مضامین

تزکیہ نفس کا مفہوم بہت وسیع ہے

(محمد طارق بدایونی ندوی، ریسرچ اسکالر: ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ)

تزکیہ نام ہے کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا، اس کی نشو و نما کرنا اور غیر ضروری چیزوں سے کار آمد اشیا کی حفاظت کرنا یعنی نقصان دہ اور غلط افکار و نظریات اور رجحانات و میلانات سے چھٹکارا پا کر پاکیزگی کی طرف آنا۔

اللہ تعالی کا ارشاد وارد ہے:

”نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔ یقینا فلاح پا گیاوہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔“ [سورة الشمس: ۷،۸،۹،۱۰]

اللہ تعالی نے انسان کے اندر خیر وشر کے مابین امتیاز کرنے کی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔ صرف انسان ہی میں نہیں بلکہ ہر مخلوق کے اندر یہ صفات ان کی حیثیت و نوعیت کے اعتبار سے عطا فرمائی ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: "ربناالذي أعطى كل شيئ خلقه ثم هدی‘‘ [سورة طه: ۵۰] (ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔)

مولانا مودودی وضاحت کر تے ہوئے رقم طراز ہیں: ”مثلا حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے، جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندہ کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتا بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آ جاتا ہے۔ انسان کی اس و دیعت کردہ صلاحیت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے آپ کو شرک و بدعت سے بچائے، فساد نیت، تحریف و کتمان حق، حسد و کینہ، نفاق، لڑائی جھگڑے اور دیگر اعمال بد جیسے کبر و غرور، دوسروں کو کم تر سمجھنے سے، عصبیت، لالچ، حرص و ہوس اور خواہشات نفسانی سے خود کو محفوظ رکھے۔ دل میں اللہ کی یاد اور عقبی کا تصور ہو، جزاء و سزا پر یقین ہو، احساس جواب دہی اور ضبط نفس ہو، ندامت و پشیمانی اور توبہ و استغفار کی کثرت، نیکو کاروں کی صحبت اختیار کی جائے اور زبان کی حفاظت ہو، سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ روزانہ اپنا محاسبہ کیا جائے یعنی بستر پر جانے سے قبل دن بھر اپنے تمام اعمال و افعال کے تعلق سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ آج کون سا کام ایسا کیا جو قابل تعریف ہے اور کون سا ایسا کیا جو غلط تھا جس پر پکڑ ہو سکتی ہے؟ پھر اچھے کاموں پر خدا کا شکر ادا کیا جائے اور برے کاموں کی اللہ سے معافی مانگی جائے اور آئندہ نہ کرنے کا عہد ہو۔ کیوں کہ جب انسان تزکیہ کے نتیجے میں اعمال بد سے دوری اختیار کر لیتا ہے تو پھر رب العالمین کی محبت اور انعام و اکرام سے سرشار ہو تا ہے، عبادت و اطاعت میں لطف آنے لگتا ہے، خلوص وللہیت دل میں جاں گزیں ہو جاتی ہے، زندگی کے ہر رطب و یابس مرحلے میں اللہ تعالی کا شکر بجالا تا ہے اور غفلت ولا ابالی پن سے نکل کر اپنے حقیقی مقصد کی جانب گامزن ہو جا تا ہے۔ جب انسان اس طرح اپنا تزکیہ کر لیتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان وارد ہے۔: ’’قد أفلح من تزكي‘‘۔ اللہ رب کریم کا سب سے بڑا انعام ہے کہ ایسے شخص کو کامیابی کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا جار ہا ہے۔

سید قطب شہید نے اس آیت کریمہ کو سورۃ البلد کی آیت ۱۰، سورہ الانسان کی آیت ۳، سورۃ ص آیت ٧١،٧٢، سورۃ المدثر آیت ۳۸، سورة الرعد آیت ااسے مربوط کیا ہے اور آخر میں یہ تبصرہ موجود ہے:
”ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ انسانی وجود اپنی تخلیق سے دوہری فطرت، دوہری صلاحیت اور دوہرا رخ رکھنے والا ہے اور زمین کی مٹی سے پیدا ہوا ہے اور خدا نے اس میں اپنی کچھ روح پھونکی ہے، اس لیے وہ خیر و شر اور ہدایت و گم راہی، دونوں کو اپنانے کی یکساں صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا خیر ہے اور کیا شر؟ ان میں تمیز کرنے پر قادر ہے خیر کی طرف رخ کرے یاشر کی طرف، دونوں امور پر اسے یکساں قدرت ہے اور یہ قدرت اس کے وجود کے اندر موجود ہے اسے قرآن کبھی الہام سے تعبیر کرتا ہے: ”و نفس و ما سواها، فألهمها فجورها و تقواها“ قسم نفس انسانی کی اور جیسا کچھ اسے ٹھیک ٹھاک کیا تو اس کو اس کے فجور اور تقوی کا الہام کیا۔ اور کبھی وہ اس کے لیے ہدایت کی تعبیر اختیار کرتا ہے:”و هدینہ النجدین‘‘ اور ہم نے اسے دو راہوں کی ہدایت دی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیز اس کی فطرت میں صلاحیت و استعداد کی شکل میں چھپی ہوئی ہے! دعوت و تبلیغ ، ترغیب و ترہیب اور خارجی عوامل ان صلاحیتوں کو بیدار اور تیز کرنے اور انھیں ادھر یا ادھر متوجہ کرنے اور لگانے کے لیے ہیں، ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لیے نہیں! کیوں کہ یہ صلاحتیں تو اس کی فطرت میں ودیعت ہیں ،طبعاً اس کے اندر موجود ہیں اور خدا نے اس کو ان کا الہام کیا ہے۔

تزکیہ کسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے چاہے وہ نباتات و جمادات کی قبیل سے ہو یا انسان و جنات۔ مثلاً کسی نے زمین جوت کر اسے فصل کے لائق بنا دیا پھر اس میں بیچ ڈالا اور کوئی پودا اُگ آیا، کچھ دنوں بعد اس کے ارد گرد گھاس جم گئی جو اس کے لیے نقصان دہ ہے، ایسی صورت میں اس کے آس پاس کی گھاس صاف کر نالازم ہے تا کہ اس پودے کی نشو و نما اچھے ڈھنگ سے ہو سکے۔ یہ صفائی کا عمل ہی تزکیہ ہے۔

عموما جب تزکیہ لفظ بولا جاتا ہے تو ذ ہن اپنے نفس کی جانب چلا جاتا ہے۔ نفس کا تزکیہ، اس کا مطلب کیا ہے؟
واضح رہے تزکیہ نفس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انسان اپنی ذات سے منکرات و نواہی کی چھٹائی کر کے صرف اللہ اللہ میں لگ جائے؛ بلکہ منکرات و نواہی کا مقابلہ معروف سے ہے۔

یوں تو انسانی زندگی کا حقیقی مقصد ہے تو اللہ کے نازل کردہ احکامات و قوانین کی پیروی کرنا؛ لیکن اس پیروی کا مطلب گوشہ گیری اختیار کر لینا نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ تقاضے ہیں جو انسان کو پورے کرنا ہوں گے۔ انسان کا تعلق ، تعلق باللہ کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال ، کنبہ و خاندان اور معاشرو و ریاست سے بھی ہونا چاہیے۔ اس میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک، بیوی بچوں کے حقوق کی ادائگی، پڑوسیوں کی خبر گیری معاشرہ میں موجود غریبوں اور یتیموں کی دیکھ ریکھ اور ریاستی و حکومتی سطح پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا وغیرہ شامل ہیں، ان ذمہ داریوں میں ایک فریضۂ جہاد بھی ہے، جس کے لیے ہر شہری کو بوقت ضرورت تیار رہنا ہوگا اور ہر حال میں اپنا حق لینا ہوگا اور دوسرے کے حقوق دلانا ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button