ہمیں مسجد صدا دے رہی ہے مجھے آباد کرو
محمدامام الدین ندوی، مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی
میں مسجد ہوں۔اللہ کا پاک گھر ہوں۔میری تاریخ بہت قدیم ہے۔میں ایمان والوں کی عبادت گاہ ہوں۔پورے عالم میں میں بکھری ہوں۔جہاں بھی چند ایمان والے قیام پذیر ہوتے ہیں مجھے تعمیر کرتے ہیں۔ہمارا سلسلہ بیت اللہ سے جڑا ہے۔بیت المقدس ہو یا مسجد نبوی، سب ہمارے رشتہ دار ہیں۔مجھے شعائر اسلام بھی کہا جاتا ہے۔میں ایمان والوں کی شناخت ہوں۔میرے فلک بوس منارے دور سے میرا پتہ بتاتے ہیں۔اللہ کے بندے اللہ کی بندگی کے لئے مجھے تلاش کرتے ہیں۔میرا پتہ پوچھتے ہیں۔
میری تاریخ نئی نہیں ہے۔مجھے ہر دور میں ہر نبی کی امتی نےاللہ کی عبادت کے لئے مجھے تعمیر کیا۔
سب سے آخر میں محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپ نے میری عزت میں چار چاند لگا دیا۔آپ مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے ایک مسجد کی تعمیر کی جسے دنیا مسجد نبوی کے نام سے جانتی ہے۔آپ صلعم نے سارے کام مسجد نبوی سےہی شروع کئے۔میں عبادت گاہ بھی بنی۔مشورہ گاہ بھی بنی۔قیدی کو بھی میرے اندر ٹھہرایا گیا۔جنگی تیاری بھی کی گئی۔حاجت مندوں کی حاجت بھی میری گود میں پوری کی گئی۔صحابہ بسا اوقات آرام کے لئے مجھے ہی استعمال کرتے۔اعتکاف کے لئے میرا ہی سہارا لیاگیا۔
میں کچی تھی پھر بھی لوگ مجھے اپنے سجدوں سے زینت بخشتے تھے۔
کبھی درس حدیث کی محفل سجتی تو کبھی درس تفسیر کی۔کبھی فقہاء مسائل کا استنباط کرتے اور طلبہ اسے ذہن نشیں کرتے اور میں ہی محور بنتی۔میری آبادی ہی ان کی آبادی کا ذریعہ تھی۔مجھے ویران کرنا انہیں گوارہ نہ تھا یہی وجہ تھی کہ ذکر واذکار،وعظ ونصیحت،تلاوت قرآن پاک،کے حلقے لگتے۔وقت گذرتا گیا۔لوگوں سے دینداری رخصت ہوتی گئ۔ بےدینی کا غلبہ ہوتا گیا۔دین کی وقعت کم ہوتی گئی۔رسم ورواج پھیلنے لگے۔نمازی کم ہوتے گئے۔میں ویران ہوتی چلی گئی۔میری تعمیر ہر محلہ میں ہوتی رہی۔مجھے ہر قسم کے رنگ وروغن سے سجایا جاتا رہا۔طرح طرح کے قیمتی اور دیدہ زیب پتھر لگتے رہے۔قمقمے اور دیگر اشیاء زینت سے مجھے لوگ مزین کرتے گئے۔نمازیوں کے لئے ہر طرح کی سہولتیں مہیا کی گئیں۔
جاڑے میں وضو کے لئےگرم پانی کا انتظام ہوا۔عمدہ اور قیمتی قالین بچھے۔ ہیٹر کا بھی نظم کیا گیا۔گرمی میں کولر کا بندوبست کیاگیاتاکہ نمازیوں کو پریشانی نہ ہو۔کہیں بجلی نہ چلی جائے اس کے لئے جنریٹر،ان ووٹر،سولر،لگوائے گئے۔اتنی سہولتوں کے باوجود لوگ مجھے آباد نہ کرسکے۔بس گنتی کے وہی چند افراد۔
میں مظلومانہ زندگی گزارتی رہی۔لوگ میرے ساتھ سوتیلا معاملہ کرتے گئے۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ مجھے خانہ خدا کے نام سے جانتے تھے۔مجھے اپنے سجدوں سے سجاتے تھے۔جب ذات وبرادری،اور مسلکی منافرت نہیں تھی۔ جوں جوںمسلکی،ذاتی،قبائلی،علاقائی،عصبیت بڑھتی گئی میری بھی تقسیم ہوتی گئی۔میرے کلیجے پے بورڈ آویزاں کئے گئے۔میرا نام بھی بدلا گیا۔سنی جامع مسجد،مسجد اہل حدیث،تیغی، چشتی،وغیرہ وغیرہ۔ان ناموں کے ساتھ یہ قید لگائی گئی کہ فلاں فرقے والے ،فلاں مسلک والے اس مسجد کا قطعا رخ نہ کریں۔ورنہ انہیں ذلیل ہونا پڑے گا۔مجھے تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب میرے یہاں کسی دوسرے مسلک والے قدم رکھتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اس کے جانے کے بعد جس مسلک کی مسجد ہوتی ہے اس کے امام چند جاہل مقتدی کو ورغلا کے مجھے پاک کرواتے ہیں۔مجھے دھلتے ہیں۔
لگتا ہے گویا کسی نجس العین نے میرے دامن عفت کو پلید کردیا ہے۔جبکہ سب کلمہ گو ہیں۔ان جاہلوں نے مجھے برباد کردیا۔نہ خود مجھے آباد کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو آباد کرنے دیتے ہیں۔ایساوہ صرف مادی منفعت کی خاطر کرتے ہیں۔مجھے آباد تو مسلمان ہی کرسکتے ہیں۔
میری تعمیر پر ثواب کے بڑے بڑے وعدے کئے گئے ہیں۔”من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا۔جس نے اللہ کے لئےمسجد تعمیر کی اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا "۔اس لئے بڑی کثرت سے مجھے تعمیر کی جاتی ہے۔پر نمازی نہیں بنایا جاتا جس پر مجھے رونا آتاہے۔محلے کے دوچار معمر حضرات اور غیر شعور چند بچے آجاتے ہیں جومجھے تماشاگاہ سمجھتے ہیں۔دو چار جوان آبھی گئے تو دنیا کے سارے قصے یہیں شروع کردیتے ہیں۔
پورا محلہ لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔میرے سامنے سے لوگ گزرتے بھی ہیں نماز کا وقت بھی ہوتا ہے پر مجھے آباد کرنے کی بجائے چوک چوراہوں،گپ شپ کی محفلوں،دوست واحباب کی مجلسوں کو آباد کرتے ہیں۔کاش لوگ میرے درد کو سنتے۔میری آہ پر توجہ دیتے۔اگر جمعہ نہ ہوتا تو بہت سے لوگ میری طرف جھانکتے بھی نہیں۔جمعہ کو تھوڑا اچھا لگتا ہے۔کچھ لوگ مجھے یاد کرلیتے ہیں، مجھے ویران تو میرے چاہنے والے ہی کرتے ہیں۔مجھ سے بےرخی، بےرغبتی،کنارہ کشی،تو مسلمان ہی کرتےہیں۔ جبکہ مسلمانوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے آباد کریں۔مشرکوں سے اس کی امید نہیں ہے۔خود قرآن اس پر شاہد ہے۔”ماکان للمشکرکین ان یامروا مساجداللہ شاہدین علی انفسھم بالکفر اولئک حبطت اعمالھم وفی النار ھم خالدون "(التوبہ آیت 17)
ترجمہ مشرکوں کا حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کے گھر کو آباد کریں (خادم بنیں)جبکہ وہ خود کفر کا اقرار کرتے ہوں یہی لوگ ہیں جن کے سارے اعمال ضائع ہوگئے اور ہمیشہ یہ لوگ جہنم میں رہیں گے۔
مجھے آباد کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں پر ہے اسے بھی قرآن نے واضح کردیا ہے۔”انما یعمر مساجداللہ من آمن باللہ والیوم الآخر واقام الصلوۃ وآتی الزکاۃ ولم یخش الااللہ فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین(التوبہ آیت ۱۸)
ترجمہ” اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی آباد کرسکتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں،اور نماز قائم کریں،اور زکوۃ ادا کریں،اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں،امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں”
جب ۶/(چھ)دسمبر۱۹۹۲ء کو ظالموں نے مجھے شہید کرڈالا،اور میرے وجود کو ختم کردیا تو اس وقت مسلمانوں نے خوب مرثیے پڑھے۔نوحہ خوانی بھی خوب کی۔جلسےبھی کئے۔جگہ جگہ مظاہرے بھی کئے۔لچھے دار تقریر یں ہوئیں۔ میرے ہمدردوں نے عدالتی سہارے بھی لئے۔لمبےعرصےتک مقدمے بھی چلے تمام شواہد میرے حق میں آنے کے باوجود ظالم حکمرانوں کی بےزبان عدالت کی حرمتوں کو پامال کرنے والے منصفوں،وکیلوں،نےمیرے خلاف فیصلے دئے۔میرے سینے پر مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔جبکہ سب جانتے ہیں کہ میں جہاں پر بنائی جاتی ہوں میراوجود فرش سے عرش تک ہوتا ہے اور تاقیامت باقی رہتاہے۔میرے اوپر مندر تعمیر ہورہی ہے۔کاش میری شہادت سے پہلےمیری حفاظت کی فکر کیجاتی توشاید یہ حادثہ پیش نہیں آتا ۔ان دنوں ظالموں کی نگاہیں گیان واپی مسجد پر مرکوز ہیں۔وہاں بھی میرے اوپر خطرات منڈلا رہی ہیں۔اگر یہاں پر مجھے تحفظ نہ ملا تو ظالموں کے حوصلے بلند ہوتےچلے جائیں گے اور وقتافوقتا کسی نہ کسی بہانے سے مجھے شہید کرتے چائیں گے۔
مسلمانوں مجھے اپنے سجدوں سے آباد کرو اپنے ایمانی غیرت کو بیدار کرو۔اللہ کے گھر کی لاج رکھو۔اس کی حرمت کو بچانے کی فکر کرو۔جس طرح نبی کے زمانے میں مجھے آباد کیا گیا اسی طرح آج بھی مجھے آباد کرو۔
مجھے بے یارو مددگار مت چھوڑو۔میری آبادی ہی پر تمہاری، تمہارے گھر ومحلے کی آبادی منحصر ہے۔ اپنی شناخت وپہچان باقی رکھنے کے لئے مجھے ویران نہ ہونے دو۔
میں زندہ ہوں تو تم بھی زندہ ہوذراماضی ) چچچچ)) رطرف پلٹو۔اسپین میں میرے ساتھ کیا ہوا۔مجھے اسطبل میں تبدیل کیا گیا۔شراب خانوں ،قہوہ خانوں کی زیبت بنائی گئ۔مختلف کلبوں میں مجھے بدلا گیا۔میں چیختی چلاتی رہی ۔روتی بلکتی رہی۔میں اپنی عفت کو بچانے کے لئے پورا زور لگائی۔میں نے اپنوں کو بھی پکارا۔غیروں کوبھی آوازچ دی پر میری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔میری آہ وبکا فضا میں دب گئی۔
میں نےاپنی آغوش میں مفسرین،محدثین،فقہاء، ادباء، شعراء، فلاسفی،کوپالا۔لیکن جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیاتو میرا وجود خطرے میں پڑگیا۔ اور میرے ساتھ ساتھ ان کی داستان بھی مٹ گئی۔
آج کے پر فتن دور میں ہر طرح سے میری حفاظت کرو۔داخلی وخارجی تمام سازشوں کے دفاع کے لئے کمر بستہ ہوجاؤ۔جس طرح جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لئےہر خردوکلاں آتے ہو اور مجھے آراستہ کرتے ہو پنج وقتہ نماز میں بھی وہی محبت،عقیدت،جوش وجذبہ دکھاؤ۔اپنے طور پر مجھے آباد کرو۔ان شاءاللہ غیروں سے میں محفوظ رہوں گی.مجھ سے کتنی محبت ہے اس کا اندازہ نماز فجر میں تمہیں ہوجائے گا۔کہیں صرف امام ومؤذن،تو کہیں دوچارمقتدی۔سردیوں کے موسم میں تو بیچارے صاحب۔اور جہاں امام نہیں وہاں تو فجر میں بسااوقات اذان اور نماز بھی نہیں ہوتی۔لوگوں آنے رویے کو بدلو۔یقینا عنداللہ جواب دہ ہوگے۔اللہ تم سب کو مجھے آباد کرنے کی توفیق دے آمین
مورخہ ۲۵/۵/۲۰۲۲
مطابق ۲۳ شوال ۱۴۴۳ھ
بروز شب جمعرات