ریاست بہار میں اردو……
ریاست بہار میں اردو کی زبوں حالی : تحریر اسجد راہی ایڈیٹر قومی ترجمان
اردو وطن عزیز میں چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے ۔ ہندوستان کی یہ چھٹی بڑی زبان ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کے بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا ۔ اس کے بعد تسلسل کے ساتھ عروج و ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔ 1999 کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
اردو کو بہار میں بھی دوسری ریاستی زبان کا درجہ ملا ہوا ہے اس کی فروغ و ترویج میں ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا،اور بعد میں لالو پرساد یادو کا کردار بھی اہم رہا ہے ۔ اسی ضمن میں اردو ٹرانسلیٹر، اسٹنٹ ٹرانسلیٹر اور اردو اساتذہ کی بحالی وغیرہ بھی عمل میں آئی تھی؛ لیکن حکومتوں کے بدلتے ہی اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ بھی اپنایا گیا۔
وزیر اعلی نتیش کمار نے اس سمت میں پیش رفت کی اور ستائیس ہزار اردو اساتذہ کی تقرری کا اعلان کیا۔ حکومتی اعلان کے بعد عملی جامہ پہنانے کی غرض سے 2013 میں اسپیشل اردو بنگلہ ٹی ای ٹی کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں امیدوار کامیاب ہوئے اور محبانِ اردو کی بے لوث محبت اور برسوں کی جدوجہد کے بعد 2016 میں ہزاروں اردو اساتذہ کی تقرری یقینی ہو سکی ہے۔
خیال رہے کہ ریاست بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ 1981 میں ڈاکٹر جگناتھ مشرا کے دور اقتدار میں ملا تھا ۔اس کے عملی نفاذ کی بنیاد بھی کانگریسی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مشرا نے ہی ڈالی تھی لیکن اس کے بعد دیگر حکومتوں اس کے عملی نفاذ میں پیش رفت کی اور نہ ہی کوئی دلچسپی لی ۔نتیجتاً ہر جگہ دخیل و رائج زبان فقط اردو حلقوں اور اردو سے متعلق اداروں سے دفاتر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔
حکومت ایک طرف ابتدائی تعلیمی اداروں میں اردو اساتذہ کی چند ہزار تقرری کو لیکر (جو اصل ہدف سے کوسوں دور ہے) اپنا پیٹھ تھپتھپا رہی ہے تو وہیں دوسری طرف اصل حقائق کچھ اور ہی ہے ۔ اردو کی زبوں حالی کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ ایک بڑا سوال ہے۔
چند ایک اہم نکات پر نظر ڈالتے ہیں کہ جن کا کردار فروغ اردو کے لئے سب سے اہم مانا جاتا ہے۔
سب سے پہلے اردوڈائریکٹوریٹ، اردو اکادمی،اردو مشاورتی کمیٹی اور اردو کے نام پر بنے سینکڑوں تنظیموں کا ذکر کرنا اہم ہو جاتا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ اور اردو مشاورتی کمیٹی اردو کی مختلف تنظیم سے لے کر اردو اکادمی تک سب کے سب سمینار، سمپوزیم اور مشاعروں کے انعقاد میں مصروف ہیں۔ ہر جگہ ادب اور زبان کے فروغ کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن زبان کے فروغ کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی اس پر کسی کا دھیان ہے۔ کوئی یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ جب اردو جاننے والے ہی نہیں ہوں گے تو اردو ادب کے قدرداں کہاں سے آئیں گے۔ ادب پاروں کو قاری کہاں سے ملیں گے۔ اسکولوں میں اردو اساتذہ کی فقط تقرری ہو جانے سے اردو کا فروغ ہو جائے گا؟ کیا اردو زباں کی مکمل آبیاری اور آبپاشی کے لئے اردو اساتذہ کی تربیت کا کوئی معقول انتظام کیا گیا ہے؟ جس طرح ہندی، انگریزی یا دیگر زبانوں کے لئے تربیت کا انتظام صوبائی کونسل برائے تحقیق تعلیم و تربیت بہار انتظام کرتی ہے؟ جواب نفی میں ملے گا آخر کیوں؟
ابتدائی اسکولوں میں تعلیم و تعلم کا درست نظم ہی نہیں ہو سکے گا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو پڑھنے والے اور تحقیق کار کہاں سے آئیں گے؟ ۔
حکومت کالجوں، یونیورسٹیوں اور اردو مترجم، معاون مترجم اور راج بھاشا کے خالی ہونے والے عہدوں کو پہلے ہی سے پُر کرنے سے کترا رہی ہے۔ برسوں کی سرد مہری کے بعد ابھی حال ہی میں اردو مترجم، معاون مترجم اور راج بھاشا کے خالی عہدوں پر بحالی کے لئے BSEB کے ذریعے آنلائن فارم طلب کیا گیا ہے لیکن بحالی کب تک ہو سکے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے چونکہ حاکم وقت کا ذہن بدلتے دیر نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے ۔
اردو سے متعلق سبھی ادارے صرف ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ زبان کے فروغ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یعنی اردو کی جڑیں سوکھ رہی ہیں اور پتیوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جا رہے۔
٢) گورنمنٹ اسکولوں میں بحال اردو اساتذہ کا ذکر بھی انتہائی اہم ہے چونکہ یہی اصل معمار ہیں جو زبان و ادب اور نسل نؤ کی نہ صرف آبیاری کرتے ہیں بلک قومی و ملی تشخص کو برقرار رکھنے کا ضامن بھی ہیں ۔
ہزاروں اساتذہ تعلیمی اداروں میں تقرر کئے گئے ہیں، نیز دیگر سرکاری دفاتر میں بھی اردو ملازمین بحال ہیں باوجودیکہ اردو زبوں حالی کا شکار ہے۔ اردو کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹتا جا رہا ہے اور یہ ترقی کی راہ طئے کرنے کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے جو محبین اردو کے لئے رنجیدہ خبر ہے ۔
بحال شدہ سینکڑوں اساتذہ بلا شبہ اپنی فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں جو یقیناً قابلِ مبارکباد ہیں؛ لیکن ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیشتر اساتذہ اردو زبان کی جگہ دانستہ طور پر دیگر زبانوں کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں اردو اساتذہ کا یہ عمل قابلِ گرفت ہے کہ معمار قوم کو اپنے منصبی فرائض میں ہو رہی غفلت و خیانت کا افسوس تک نہیں ہے۔ اردو کی نام پر روٹیاں توڑ رہے ہیں اور اسی کی جڑ کو سوکھ کر خود کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں جو شاید کسب حلال کا معیار نہیں ہے ۔
قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ بیشتر اسکولوں سے اردو کتابوں کے لئے کوئی مطالبہ ہی نہیں کیا جاتا ہے جو مستقبل کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔
پہلے اردو یا اہل اردو کے ساتھ جب کوئی ناانصافی ہوتی تھی تو اس کے خلاف اردو نواز اور حق پسند عوامی نمائندے قانون سازیہ میں صدائے احتجاج بلند کرتے تھے اور وہاں سے حکومت کو انصاف کرنے کی ہدایت جاری ہوتی تھی۔ لیکن جب قانون سازیہ کی سطح پر ہی اردو کے ساتھ انصاف نہ ہو رہا ہو تو اہل اردو کہاں جائیں گے؟ دوسری جانب قوم کے معمار کہے جانے والے اساتذہ بھی جب اپنی فرائضِ منصبی میں غفلت برتیں گے تو پھر یہ زبان نئی نسل کے لئے شاید تاریخ بن کر رہ جائے گی۔ جب کسی بھی سطح کوئی پرسانِ حال نہیں ہوگا تو اردو کے چند گنے چنے خدام اردو کو کیسے بچا پائیں گے یا کیسے انصاف دلا پائیں گے؟ اس طرح کے ہزاروں سوالات اہل اردو کی زبان پر ہیں مگر ان کے جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہیں۔
اردو زبان و ادب کے لئے سب سے زیادہ تشویش کی بات اس میں قاری کی تعداد میں اضافہ نہ ہونا ہے ۔ اردو داں طبقہ بالخصوص نوجوان میں اردو کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔ اردو اخبارات کے قاریوں میں اضافہ اطمنان بخش نہیں ہے ۔اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ بہار میں اردو بولنے والوں کی تعداد کوڑوں میں ہے پھر بھی زبان کی فروغ میں مختلف رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں ۔ پرائمری یا مڈل اسکولوں میں بحال شدہ اساتذہ کے لئے وقتاً فوقتاً اردو اساتذہ کی تربیت ضروری ہوتی ہے لیکن اس کے لئے حکومت کی جانب سے تا حال کوئی اقدام نہیں ہوا ہے؛ جبکہ اس کی ذمہ داری فوری طور پر SCERT کو سونپی جانی چاہئے ۔
اردو اساتذہ کو اپنی منصبی فرائض بخوبی نبھانا چاہیے ساتھ ہی اردو ڈائریکٹوریٹ، اردو اکادمی، اردو مشاورتی کمیٹی اور دیگر اردو تنظیموں کو اردو کے تئیں مخلص ہو کر زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری پیاری اور شیرینی زبان کی بدرجہ اولی فروغ ممکن ہو اور آئندہ نسل تک ہم اپنی شناخت اور تہذیب کو منتقل کرنے اور اس کو زندہ و جاوید رکھنے میں کامیاب ہو سکیں ۔