مضامین

بُلی بائی ایپ : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عورتوں کے بے عزت کرنے کی جو مہم بعض بے شرم اور بے غیرت لوگوں نے شروع کر رکھی ہے ، اس نے ایک بار پھر ’’بُلّی بائی ایپ‘‘ کے نام سے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کیے ہیں، چھ ماہ قبل ’’سُلی ڈیلس‘‘ کے نام سے ایک ایپ نے عورتوں کو بے عزت کرنے کا کام شروع کیا تھا، جس پر مہذب سماج نے کافی احتجاج درج کرایا تھا ، اور وہ ایپ بلاک کر دیا گیا تھا، ایک سال کے بعد ’’بُلّی بائی‘‘ کے نام سے نیا ایپ شرارت پسندوں نے لانچ کیا ہے، جس میں صرف مسلم خواتین کو جو سماج میں با وقار حیثیت کی حامل ہیں کونشانہ بنایاگیا ہے ، ایپ کھولنے پر کسی مسلم عورت کی تصویر ’’بُلّی بائی‘‘ کے نام سے سامنے آتی ہے، اور اس کی قیمت لگانے کو کہا جاتا ہے،یعنی ایک طرح سے نیلائی کی بولی لگائی جا رہی ہے، اس پر بھدے اور غلط قسم کے تبصرے ڈالے جاتے ہیں، سو سے زائد ایسی تصویریں اس ایپ پر لوڈ ہیں، جس سے مسلم خواتین کو بے عزت کرنے کا کام لیا جا رہا ہے ۔


اس ایپ نے سائبر کرائم کو بھی اپنی طرف متوجہ کر دیا ہے، وزیر اطلاعات ونشریات اشونی وشنو نے اس ایپ کو بلاک کرنے کے بجائے اس کے صارفین کو بلاک کرنے کی بات کہی ہے، یہ جڑ کو محفوظ رکھ کر پُھنگی کو کاٹنے جیسی بات ہے، اس ایپ کو ہی بلاک کر دینا چاہیے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔


یہ ہمت ایپ بنانے والوں میں اس لیے آئی کہ ’’سُلّی ڈیلس‘‘ میں گذشتہ جولائی میں جو معاملے درج ہوئے تھے اس پر دہلی اور یوپی پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی،’’ بُلّی بائی‘‘ پر مہیلا آیوگ کے تنبیہ کرنے پر دہلی پولیس نے کام شروع کر دیا ہے ، ممئی سائبر پولیس نے بُلّی بائی متنازعہ ایپ کے اصل دماغ اٹھارہ سال کی شویتا سنگھ کو اترا کھنڈ کے رودر پور سے گرفتار کر لیا ہے، ایک اور شخص کی گرفتاری بنگلور سے عمل میں آئی ہے، اس کا نام وشال کمار جھا ہے اوروہ انجینئرنگ کا طالب علم ہے اس معاملہ میں ایک بندے کی گرفتاری آسام سے ہوئی، ا س طرح اس معاملہ میں شامل پانچ میں سے تین پولیس کی گرفت میں آچکے ہیں اور اصلا بہار کا رہنے والا ہے، بُلّی بائی ایپ کو متحرک رکھنے کے لیے تین فرضی اکاؤنٹ کا استعمال کیا جا رہا تھا، ان میں سے ایک اکاؤنٹ سکھوں کے خالصہ کے نام سے بنا یا گیا تھا۔


بُلّی ایپ معاملہ کو مسلم خواتین کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے اور ان کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بات سوشل میڈیا پر نہ رکھ سکیں، اور سیاست میں اپنی حصہ داری ادا کرنے سے دور رہیں، اس ایپ کا اثر دیکھنے میں آنے لگا ہے، کئی درجن مسلم خواتین نے اس واقعہ کے بعد اپنا اکؤنٹ ختم کر نے میں ہی عافیت سمجھی اور انہوں نے سوشل میڈیا سے ترک تعلق کر لیا ہے۔


یہ معاملہ ایک شخص کا نہیں پوری جماعت کا ہے ، ہمارا مطالبہ ہے کہ پولیس کو اس گینگ کا قلع قمع کرنا چاہیے اور ایسی سزا دینی چاہیے کہ آئندہ کوئی اس قسم کی فحش حرکت کرنے کی ہمت نہیں جٹا پائے، تبھی ان عورتوں کے ساتھ انصاف ہوپائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button