مضامین

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گاحضرت مولانا محمد اختر صاحب قاسمیؒ

مولانا سید محمد ریاض ندوی کھجناوری
رئیس: جامعة الحسنین
صبری پور

مغربی اترپردیش کے مردم خیز ورجال ساز خطے میں جن اداروں و شخصیات کو عوام وخواص میں محبوبیت، مرجعیت اور اہمیت حاصل ہے،ان میں ایک اہم نام علم وعمل کی پاکیزہ شخصیت حضرت مولانا محمد اختر صاحب قاسمیؒ کا بھی تھا،جن کا ذکرجامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ کے بغیر کرنا سراسر ناانصافی ہوگی،آپ یہاں کے ایک باوقار ومثالی مہتمم تھے،جو 1 جنوری 2022ء ہزاروں ہزار شاگردوں کو (صدقہ جاریہ کے طور پر)اپنے پیچھے بلکتا چھوڑ کر رب حقیقی سے جاملے،چند ماہ سے علالت کی خبریں آرہی تھیں، مسلسل دعاؤں کی سوغات ان کے لئے جاری تھی،وظائف واذکار کے اہتمام کے ساتھ ان کی درازئی عمر،صحت وعافیت کی دعائیں اہل اللہ،ان کے شاگردگان و منتسبین اور عقیدت مند کررہے تھے،لیکن اللہ تعالی کو ان کی ذات سے جتنا کام لینا تھا،وہ لے چکا تھا،اب دربار خداوندی سے انعامات ملنے کی گھڑی مقدر ہوچکی تھی،وہ ہمارے درمیان سے اٹھ کر راحت ابدی کی نیند سوگئے،ربانی دسترخوان پر ان کے لئے نعمتوں کی بارش اور حسنات کا بدلہ ملنے لگا ، اب وہ اپنی زندگی کی مساعئ جمیلہ، جد وجہد ، کاوشوں ، نبوی علوم کی اشاعت کی کوششوں ، خلوص وللہیت سے دینی اداروں وتحریکات کی خدمات کے عوض اپنا صلہ پائیں گے، اللہ تعالی ان سے راضی ہو۔

رب کائنات نے حضرت مولا نا محمد اختر صاحب قاسمیؒ کو احکام الہی وعلم کی شمع دے کر میدان علم وعمل کے حوالہ کیا تھا،اور ان کے اندر علم و عمل کی دعوت، تحریکی واصلاحی جذبہ موجزن فرمایا تھا،اعلی اخلاق، بلند صفات، انسانیت نوازی ان کی پہچان تھی،وہ دوائے دل بیچتے تھے، تعلق مع اللہ، دینداری، اسلامی علوم سے گہری عقیدت ومحبت، اور خدمت دین سے وابستگی ان کا امتیاز تھا، محبت وانسیت کا ایک ساکت و صامت سمندر ان کے اندرون موجزن تھا۔

زیر قلم تحریر میں ایک ایسی شخصیت کی حیات کو روشنی دکھانا ہےجو نادیدہ وناشنیدہ نہیں بلکہ آنکھوں نے بارہا دیکھا،کانوں نے کئی بار تاریخی پروگراموں میں سنا، زبان نے ان کی دل آویز شخصیت کا نغمہ سنا کر ان کو مائک وڈائز پر بلایا،ان کے لئے استقبالیہ کلمات بھی کہے اور لکھے،کرسئ اہتمام پر بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا،جہاں آپ کی مہمان نوازی کے سنے ہوئے چرچوں کا بھی آنکھوں دیکھا حال جانا،اللہ تعالی نے ان کو علمی وعملی زندگی سے جوڑ کر اپنے یہاں مقبول اور عوام الناس میں محبوب بنایا، اس دور انحطاط میں سلف کے علم واخلاق، متانت ووقار، تواضع وانکسار کا نمونہ ان کے اندر پیوست تھا،غالبا جامعہ اسلامیہ کے سب سے طویل العہد مثالی مہتمم رہے،اور آپ کے دور اہتمام میں جامعہ نے تعلیمی وتربیتی اورتعمیری ترقی کی دہلیز پر جو قدم رکھا تو جامعہ اسلامیہ نے عظمت و نیک نامی کی بلندیوں کو چوما اور چھوا، اور اس کے دائرہ کار میں مزید اضافہ ہوا -جب تحریکوں کو ایسے مخلص وجانثار خد متگار ملتے ہیں،تو قوم وملت بھی ان پر رشک کرتی ہے-یہی حال مولانا مرحوم کے بارے میں سننے اور دیکھنے کو ملا،

آپ کا علمی وتدریسی سفر دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے معًابعد جامعہ اسلامیہ سے شروع ہوتا ہے،اپنے زمانہ کے عباقرۀ علم وفضل سے کسب فیض کرکے جب آپ یہاں قدم رکھتے ہیں، تو متلاشیان علم وسنت کو اپنی علمی وعملی کارکردگی، محنت وتوجہ، مشفقانہ اندازسے اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں،پھر آپ کے استاد ولئ کامل حضرت مولانا محمد عمر صاحب مجاہدپوری سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ کی پیشن گوئی صحیح اور سچی ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے مولانا اختر صاحبؒ کے زمانۀ طالب علمی میں ہی کہہ دیا تھا کہ اختر تم جامعہ کے مہتمم بنو گے۔ ملاحظہ کریں دودن کا سفر خود نوشت سوانح مولاناعمر صاحب

آپ کے تدریسی دور کو طویل زمانہ نہیں گذرتا کہ آپ کی علمی وتجرباتی زندگی ، باوقار انداز خطابت،مسحور کن اخلاق وعادات،ذکاوت وذہانت، سمجھ بوجھ،دور اندیشی ومعاملہ فہمی، مدرسہ کی تئیں مخلص ووفا شعاری اور جاں نثاری کے جوہر کو دیکھتے ہوئے ارباب شوری آپ کو جامعہ کے اہتمام پر فائز کرتے ہیں، پھر آپ کی محنتیں، کاوشیں،کوششیں مزید بڑھ جاتی ہیں اور شب وروز جامعہ کی ترقی کی دھن آپ کے اوپر سوار اور ہر لمحہ پریشان رکھتی ہے۔

آپ کی مستعار زندگی کےاوراق کچھ اس انداز پر شاہد ہیں کہ آپ نے علوم نبوی کی اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور شب وروز اس کے لئے صرف کئے،پہلے تدریس سے وابستہ رہ کر تشنگان علوم کے قلوب کو گنجینۀ علم سے معمور کرتے رہے،پھر بعد میں تحریکات واداروں کے اجلاس میں عوام وخواص کو شریعت پر چلنے کی تاکید کرتے رہے، چونکہ آپ ملک کی معروف تنظیم جمعیة علماء ہند ضلع سہارن پور کے سابق صدر رہے، جبکہ آپ کی حین حیات ہی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس منصب پر امیر الھند حضرت مولانا سیدارشد مدنی صاحب دامت برکاتھم کے صاحبزادۀ محترم مولانا حبیب اللہ مدنی صاحب کا انتخاب ہوا، اور خلوت میں اپنے مریدین و متوسلین کو ایمانی ہدایات سے نوازتے رہے،چونکہ آپ شریعت مطہرہ کے خم لنڈھانے کے ساتھ ساتھ طریقت کے بھی بلند مقام پر فائز تھے،اور وقت کے مشائخ کے مجاز بیعت تھے،اس سلسلہ کو بھی آپ نے اپنی حرارت ایمانی سے جاری رکھا،آپ کے پاس فیض حاصل کرنے والے اور اپنی زندگی کو راہ راست پر لانے والے جرعہ نوشوں کی تعداد خاصی ہے۔

آپ مغربی پوپی کے ایک ممتاز دینی وتعلیمی ادارہ کے ایک تاریخ ساز،باوقار اور مثالی مہتمم رہے،ایک مدبر کی سوچ ،ایک منتظم کی اعلی لیاقت آپ کے کاموں کی شان تھی،ارباب شوری آپ کے کاموں کو لائق تحسین اور اہل علاقہ آپ کے وجود کو باعث برکت گردانتے تھے،آپ کے دور اہتمام میں جامعہ اسلامیہ میں ثانویہ سے بڑھ کر عالیہ کی کلاسز اور دورۀ حدیث شریف کی تعلیم شروع ہوئی،دارالافتاءکا قیام، کمپیوٹر سینٹر کا افتتاح، تعمیری طور پر جامعہ کی بلند وبالا ودیدہ زیب عمارتیں آپ کی دعائے نیم شبی،انتھک کوششوں کا ثمرہ اور جہد مسلسل کی مرہون ہیں۔

آپ کے یہاں نسبتوں کا احترام، اہل تعلق کا مقام ،علماء وطلباء پر شفقت،ضرورت پڑنے پر طلباء کو سخت تنبیہ، آنے والے مہمان کی عزت، اس کا اکرام وضیافت آپ کے چند نمایاں اوصاف تھے،تقریبا اپریل 2019ء کی بات ہے جب جامعة الحسنین صبر ی پور کی زمین خرید کر اس پر تعمیری کام شروع کرنے کا ارادہ ہوا تو اس کے سنگ بنیاد اور جلسۀ دستار بندی میں دعوت دینے کے لئے ہم چند احباب خدمت میں حاضر ہوئے،بڑے خوش وخرم ہوکر ملے،اور خوشی کا اظہار فرمایا چونکہ اس بستی میں اب تک کوئی دینی ادارہ نہ تھا،بڑا اکرام کا معاملہ فرمایا، اس وقت قریبی ملک کا سفر درپیش تھا اس لئے اس اجلاس میں تشریف نہ لا سکے،آپ کی تعلیمی محنتیں اور ملت کو دین اسلام سے جوڑنے کی کوششیں وکاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جاتی رہیں گی اللہ تعالی ان کو اپنی ردائے رحمت میں جگہ عطا فرماکر بلند درجات سے نوازے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button