پرانے گھر سے چلتے ہوئے مٹی کے اس دیے کو اپنے ساتھ لے لیا تھا،وہ کسی بھی حالت میں اپنے اس محسن سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی تھی،اس نے بڑی حفاظت سے مٹی کے اس دیے کو اپنے بیٹے کے کمرے کی کارنس پر لاکر رکھ دیا۔
     

مگر دولت کی آمد نے اس کے بیٹے کی آنکھوں کے گرد ایسی پٹی لپیٹ دی تھی کہ ماضی اس کے عقب میں روپوش ہوگیا،وہی ماضی جس سے اس کی برسوں کی شناسائی تھی یک بیک اس کے لئے اجنبی بن گیا،دولت، شہرت اور عزت نے اسے غرور کا چلتا پھرتا ایک مجسمہ بنا دیا تھا،اب بھلا کیوں کر اس کی اتنی عالیشان حویلی میں مٹی کا وہ بوسیدہ دیا پھَبنے لگتا، چنانچہ ایک دن جب اس نے گھر میں قدم رکھا تو آتے ہی پہلے اپنی ماں پر جھلایا اور پھر دیے کو اٹھا کر ڈسٹ بین میں پھینک دیا۔
      

اس کی بوڑھی ماں یادوں کے رَیلے میں بہی چلی جا رہی تھی،اس دن اسے بہت کچھ یاد آرہا تھا،اسے ماضی کی برسات کی وہ اندھیری رات بھی یاد آ رہی تھی جب وہ آدھی رات کو اپنے کچے گھر میں ایک طرف سوئی ہوئی تھی، گھر کے پچھواڑے بنے تالاب سے آتی مینڈکوں کی بے ہنگم سی ٹرٹراہٹ نے اس کی آنکھوں سے نیند کو کوسوں دور کر رکھا تھا،اس کا تین سالہ بیٹا جمال دوسری طرف اپنے گرد و پیش سے بے خبر نیند کی وادی میں سیر کر رہا تھا،اچانک اسے یوں محسوس ہوا جیسے جمال کے قریب کوئی چیز پُھنکار رہی ہو،وہ تڑپ کر اٹھی،بغل میں رکھے مٹی کے دیے کو دِیا سلائی سے روشن کیا اور اس کی زرد پیلی روشنی میں جب اس نے دیکھا کہ ایک زہریلا سانپ پَھن اٹھائے آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے جمال کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس کی ممتا کی بےخود ہوگئی،وہ اسی بےخودی کے عالم میں باہر کو سرپٹ دوڑی،ایک ٹوکا اٹھا لائی اور ٹوکے کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر ڈالی۔
  

     اس دن وہ راتیں بھی اس کے خیالوں میں آکر اس کی تکلیفوں میں اضافہ کر رہی تھیں،جب غربت کے ان دنوں میں گھر میں روشنی بخشنے والا صرف یہی ایک دِیا تھا،جمال کو اسکول کا ہوم ورک کرنا ہوتا تھا،اس کی ماں ہر رات دِیا لاکر اس کے سامنے رکھ دیا کرتی تھی اور اس وقت تک رات کا کھانا بنانے کے لئے باورچی خانے کا رخ نہیں کرتی تھی جب تک کہ جمال اپنا ہوم ورک پورا نہیں کرلیتا تھا۔
     

آج وہی جمال اپنے محسن کے احسان کو بھول گیا تھا، کیونکہ اب وہ وکیل بن چکا تھا،وکیل جمال،قمقموں کی ست رنگ روشنی کے سمندر میں دیے کی زرد پیلی روشنی کو وہ غرق کر چکا تھا،پھر دن بیتتے رہے،مہینے گزر گئے،اس کی ماں نے اب کی بار دِیے کو اپنے کمرے کی کارنس پر لے جاکر رکھ دیا۔
     

  اور پھر ایک رات وہی دِیا حویلی کے صحن میں پھر سے روشن تھا،اس کی زرد پیلی روشنی حویلی کے صحن میں پھر سے ناچ رہی تھی،ایسا لگ رہا تھا جیسے پرانے دن لوٹ آئے ہوں،کیونکہ کئی دنوں سے بھاری بارش ہو رہی تھی، ہواؤں کے تیز جھکڑ نے بجلی کے کئی کھمبوں کو مروڑ کر رکھ دیا تھا، کئی دنوں سے سورج بادل کی اوٹ میں دُبکا بیٹھا تھا،اور کئی راتوں سے چاند ستارے نیلگوں آسمان کی تھالی پرمحفل لگا نہیں پا رہے تھے،پورا محلہ اندھیرے میں غرقاب تھا،ایسے میں وکیل جمال اپنے کمرے میں کسی ضروری چیز کو تلاش کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا تھا،مگر گھُپ اندھیری میں وہ چیز اس کی پکڑ میں آ ہی نہیں رہی تھی،ناچار وہ حویلی کے صحن میں پہونچا اور ابھی مٹی کے روشن دِیے کو اٹھا کر چلنے ہی لگا تھا کہ دروازے کی اوٹ سے اسے ماں کی آواز آتی سنائی دی ”بیٹا!زندگی کی مشکل اور کٹھن گھڑیوں میں ساتھ نبھانے والے محسن کو خوشحالی اور آسودگی کی زندگی میں فراموش نہیں کرنا چاہیے “۔
    

    ماں کی اس آواز نے جمال کے وجود پر لرزہ طاری کردیا،خفت و ندامت سے اس کا سر جھک گیا،اس کی آنکھیں اشکوں سے تر ہوگئیں،اس نے اثبات میں سر ہلایا اور دِیے کو اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

                              ظفر امام،کھجور باڑی
                              دارالعلوم بہادرگنج
                           16/ فروری ؁2022ء

ان خبروں کو بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button