مضامین

مولانا علی میاں رحمۃاللہ علیہ اور ایک دیہاتی

سنہ ٢٠٠٠ء کی بات ہے،میں جامعہ ملیہ دہلی سےپڑھ کر گھر آگیا تھا۔پڑھانے کیلۓ جگہ کی تلاش تھی،والد صاحب رح بھی فکر مند تھے،امارت شرعیہ و ذیلی اداروں میں جگہ تو تھی مگراباجان کی غیرت کو گوارہ نہ تھا کہ بیٹے کو رکھیں۔میں گھر بیٹھا بےکارپڑا تھا،ایک دن حضرت مولانا عبداللہ عباس ندوی رح تشریف لاۓ،میرے بارے میں پوچھا تو اباجان نے کہا:گھر آگیا ہے پڑھانے کیلۓ جگہ کی تلاش ہے۔یہ سنتے ہی حضرت نے فرمایا: اسے فورا ندوہ بھیج دیں۔یہ سنتے ہی اباجان کا چہرہ کھل اٹھا،اورمیں ندوہ آگیا۔ ندوہ میں معہد کا شعبہ، سکروری منتقل ہوگیا تھا،جہاں عالیہ اولیٰ تک پڑھائ ہوتی تھی۔

معہد کےاحاطہ میں کوٹھی کےنام سےایک پرانی عمارت تھی،اسی میں رہنے کو جگہ ملی۔

پہونچا تو دیکھا، ایک بزرگ بیٹھے ہیں،بزرگ نے بھی مجھےنیچے سے اوپر تک دیکھا، انہیں لگا کہ یہ کون میری کوٹھی میں آدھمکا۔میں نے اپنا نام بتایا اور پوچھا: حضرت : آپ کا اسم شریف؟ بولے: حضرت اضرت نہ بولو بھیا۔جو حضرت نہ ہو اسے حضرت بولو تو یہ بھی جھوٹ ہوجاوے، ہمارے حضرت سادہ تھےسادگی کو پسند کرتے تھے۔میرا نام رجب علی ہے،یہیں خادم ہوں۔

اچھا ! رجب علی؟ رجب علی تو ہمارے جدامجد تھے۔بڑی بزرگ ہستی تھی۔بزرگ کا لفظ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگیا۔بولے: میں تو گناہ گار رجب علی ہوں۔عالمانہ لباس میں دیکھا تو پوچھ بیٹھا: آپ کی فراغت ندوہ سے کب ہوئ ؟

بولے: فراغت اراغت چھوڑو میاں،حضرت علی میاں کہتے تھے:دین کے کام سے فراغت کہاں۔اور میں تو رہا انگوٹھاچھاپ۔کرتاداڑھی دیکھ کر دھوکہ میں آگۓ نا۔حضرت کہتے تھے: دنیا کی چمک بھی دھوکہ ہے میاں۔

میں نے کہا: چلیے چھوڑیۓ بس یوں سمجھیے کہ اللہ نے مجھے آپ کی خدمت کیلۓ بھیجا ہے۔لاحول پڑھو میاں۔تم ٹھہرے عالم اور میں نراجاہل۔بھلا میں تم سے خدمت لوں۔میں نے کہا؛ اچھابابا ۔ تو پھر ہم لوگ دوستی کرلیں۔یہ سن کر ہنس پڑے اورنمازچاشت کی نیت باندھ لی۔

یہ ہیں مہپت موء لکھنؤ کے حاجی رجب علی صاحب۔اس گاؤں کے معمولی دیہاتی ہیں۔گاوں میں اپنے کھیت میں لگےرہتے ہیں،کبھی سبزی اور کبھی گھانس کاٹ کر،سر پر لاد کرپیدل شہرجاتےاور شام تک واپس آجاتےہیں،صوم صلوۃ کے پابند ہیں،علماء سے، بزرگوں سےعقیدت رکھتے ہیں۔ایک دن پوچھتے پاچھتےحضرت مولانا علی میاں کے پاس پہونچ گۓ، حضرت نے کیا جادو کیا کہ ایک ہی ملاقات میں شکا ر ہوگۓ ایک طرف "ماذاخسرالعالم” کا مصنف،عالم اسلام کا عظیم مفکر، مایہ نازادیب دوسری طرف،سیدھا سادھا بھولا بھالا، ایک ان پڑھ دیہاتی۔

رجب علی کی ضد کہ علی میاں مہپت موچلو۔مروت والےحضرت مولانا دیہاتی کی بات نہ ٹال سکے،ایک دن مہپت موء آہی گۓ،گاؤں پسند آیا،چاروں طرف ہریالی،شور شرابا سے دور،سکون کی جگہ۔اب حضرت قیام بھی کرنے لگے،کتاب بھی لکھنے لگے۔دوسری طرف غریب دیہاتی کی خوشی کا کیا ٹھکانہ، یہ دیوانہ محبوب کے سامنےکسی کونے میں چپ چاپ بیٹھا ٹکرٹکر تکتا رہے،کتاب پڑھنا تو نہیں جانتا،پیار سےدیکھتاضرور ہےاور کبھی چپکےسے چھودیتا ہے۔حضرت لکھنے میں مشغول اور یہ حضرت کو راحت پہنچانےپرمامور، روزانہ گھرسے ناشتہ کھانا لانا اور پیارسے کھلانا۔ حضرت کے آنے سےمہپت موء میں بہار آجاتی ہے۔اب حضرت کی خواہش ہورہی ہےکہ یہاں ایک مدرسہ ہو،پھرکیاتھا یہ لق و دق زمین حضرت کے حوالے،دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ قایم ہو جاتا ہے،یہ معہد سکروری کی زمیں، یہ مدرسہ نور الاسلام کی زمین ،یہ حضرت قاری مشتاق رح کی زمین۔ یہ زمین وہ زمین ،ادھررجب علی دلانے میں لگے ہیں اورادھر شاہد صاحب لکھانے میں لگے ہیں، دینی ادارے قایم ہوتے چلے جارہے ہیں۔علماء و حفاظ کی چہل پہل بڑھتی جارہی ہے۔

رجب علی،نہ اردو جانتے ہیں اور نہ عربی،قرآن پاک بھی پڑھ نہیں سکتے۔بس دین کی موٹی موٹی باتیں حضرت سے سیکھ لی ہیں،چند اذکار،رٹ لیۓ ہیں۔دین کی تڑپ ہے، اشاعت کی فکر ہے، ادھر سےادھردوڑےپھرتے ہیں۔حضرت کی صحبت سےزندگی بدل گئ ہے، پیارے نبی کی ایک ایک سنت پر عمل کرنے میں لگےرہتے ہیں،جیسے تیسے پیسہ کا انتظام کرکے حج بھی کر آۓ،حضرت کے پیر حضرت راۓپوری سےبیعت بھی ہو لیۓ،خوش ہیں کہ علی میاں کےپیر بھائ ہو گئے ۔

دینی تعلیم کے ایسے شیدائی کے پکڑ پکڑ کراور منامنا کربچوں کا مدرسہ میں داخلہ کرارہے ہیں۔سفارش میں لگے ہیں ،فیس معاف کروانے میں لگے ہیں۔بچیوں کو مدرسہ نسواں بھیج رہے ہیں۔اپنے بیٹوں کو تو نہیں پڑھا سکےمگر اپنی دونوں بیٹی کو عالمہ بنا ڈالا،ایک معلمہ بھی بن گئ۔رجب علی کا روزانہ کا معمول ہے، بیٹیوں سے قرآن سننا،کتابیں پڑھواکر سننا۔
میری بھی جمنے لگی ہے۔دوستی بڑھ رہی ہے۔ایک ہفتہ تک حاجی رجب علی صاحب نےمہپت مؤ،نورالاسلام نسواں،جامعۃ المؤمنات دوبگہ،قاری مشتاق صاحب کا فارم ہاؤس،کاکوری، ملیح آباد،سکروری کے آس پاس کی جگہ،ندوہ کا کھیت، باغ، سب دیکھاتےرہے،چلا چلا کر تھکادیامگر ٨٠/ برس کی عمر میں بھی ان پر تھکان کا کوی اثر نہیں۔بس زبان پر علی میاں علی میاں،عشق کی ایک عجب آگ حضرت نے لگادی ہے۔کہتے ہیں:جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امتی علی میاں ایسے تھےتو پیارے نبی کیسے ہوں گے۔اور پھر ایک ہوک سی اٹھتی ہےان کے دل میں،عشق ومستی میں بول پڑے تو پھر رکتے نہیں۔میں نے ایک دن پوچھا: حضرت مولانا کی کوئ ایک خاص بات بتائی ۔فورا بول اٹھے: علی میاں نے نہ زبان سے کبھی کسی کا دل دکھایا اور نہ قلم سے،شیشہ کی طرح صاف تھا ان کا دل۔میں سن کر چونک پڑا،وجد میں آگیا۔میں نے کہا ایک دفعہ اور بولیۓ۔ بولے۔ایک دفعہ کیا میں تو سو بار یہی کہوں ۔میں نے دل میں سوچا یہ دو لفظ ہزار صفحہ کی کتاب پر بھاری ہے۔کیا کہدیا اس دیہاتی نے۔

رجب علی بہت رقیق القلب ہیں،اشراق،چاشت،تہجد کےپابند، جماعت سے نماز کبھی نہیں چھوڑتے،جہاں اذان ہوئ،نکل پڑےاس وقت کسی کو نہیں پہچانتے،تکبیر اولی نہیں چھوٹتی،سفر سے بھاگتے کہ جماعت چھوٹےگی سوسال کی عمر تک خود کو گھسیٹ گھسیٹ کر مسجد لے گۓ۔ہمیشہ باوضو رہتے،درود شریف سےزبان تر رہتی،تنگی میں بھی سخاوت،گھر میں قناعت اور دوستوں،علماء،اساتذہ و طلبہ کی ضیافت۔آخر آخر عمر تک مدرسہ کے بچوں کو کچھ نہ کچھ کھلاتےرہےاور اپنےلۓمغفرت کی دعا کراتے۔ مجھ سےکتاب پڑھوا پڑھواکر سنتے ہیں اور روتے جاتےہیں،مجھ جیسے سخت دل آدمی کی آنکھ بھی ہھیگ جاتی ہے۔آنکھ نہیں جیسے میرے گاؤں کی پہاڑی ندی ہو،بہی جاتی ہے،میں نے کہا: اتنا کیوں روتے ہیں۔بولے:آگ، آگ سے ڈرلگےہے۔ہمارےحضرت علی میاں جب ڈرتےاور روتے تھےتورجب علی کیوں نہ روۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذرہ رکیۓ،دیکھیۓ میرا روواں بھی کھڑا ہوگیااوردل بھی بھر آیا۔ذرہ آنسو تو پوچھ لوں۔

حاجی رجب علی کب پیدا ہوۓ،دن تاریخ انہیں بھی نہیں معلوم ۔کہتے:یہ بات تو یقینی ہے کہ میں پیدا ہوا ہوں ،دیکھو سامنے بیٹھاہوں۔ کب پیدا ہوا نہیں معلوم۔
روزآنہ وقت پر سائیکل لۓ معہد آجاتےہیں،روزانہ انٹرول میں کسی نہ کسی استاد کو کوٹھی میں چاۓپلاتےہیں،گھوم گھوم کرنگرانی کرتےہیں،آم کا کوئ پتہ بھی نہ توڑے،کوئ بکری بیل نہ گھسے۔ان کی حاضری کا کوئ رجسٹر نہیں، پھر بھی پوری ڈیوٹی دے کر گھرجاتےہیں،۔بوڑھے ہوگۓہیں،ان کی ضروت بھی اب نہ رہی، بس ان کی دلجوئی کیلۓرکھ لیا گیا ہےمگر وہ پورا فرض نبھاتےہیں۔

عقیدہ کے پڑے پکے،شرک و بدعات سےکوسوں دور۔معاملات کے بہت صاف۔
بیٹی کے رشتہ کیلۓ بہت پریشان ہوۓ۔دیندار لڑکے کی تلاش میں کئ اچھے رشتوں کو چھوڑا۔
تنگی میں برابر رہتےہیں۔وہ دوست ہی کیا جو دوست کے دکھ درد کو نہ سمجھے۔ایک روز انہیں پیسہ کی شدید ضرورت تھی،دیاجاتا تو لیتے نہیں،میں نےان کے لٹکے ہوۓ کرتے میں کچھ ڈال دیا۔وہ اٹھےوضو بنایا،کرتاپہنا، جیب میں ہاتھ ڈالا تو پیسہ نکلا،وہ اس طرح چونکے اور نکال کر پھیکا جیسےروپیہ نہ ہو بچھو ہو۔کہاں سے آیا ؟ کس نے دیا؟ ہم نے کس سے لیا؟ پریشان پریشان۔میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔یہ ہم نے کیا کیا۔بڑی مشکل سے کہہ پایا،انہوں نےواپس کردیا۔بارہا ایسا ہواکہ سوۓ ہیں،ظہر کا وقت ہونے کو ہےاور ایک دم سے چونک کر اٹھ گئے ۔جماعت ہو تو نہیں گئ؟ نہیں حاجی صاحب ! ابھی دیر ہے۔

چند ناعاقبت اندیش ان سے بھونڈا مذاق کرتے،ان کو معہد پر بوجھ سمجھتے،وہ سب کچھ مسکرا کر سنتے،کوئ جواب نہ دیتے۔
مجھ سے ان کو بڑی محبت ہوگئ تھی۔ہر وقت میری فکر،جب آتے پابندی سے ٹفن میں کچھ نہ کچھ ضرور لاتے،آم کے موسم میں ایک دو آم سائیکل میں لٹکا ہوا دورسےنظرآتا،میرے بے تکلف ساتھی کبھی راستہ میں اچک لیتے۔حاجی صاحب کو قلق ہوتا، پھر تو وہ بڑی چالاکی سے لاتے،ہفتہ میں ایک دن گھر پہ دعوت ہوتی۔گھرجاتا تو آم کے موسم میں دو کارٹون آم ضرور ملتا، مٹر کے موسم میں مٹر،خربوزہ کے موسم میں خربوزہ۔

اف کیا لکھوں کیا نہ لکھوں۔

*دل تو کہتاہے کہ لفظوں کا سہارا لے کر۔اےغم دوست مزین تری تصویر کروں۔لب قرطاس پہ تخییل کو جامہ دے کر۔تری ہراداکی اس دنیا میں تشہیر کروں۔میرے افکار،مری لے،مری دھڑکن، مرے گیت۔تجھ سے منسوب ہیں کچھ اس طرح سے میرے اےدوست۔کہ انہیں بزم میں لاتے ہوۓ ڈر لگتا ہے۔پھر بھی اوراق پلٹ جاتے ہیں جب ماضی کے۔ٹوٹ جاتا ہےہر اک ضبط کا بندھن اے دوست۔*

ایک دن میں نے کہا: حاجی صاحب ! آپ بوڑھے ہوگۓ ہیں، آپ کے بعد آپ کے گھر والے پہچانیں گے بھی نہیں۔بو لے: نہیں۔ایسا نہیں ہوگا۔اور پھر ہرجمعرات کو رشتہ داروں سے ملاتے،ملیح آباد ،سندیلہ تک لے گۓ۔میری شادی کی انہیں فکر ہوئ۔شادی ہوئ تو ایک ولیمہ حاجی صاحب کےزیر انتظام کوٹھی پر ہوا۔

اور پھر ایک دن کچھ ذاتی مجبوری کے تحت معہد چھوڑکر گھر آنا پڑگیا۔یہاں سےخط لکھاکہ اب میں نہیں آؤں گا۔
سن کر ان پر جیسے بجلی گری، انہیں صدمہ پہونچا،کئ دن اثر رہا،بیمار پڑگۓ۔

*جب کسک سی کبھی محسوس ہو دل پر تیرے۔سوچ لینا کہ تجھے یاد کیا ہے میں نے۔بیٹھے بیٹھے کبھی آجاۓ جو ہچکی تجھ کو۔تو سمجھ لینا کہ بہت یاد کیا ہے میں نے۔*

میں گھر آنے کے بعد بھی برابر رابطہ میں رہا۔عمر کافی ہوگئ تھی بیمارہوتے رہے ٹھیک ہوتے رہےاورپھرایک دن چل بسے۔ *حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا*
حضرت مولانا علی میاں کی صحبت نےانہیں قیمتی آبگینہ بنادیاتھا۔ایسےتھے ہمارے حضرت۔ایک دیہاتی سےدین کا بڑاکام لے لیا۔حضرت کی توجہ کیا ہوئ واقعی وہ اللہ کے ولی ہو گۓ۔کیسی تعلیم ،کیسی ڈگری،کیسا عہدہ ،کیسی دولت۔کچھ تو نہ تھا۔نہ کوئ خبر چپھی،نہ کوئ تعزیتی جلسہ،نہ مضمون نہ کتاب ۔ فنا ہوگۓ،کہیں نام نہیں۔

ایسے ہزاروں ہیں جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن اللہ کی نظر میں بہت ہیں محبوب۔ایسے ہی لوگوں کے صدقہ دنیا قایم ہے۔واہ رےہمارےحضرت علی میاں۔کیسے کیسے دیوانے تھے آپ کے۔

*تری خاک میں ہے اگر شرر،تو خیال فقر و غنا نہ کر.کہ جہاں میں نان شعیرپر ، ہے مدار قوت حیدری۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button