,مضامین

نگاہوں نے زمین پر آسماں دیکھا

🖊️اسجد نعمانی کشن گنجی دارالعلوم دیوبند

ربیع الثانی١٤٤٧ھ کی اٹھارہ ویں تاریخ (11/اکتوبر) تھی؛ یہ دن تاریخ ساز اور یادگار دن تھا ؛ کیوں کہ آج افقِ دارالعلوم پر آفتابِ عالَم کے طلوع ہونے کے بعد ایک آفتابِ علم و سیاست بھی طلوع ہونے کو تھا۔جی ہاں! حکومتِ طالبان کے وزیر خارجہ مولوی ”امیر خان متقی“ حفظہ اللّٰہ اپنےعلمی ، روحانی اور دیرینہ تعلقات کی تجدید اور اساتذہ و طلبہ سے ملاقات کے لیے "دارالعلوم دیوبند” آنے والے تھے۔ ان کے چھ روزہ دورۂ ہند کے دوران انہی کی خواہش پر خود حکومت اپنی سرپرستی میں مکمل پروٹوکول کے ساتھ "متقی” صاحب کو "دارالتقویٰ” لانے والی تھی۔

مہمان مکرم کی آمد سے پہلے ان کے اعزاز و اکرام کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ عمدہ سے عمدہ انتظامات کیے گئے؛ جس میں ذمہ داران، اساتذۂ کرام اور طلبۂ عزیز کی عرق ریزیاں کار فرما رہیں، انہوں نے خود کو مکمل طور پر اس انتظام و انصرام میں جھونک دیا تھا؛ غرض ہر ممکن نظم و نسق کیا گیا۔ چنانچہ "لائبریری” میں بعد ظہر ایک عام استقبالیہ تقریب بھی رکھی گئی جس سے مہمان معزز کا خطاب ہونا تھا۔ 11 اکتوبر کا سورج نمودار ہوا۔ آج ہوائیں خوش گوار تھیں اور فضائیں مشک بار۔ پھول اور کلیاں رقص کناں تھیں اور میکدہ و صحن خانہ سبزہ زار؛ دارالعلوم تو دارالعلوم ؛ مے خانے کا ہر بادہ خور، گہوارے کا ہر بچہ، شہ پارے کا ہر شہ سوار اور شبستان کا ہر مہر تاباں؛ اپنی پلکیں بچھائے، جذبۂ عقیدت سے معمور اور شوقِ زیارت سے مخمور؛ مہمانِ مکرم کے منتظر و مشتاق تھے، مرحبا مرحبا کی پاکیزہ صدائیں بلند کررہے تھے اور خوش آمدید کی نغمہ سنجی کررہے تھے۔

ان کی آمد پر دارالعلوم کی ہدایت کے مطابق "جی ٹی روڈ” سے لیکر "لائبریری” تک تمام طلبہ دو رویہ کھڑے تھے۔ سبھی کی روحیں اُسی شخصیت کی دید کی پیاسی تھیں۔ بالآخر جوں ہی وہ ہستی قدم رنجا ہوئی قافلۂ عشاق نے والہانہ استقبال کرتے ہوئے گل پاشیاں شروع کر دیں، محبت و ارادت کی بنا پر عقیدت مندوں کا ازدحام ان کی گاڑی پر اس طرح گِرنے لگا جیسے پروانے بےتاب ہو کر شمع پر گرتے پڑتے ہیں۔ جب اس بے قابو ہجوم کے سبب کافی دیر میں "لائبریری” تک رسائی ہوگئی تو وزیر محترم”دار الحدیث” فروکش ہوئے، محبت بھرے انداز میں طلبہ کو سلام کیا، اس تاریخی گرم جوش استقبال پر شکریہ اداکرتے ہوئے فخریہ صدا لگائی : "دیوبند ہمارا مادرِ علمی ہے” ، پھر حضرت مہتمم صاحب سے حدیث مبارکہ پڑھ کر سند و اجازت حدیث حاصل کی، مبارک سند کو سینے سے لگایا اور پھر ایک وزیرِ دہر "شاگرد” نے ایک محدّثِ عصر "استاذ” کے ماتھے پر بوسا دیا۔

شخصیت‌ بھی دل کش، سراپا جاذب نظر۔ چہرہ آفتابی و نورانی، ریش گھنی و کشادہ پیشانی، سرخ و سپید رنگ، ایمان و یقین کی ترنگ، قد رعنا و دراز، سر تا پا پاک باز، راہِ سیاست کے راست باز، عینِ شباب سے ہی جاں باز، نازک و نرم گفتار، پُر رعب و سلیقہ شعار، عمامہ سنت و روایت کا علمبردار، وزارت خارجہ کے عہدیدار، مدبر و بردبار۔‌ یہ ہے ایسے صفات و کمالات کی حامل ہستی جن کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ نا شکیبا و بے قرار۔

دارالعلوم دیوبند میں لی گئی یادگار تصاویر

نگاہوں کو خیرہ کردینے والی اِس شخصیت کے دیدار کے لیے محبین و عاشقین کا جمّ غفیر، وہ پرکیف نظارہ، "دارالحدیث” کا وہ پرنور و روح پرور منظر اور پورے احاطۂ "دارالعلوم” کا وہ سماں؛ سب دیدنی تھے جو دلوں کے نہاں خانے میں نقش ہو گئے۔ اچانک یہ خبر ملی کہ اتنی بے قابو بھیڑ میں بد نظمی ہو جانے اور دیگر سیکورٹی مسائل کے سبب مجوزہ استقبالیہ تقریب منسوخ ہوگئی، اس خبر نے ہماری آرزوؤں کو چکنا چور کر دیا، یاس و الم کے بادل چھا گئے، پھر بھی میرے دل میں کچھ امید تھی؛ مگر جب منسوخ ہونا یقینی ہوگیا تو راقم بے حد غم آشام و رنجیدہ ہوا۔ کیوں کہ اب مہمان مکرم کی واپسی پختہ ہو گئی تھی۔

بالآخر جوں ہی گاڑی مدنی گیٹ کی طرف بڑھنے لگی تو انہوں نے عقیدت و محبت کے پر مسرت اور بیکراں جزبات کے اظہار کے لیے "سن روف” سے نکل کر دونوں ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے الوداعی سلام لیا اور ہمیں خبر آباد کہ کر لازوال نقوش چھوڑ گئے۔

رہا چمن تو پھول کھلیں گے
رہی زندگی تو پھر ملیں گے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button