مضامین

رنگ لائی تحریک و قربانی کسان کی !


تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

پورا ملک جانتا ہے کہ کسانوں کے آندولن کی مدت ایک سال ہو چکی ہے اور ایک سال میں کسانوں نے سردی، گرمی اور برسات کا سامنا کیا حکومت و انتظامیہ کی سختی کا بھی سامنا کیا، گالیاں بھی سنیں، لاٹھی ڈنڈوں کی مار بھی کھائی، بیماری کا سامنا بھی کیا طرح طرح کے نازیبا کلمات بھی برداشت کیا اور مختلف قسم کے الزامات لگے تو اسے بھی جھیلا اور ان سب کے بعد تقریباً 700 کسانوں کی موت ہوئی مگر واہ رے کسان تیرے حوصلوں کو سلام، تیری جرأت کو سلام، تیری مستقل مزاجی کو سلام،، بالکل اسی طرح کہ حضرت داغ بیٹھ گئے تو بیٹھ گئے،، تیری حوصلے کی دین ہے کہ کل تک جو لوگ کہتے تھے کہ ہم اپنے فیصلے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں تو کسانوں نے اعلان کیا کہ ہم پیچھے ہٹاکر دم لیں گے کسانوں کے اوپر پانی کی بوچھار کی گئی راستوں پر کیلیں لگائی گئیں اور بیر کیٹنگ کی گئی یہاں تک کہ ایک شرپسند نے کسانوں کے اوپر گاڑی تک چڑھادی اور کئی کسان کو روند کر موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن کسان کے اندر بھی ایک خاصیت ہے کہ بیل کتنا ہی اڑیل کیوں نہ ہو اس سے ہل چلوا کر کھیت کی کوڑائی تو کروائی لیتے ہیں بالآخر وہ دن بھی آیا کہ صبح کے وقت وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ہم پورے دیش سے معافی مانگتے ہیں شائد ہماری تپسیا میں کوئی کمی رہ گئ کہ ہم کسانوں کو سمجھا نہیں پائے اور آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ تینوں زرعی قانون کی واپسی کا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے اور آنے والے سیشن میں ساری کارروائی پوری کی جائے گی ائے کسانوں اپنے گھر کو جاؤ یہ تھا حکومت کا اعلان-

«کسانوں کا اعلان»

کسانوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم اس وقت تک گھر نہیں جائیں گے جب تک کہ ایوان کے اندر ساری کاروائی پوری نہیں ہو جائے گی ، ہم اس وقت تک گھر نہیں جاسکتے جب تک کہ جان گنوانے والے کسانوں کو شہید کا درجہ نہیں دیا جائے گا اور معاوضہ نہیں دیا جائے گا یعنی اعلان دونوں طرف سے ہوا ایک طرف سے اعلان ہوا کہ ہم نے آپ کی بات ماننے کا فیصلہ کرلیا تو دوسری طرف سے اعلان ہوا کہ عملی جامہ پہناکر دکھاؤ شائد کسانوں کے دل میں یہ بات بھی ہوسکتی ہے کہ ایک طرف زراعت سے متعلق پارلیمنٹ میں بل پاس ہوا ہے اور صدر جمہوریہ کے دستخط ہوئے ہیں اب وہ قانون بن گیا ہے یعنی قانون بنانا تھا تو سب کچھ تحریری تھا اور اسی قانون کی واپسی کی بات ہے تو ابھی صرف زبانی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم گھر چلے جائیں تو سارا معاملہ جملوں میں تبدیل ہوجائے تو آندولن تو اتنی آسانی سے کھڑا ہوتا نہیں ہے تو کیوں نہ اس وقت گھر جائیں جب سب کچھ مکمل ہوجائے اور ابھی لوہا گرم ہے جدھر موڑا جائے ادھر مڑ سکتا ہے تو کسانوں کے جتنے بھی مسائل ہیں سب پر بات ہوجائے تاکہ مستقبل میں کسانوں کے مسائل کو نظر انداز کرنے کی کوشش کوئی بھی حکومت نہ کرسکے اور بیچ بیچ میں بی جے پی کے وہ لیڈران جو قینچی کی طرح زبان چلاتے ہیں اور متضاد بیان دیتے ہیں تو ان کے لبوں پر بھی تالا لگ سکے اور میڈیا کے ان لوگوں نے جنہوں نے ہمارے جذبات کو مجروح کیا ہے، جنھوں نے ہمیں دنگائی اور فسادی کہا ہے انہیں بھی اس بات کا یقین ہوجائے کہ کسان واقعی صحیح راستے پر تھا اور اس کے مطالبات جائز تھے اور جائز ہیں اور کسی کے جائز مطالبے کو دبانے والا اور دبانے والے کی حمایت کرنے والا غلط ہے اور گمراہ ہے اور ہم نے یہ غلطی نہ کی ہوتی تو آج ہمیں گودی میڈیا نہیں کہا جاتا اور کسان ہم سے نفرت نہیں کرتا ہمیں دھکے نہیں مارا جاتا ہمیں کسانوں سے معافی مانگنا چاہئیے اور ان کی کامیابی پر مبارکباد دینا چاہیے تاکہ کسانوں کو ہم میڈیا والوں پر اعتماد ہوسکے,, واضح رہے کہ کسانوں کی محنت، کسانوں کی جدو جہد اور کسانوں کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور ایسے حالات و جدو جہد کے پیشِ نظر ہی کہا گیا ہے کہ رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد یعنی اب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آخر رنگ لائی حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد-

کسانوں کے آندولن کو اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کی اور ملک کی سماجی شخصیات و تنظیموں کی بھرپور حمایت حاصل رہی جبکہ این آر سی و سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی اپوزیشن پارٹیوں نے حمایت نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور کسانوں کے آندولن کی حمایت کی طرح شاہین باغ میں چلنے والے دھرنے کی حمایت کی گئی ہوتی تو آج کسی وزیر یا کسی بی جے پی لیڈر کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا کہ زرعی قانون کی واپسی کا اعلان ہوا ہے اور فیصلہ ہوا ہے مگر این آر سی و سی اے اے واپس نہیں ہوگا اور اس سیاسی پینترے بازی کی ذمہ دار اپوزیشن سیاسی پارٹیاں ہیں جو سیکولر ازم کا جھوٹا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جو صرف ووٹ لینا جانتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آج اپوزیشن سیاسی پارٹیاں بی جے پی سے خائف ہیں اور دوبک بک میں پھنسی ہیں کہ جائیں تو کدھر جائیں،، ہم بھی ہندوتوا اپنائیں یا سیکولر ازم کا جھوٹا نقاب چہرے پر ڈال کر کبھی سر پر ٹوپی لگالیں، کبھی کاندھے پر رومال ڈال لیں اور پانچ سال سات سال خاموش رہے تو کیا ہوا چلو مگر مچھ کے آنسو بہالیں ہو سکتا ہے ماضی کی طرح پھر ہمیں لوگ معاف کر ہی دیں اور لوگ نہیں کریں گے تو وہ طبقہ تو معاف کرہی دے گا جس کی بدولت ہمارا سیاسی وجود اب تک باقی ہے-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button