سمستی پور

عورتوں کو اسلام نے بہت ہی باعزت مقام سے نوازا ہے,چودھری عدنان علیگ

عورتوں کو اسلام نے بہت ہی باعزت مقام سے نوازا ہے انکو کسی مخصوص دن یا کسی سیلیبریشن کی کوئی ضرورت نھی کیونکہ انکی عظمت و عزت کے لیے کوئی ایک دن متعین کرلینا خود انکو دئے گیے اسلامی مقام کی توہین ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم” ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے..
ہمیشہ یاد رکھیں کہ برائی کی تشہیر برائی سے زیادہ گناہ ہے۔ کوئی مسلمان عورت دوپٹہ یا پردے سے آزاد ہوسکتی ہے لیکن انتہائی گندہ کردار رکھنے والی کوئی عورت بھی کبھی سڑک پر یہ پلے کارڈ اٹھا کر کھڑی نہیں ہو گی کہ۔۔۔”میں بدچلن،میں آوارہ”۔”ہم بے شرم ہی سہی”۔۔۔”مجھے شادی نہیں آزادی چاھئے”میرا جسم میری مرضی”۔۔۔”ناچ میری بلبل”۔..”نظر تیری گندی پردہ میں کروں”تیری عزت تیرا مسئلہ اگر کسی کو اسلامی حدود سے اختلاف ہے تو یہاں قوانین مردوں نے نہیں خدا نے بنائے ہیں، اسکے باوجود بھی مردوں سے بحث کرنے کے چکر میں خدا کے قوانین پر اس طرح بھڑاس نکالنا کہ سڑکوں پر میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانا دراصل خود کو بے نقاب اور بے پردہ کرنا ہے اسلام نے جو نظامِ حیات بخشا ہے وہ بیحد پاک وصاف ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی کجی کمی کسی بھی اعتبار سے نھی پائ جاتی ہے اس میں آزادئِ حق مساوات اور باہمی معاشرت سب اپنے اپنے حدود میں سب کے لیے بالکل معتدل اور منظم ہیں
جو لوگ میرا جسم میری مرضی کو آزادی کہتے ہیں وہ دراصل فہم وفراست سے کوسوں دور ہیں. یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کے جسم پر کسی کی نھی چل سکتی کیونکہ وہ خدا کی طرف سے انسان کو دنیا میں دی گئی آزادی ہے، چوائس ہے،اس پر خود کی مرضی کا اختیار بالکل درست ہے وہ اسکو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا ہے اور کرتا ہے لیکن وہی یہ بھی صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ہاتھ پیر جگہ کان آنکھ سب گواہ بنیں گے۔.
اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو اسلام کا سبق کچھ اور ہے اور وہ ہے میرا جسم رب کی مرضی اور یہی تمام پیغمبروں کی فرد کو دعوت ہے۔ اور اسی کو قبول کرنے کا بدلہ جنت ہے۔ جو لوگ اس میں مرد و عورت کی تخصیص کرتے ہیں وہ دراصل مفاد پرست اور موقع پرست اور مادیت پرست ہیں جو دین کو اپنے مطابق ڈھال کر اسطرح کے بہیودہ نعرے لگاکر گندے جراثیموں کو معاشرے میں پھیلاتے ہیں. اسلیے بہتر ہے کہ ہماری پڑھی لکھی مائیں بہنیں بیٹیاں اللہ کے قانون کو سمجھیں، اور جانیں، نہ کہ اللہ کے قوانین پر بھڑاس مردوں سے انتقام لے کر نکالی جائے۔جبکہ ایک مسلمان عورت کا حصار ہی اسکا مرد ہے خواہ وہ باپ ہو یا شوہر۔بیٹے کے روپ میں ہو یا بھائی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button