"ہم عصر شعری جہات” میرے مطالعہ کی روشنی میں
قمر اعظم صدیقی ، بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا
زیر مطالعہ کتاب ” ہم عصر شعری جہات ” ڈاکٹر بدر محمدی کی تازہ ترین تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر بدر محمدی صاحب ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ اس تصنیف کے قبل بھی آپ کی تین تصانیف ” بنت فنون کا رشتہ ” (مجموعہ غزل) ” امعان نظر” (تبصرے) اور "خوشبو کے حوالے” (مجموعہ غزل) بھی منظر عام پر آ کر داد و تحسین کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ۔ ” ہم عصر شعری جہات” (تنقیدی مضامین )کا مجموعہ ہے جو چوبیس مضامین پر مشتمل ہے ۔
بدر محمدی صاحب کی تحریروں کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے کہ آپ کی فکری صلاحیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی ہے جس بات کا اندازہ ان کی تحریر "جہت اول” سے ہوتا ہے ۔
"تنقید کا تخلیق سے دیرینہ رشتہ ہے ۔ دونوں کے مابین اٹوٹ نسبت روز ازل سے قائم ہے ۔ خالق کائنات نے جب تخلیق آدم کا اعلان کیا تو فرشتوں نے تائید کے بجائے اپنی محدود فکر و فہم کے مطابق تنقید کی ۔ فرشتوں کے ذریعہ شروع کیا گیا یہ سلسلہ انسانوں نے اپنایا اور آج تک اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہم تنقیدی فیصلے نہیں کرتے ہوں ۔ ہر مقام پر ہر بات میں تنقیدی صلاحیت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ ” ہم عصر شعری جہات” (صفحہ 7)
بدر محمدی کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم حنیف لکھتے ہیں :
” بدر محمدی امتزاج پسند تخلیق کار بھی ہیں اور ناقد بھی ۔ ان کی زیر بحث تنقیدی کتاب کا عنوان” ہم عصر شعری جہات ” اس بات کا مظہر ہے کہ انہوں نے تنقید کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ ان کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کا تعلق شاعری سے ہے ۔
بدر محمدی کی کتاب میں چوبیس شاعر شامل ہیں زیادہ تر شعرا کی غزل گوئی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے مگر غزل کے علاوہ حمد نعت رباعی’ قطعہ’ دوہا اور نثری رشحات ( نظم ) پر توجہ دینے والوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ بدر محمدی نے نے جس صنف کے حوالے سے شعر پر گفتگو کی ہے وہ اس کے ادبی مقام کے تعین میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ "
(صفحہ 14)
” ہم عصر شعری جہات” کے حوالے سے مشہور و معروف ادیب جناب حقانی القاسمی نے” نقد شعر اور بدر محمدی” کے عنوان سے بہت ہی جامع تفصیلی اور معلوماتی تحریر رقم کی ہے جس میں تنقید کے حوالے سے بھی گہرائی میں ڈوب کر سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور مصنف کے حوالے سے بھی طویل گفتگو موجود ہے جو کہ گیارہ صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے حوالے سے حقانی القاسمی یوں رقم طراز ہیں :
” ان کے اس تنقیدی مضامین کے مجموعہ میں بیشتر وہ شعرا شامل ہیں جنہیں بڑے ناقدین کی بہت کم سطریں نصیب ہوتی ہوں گی بلکہ بعض تو وہ ہیں جن سے بڑے ناقدین تو دور کی بات ہے متوسط درجے کے ناقدین بھی واقف نہیں ہیں ۔ اس خصوص میں دیکھا جائے تو بدر محمدی نے بہت سے ذروں کو آفتاب و مہتاب بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور اس میں کوئ شک نہیں کہ یہ شعرا اپنی تخلیقی قوتوں کی بنیاد پر عظمتوں ، شہرتوں کے حقدار بھی ہیں ۔ بدر محمدی نے ان شعرا کی شعری تشکیلات اور تخلیقی تفاعلات سے ایک بڑے طبقہ کو روبرو یا روشناس کرانے کی عمدہ کوششکی ہے ۔” ( صفحہ 18 )
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی بدر محمدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
” بدر محمدی جب تفہیم شعر و ادب کی وادی میں شہسواری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو قطعی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ کوئ شاعر جو اپنی شاعرانہ افتاد کا مظاہرہ کرتا ہوا اتفاق سے تفہیم شعر و ادب کی وادی میں آگیا ہے ۔ اور نثری جملے تراشتے ہوئے شاعرانہ مکر سے کام لے رہا ہے ۔ یہی وہ خوبی ہے جو ان کے ناقدانہ کردار کو اجالتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ بدر محمدی آسان راستوں کا مسافر نہیں ہے ان کی زیر طبع کتاب ” ہم عصر شعری جہات ” کے دیکھنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ادب کے میدان میں مہم جوئی کا شوق ہے ۔ اور وہ تفہیم شعر و ادب کے لیے کسی بھی طرح کا جوکھم اٹھانے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنے ہمعصروں کو اپنے مطالعہ کا حصہ نہیں بناتے ۔ ” (صفحہ26)
ڈاکٹر بدر محمدی نے” سعید رحمانی” کے حمد کے مختلف اشعار کی تشریح بہت ہی عمدہ انداز میں کی ہے جس کے چند اشعار اور تشریح ملاحظہ فرمائیں :
"(وہ دور ہو کے بھی نزدیک تر ہے شہ رگ سے
ہمارے قریٔہ جاں میں قیام اس کا ہے )
( اس کے زیر نگیں ہیں تمام ارض و سما
ہر اک مقام پہ جاری نظام اس کا ہے)
(اس کی یاد کے پرتو سے زندگی روشن
یہ میرا دل بھی تو گویا مکاں اسی کا ہے ) "
تشریح : کہا جاتا ہے کہ خدا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ خدا کیسے دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ جب کوئی دکھائی نہیں دیتا ہے تو خدا ہی دکھائی دیتا ہے ۔ خدا شہ رگ سے بھی نزدیک ہے ۔ وہ قریٔہ جاں میں قیام کرتا ہے ۔ وہ بلند و بالا ہے ۔ بشر کی سونچ سے اس کا مقام اونچا ہے ۔ سعید رحمانی نے خدا کو جاننے اور پہچاننے کا کام کیا ہے ۔ ( صفحہ 35 )
ظفر انصاری ظفر کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں :
” ظفر انصاری ظفر ایک زمانے سے حسینہ غزل کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے خود کو تبعاً اور فطرتاً شاعر ٹھہرایا ہے اور شاعری سے اپنا تعلق دیرینہ بتاتے ہوئے اسے بچپن کا ساتھی کہا ہے ۔ ظفر انصاری کی غزل گوئی سے دلچسپی ہونے اور اچھی غزلیں کہنے کا اعتراف متعدد صاحبان نظر نے کیا ہے ۔ ان کے یہاں موضوعات کی فراوانی ہے مگر سارے خیالات غزل کے لیے موزوں نہیں لہذا انہوں نے دوہا کی طرف رجوع کیا ۔
( صفحہ 90 )
عطا عابدی کی” زندگی زندگی اور زندگی” کے عنوان سے ڈاکٹر بدر محمدی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ عطا عابدی کے حالات اور ان کی شاعری خصوصاً نظم نگاری کے حوالے سے عنوان کے ساتھ اس کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عطا عابدی کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں :
” ان میں خود اعتمادی اور جواں عزم و حوصلہ ہے۔ عطا عابدی کا شمار نامساعد حالات میں نکھرنے والے شعرا میں ہے ۔ ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خوابوں کی طرح ٹوٹے ہوۓ ہیں تاہم ان کی سالمیت برقرار ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے صحت مند تجربات کو ہنر مندی سے پیش کیا ہے ان کی شاعری تجربات کی شاعری ہے شخصیت اور زندگی کا منظر نامہ ہے ۔ وہ اپنے جگر میں جہاں کا درد رکھتے ہیں ۔ ( صفحہ 114 )
” حمید ویشالوی بحیثیت استاد شاعر ” کے عنوان سے اپنی تحریر میں بدر محمدی لکھتے ہیں کہ : ” ویشالی کو کسی زمانہ میں شعر وادب کی ایک زرخیز زمین ہونے کی حیثیت حاصل تھی۔یہاں عبدالطیف اوج کے علا وہ ریاض حسن خاں خیال ، حکیم حادی حسن نایاب ، احسان حسن خاں احسان ، جمیل سلطان پوری ، خیر وسطوی ، حسرت نعمانی اور شیدا وسطوی جیسے شعراء گلشن شعر و شخن کی آبیاری کر چکے ہیں ۔ اس گلستان سخن کو سرسبز و شاداب کرنے والوں میں اور بھی نام اہم ہیں مگر ان میں خصوصیت کا حامل جو نام ہے وہ حمید ویشالوی کا ہے ۔ ویشالی میں اگر داغ کے شاگرد کی سکونت رہی ہے تو حمید ویشالوی جیسے استاد کا تعلق بھی اس دیار سے رہا ہے ۔ لفظیات و موضوعات دونوں اعتبار سے ندرت اور جدت ان کے کمال ہنر سے عبارت ہے لیکن افسوس کہ انہیں وہ شہرت نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے ۔ ” ( صفحہ 135 )
چھوٹی سی تحریر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام تحریروں کا احاطہ کیا جاۓ اس لیے قارئین بقیہ مضامین کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں :
فرحت حسین خوشدل کی دعائیہ نظمیں ، نوید کی نثری نعتوں پر ایک نظر ، طالب القادری کی نعتیہ شاعری ، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات ، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری ، ف س اعجاز کی چند پابند نظمیں ، اندھیرے میں نور کی نظمیں ، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص ، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی ، صبا نقوی کی شعری جمالیات، ضیا عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیاپاشی ، اوج ثریا کے شاعر کا زمینی وابستگی ، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ و آہنگ ، ساۓ ببول کے ، اور اظہر نیر ، لفظ لفظ آئینہ اور اسکی تصویر ، تیکھے لہجے کا شاعر : ظفر صدیقی ، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ ، منظور عادل کا سرمایہ سخن ، مینو بخشی کی اردو شاعری ، "کرب نارسائی” کی شاعرہ : شہناز سازی ان تمام عنوان سے اس کتاب میں مضامین شامل ہیں ۔
ہم عصر شعری جہات میں بدر محمدی نے معروف کم معروف اور غیر معروف تمام طرح کے شعرا اور ان کے کلام کے حوالے سے بات کی ہے اور ان کو قارئین سے رو برو کرا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے بدر محمدی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ان کی اس کاوش کو ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جایے گا اور باقی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبول ہوگی ۔
216 صفحات پر مشتمل یہ کتاب قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے جس کی قیمت صرف 138 روپیہ ہے ۔ کتاب کا سر ورق بھی دلکش ہے بیک کاور پر پروفیسر نجم الہدی ، سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور کے تاثرات قلمبند ہیں ۔ پہلے فلیپ پر بدر محمدی کے ” کوائف ” موجود ہیں جبکہ دوسرے فلیپ پر شفیع مشہدی ، صدر نشین صابق اردو مشاورتی کمیٹی حکومت بہار کے تاثرات درج ہیں ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر بدر محمدی نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنہوں نے ان کو تنقید کی طرف راغب کیا ہے ۔ حصول کتاب کے لیے مندرجہ ذیل پتے پر قارئین رجوع کر سکتے ہیں ۔
بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4 ، منظور عادل 28 بی میکلو ڈاسٹریٹ کولکاتا 17، تنظیم ارباب ادب چاند پور فتح ویشالی یا پھر مصنف کے موبائل نمبر 9939311612 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔