ہاں! سیاست ہی ہے امراض ملت کی دوا!
موضوع دیکھ کر بھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے پڑھنے کی ضرورت ہے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تب معلوم ہوگا کہ ہاں موضوع کا انتخاب صحیح ہے،، اب تک زیادہ تر لوگوں نے یہی لکھا ہے کہ تعلیم ہی امراض ملت کی دوا ہے، تعلیم ہی ہر مسائل کا حل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم و سیاست دونوں ہے تو یہ امراض ملت کی دوا ہے ، امراض ملت کا علاج ہے اگر اس سے انکار ہے تو پھر بتائیں کہ جب تعلیم ہی ہر مسائل کا حل ہے تو پھر تعلیم اتنی مہنگی کیوں؟ جب تعلیم ہی ہر مسائل کا حل ہے تو پھر کبھی کبھی اساتذہ کی تنخواہیں کیوں رک جاتی ہیں؟ قارئین کرام تعلیم بالکل ضروری ہے مگر تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے اور سیاست بھی ضروری ہے کیونکہ درسگاہوں میں پڑھانے کے لئے تعلیم یافتہ شخص کی ضرورت ہے تو درسگاہ کی تعمیر کے لئے حکومت سے منظوری کی ضرورت ہے ر جسٹریشن کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام جہاں ہوتے ہیں وہ سیاست کے گلیارے ہیں،،
تعلیم و تربیت اور سیاست یہ تینوں انتہائی اہم ترین شعبے ہیں ،، تعلیم کا مقام یہ ہے کہ کسی انجینئر کا بیٹا بغیر پڑھے انجینئر نہیں ہوسکتا، کسی آئی اے ایس و آئی پی ایس کا بیٹا بغیر پڑھے آئی اے ایس و آئی پی ایس نہیں ہوسکتا، کسی عالم کا بیٹا بغیر پڑھے عالم نہیں ہوسکتا،، اور تربیت کا اثر یہ ہے کہ ایک پیر کا بیٹا بغیر پڑھے پیر ہوجاتا ہے، ایک لیڈر کا بیٹا بغیر پڑھے لیڈر بن جاتا ہے،، اور سیاست کا مقام یہ ہے کہ خود مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں جو طبقہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر دن رات عبادت میں مصروف رہے تو وہ جان لے کہ اس کے سامنے ایک دن عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسلہ بھی پیدا ہوسکتاہے،، اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ عبادت گاہوں کا تحفظ چاہتے ہو تو سیاست میں حصہ لینا ہوگا، ہجومی تشدد سے بچنا ہے تو سیاست میں حصہ لینا ہوگا، حکومت، ملازمت میں حصہ داری درج کرانا ہے تو سیاست میں حصہ لینا ہوگا یعنی دنیاوی مسائل کا حل صرف سیاست ہے-
جب انسان دنیا میں آتا ہے تو سادے کاغذ کی طرح ہوتاہے اور سادے کاغذ پر جو چاہے لکھا جا سکتا ہے اب یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیا لکھتا ہے لیکن ہاں جو لکھا جائے گا وہ کوئی نہ کوئی ضرور پڑھے گا اور جب پڑھے گا تو تبصرہ بھی ضرور کرے گا، بحث و مباحثہ بھی کرے گا یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی دوسرے کو نہ پڑھائے لیکن اس تحریر پر کچھ نہ کچھ غوروفکر تو ضرور کرے گا ،، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ غور وفکر کرنے کے بعد نظر انداز کردے مگر کوئی یہ کہے کہ کچھ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے کاغذ کا رنگ بدلنے والا نہیں ہے،، تو یہ بات غلط ہے،، کیونکہ کاغذ کا رنگ ضرور بدلے گا اور سادے کاغذ کا رنگ بدلے گا تو وہ اور بھی زیادہ خراب نظر آئے گا اور وہ خراب کاغذ جب کسی کے ہاتھ میں جائے گا تو وہ ضرور کہے گا کہ کاش اس پر کچھ لکھا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا،، دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو لکھنے کے باوجود کاغذ خستہ حالی کاشکار ہوگیا تو یہ افسوس ہوگا کہ نہ جانے اس کاغذ پر کیا لکھا تھا اور تحریر جوں کی توں موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے تو بھی سوچنے اور غور وفکر کرنے کی بات ہے کہ اگر اس پر عمل کیا گیا ہوتا تو ہوسکتا ہے اس کا کچھ فائدہ ملا ہوتا،، تحریر پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن میں آسکتی ہے کہ یہ بات ایسے لکھ دی گئی ہے،، اگر ایسے لکھا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا-
«قابل غور»
1947 میں ملک آزاد ہوا تحریک آزادی میں سبھی مذاہب، سبھی برادری نے حصہ لیا آزادی کے بعد ملک کا آئین بنا اور آئین نے سب کے تحفظ کی ضمانت دی ہے ، ووٹ دینے کا حق دیا ہے،، تو ووٹ مانگنے کا بھی حق دیا ہے،، بھارت کل مذہبی، کل مسلکی، کل برادری کا حسیں سنگم ہے سب کو سیاست میں حصہ لینے کا حق ہے اسی لیے ملک میں پیدا ہونے والے ہر سماج کے لوگوں نے مذکورہ کاغذات پر غوروفکر کیا تو کہا کہ۔ اس میں ایسی تحریریں ہیں کہ جس پر عملدرآمد کرنے سے ہمیں ماسٹر چابی مل سکتی ہے ،ہم سیاست، ملازمت، وزارت اور شعبہ تعلیمات میں اپنی حصہ داری درج کراسکتے ہیں اور وہ سماج کی بنیاد پر سرگرم عمل ہوئے،، یعنی ہر سماج کے لوگوں نے اپنے اپنے سماج کو بیدار کرنا شروع کیا اور وہ بیدار ہوتے گئے اور متحد و منظم ہوتے گئے اقتدار کا ذائقہ تک چکھ لیا اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس کاغذ کو ابھی تک پڑھا ہی نہیں یا کہ پڑھا ہے تو نیک نیتی کے ساتھ نہیں پڑھا ہے ، کچھ لوگوں نے پڑھا ہے تو کسی کو استاد مان کر اور استاد نے پڑھایا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک صفحہ چھوڑ کر پڑھایا ہے شاگردوں کو یقین ہے کہ استاد کی بات غلط ہو ہی نہیں سکتی،، انہوں نے سیاست میں بھی عقیدت مندی کا اظہار کیا اور استاد انہیں سبز باغ دکھاتا رہا اور کبھی کبھی اس باغ کا پھل بھی دے دیا اور شاگرد اس پھل کی میٹھاس میں مست مگن ہو گیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ کاش میرا پورا سماج اس پھل کا ذائقہ چکھ لیتا ،، بس اپنے لیڈروں کی تعریف میں مصروف نظر آتا ہے یعنی جو سیاست میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جو سیاست میں ہے اس پر افسوس ہوتاہے کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں نہیں اپنایا کہ پارٹی اپنی ہو، جھنڈا اپنا ہو، پارٹی کے کارکن اپنے ہوں، پارٹی کا دستور العمل اپنا ہو، قیادت اپنی ہو، لیڈر اپنا ہو تاکہ ملازمت اور حکومت میں ہماری بھی حصہ داری ہو،، یہ بات بھی واضح ہے کہ چاہے کوئی بھی پلیٹ فارم ہو ، کوئی بھی پارٹی ہو اس کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوتاہے مسلم سیاسی لیڈروں کو خود اپنی پارٹی کے اصول معلوم نہیں ہیں بس ایک اصول معلوم ہے کہ پارٹی صدر اور اعلیٰ کمان کی گل پوشی کرنا ہے اور قصیدہ خوانی کرنا ہے بسا اوقات کچھ جوش آبھی جاتاہے تو اظہار کرنے پر پارٹی میں ان کا قد چھوٹا کر دیا جاتاہے اس موقع پر بھی مسلم سیاسی لیڈروں کو سمجھ میں نہیں آتا یا احساس نہیں ہوتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے سماج کو متحد کرنا چاہیے اور آئین کے مطابق حاصل حقوق کی بنیاد پر سیاسی طور پر طاقتور ہوناچاہیے تاکہ جو سیاسی پارٹیاں سیکولر ازم کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اور جب وقت آتا ہے سیکولر ازم کا ثبوت دینے کا تو منافقانہ راستہ اختیار کرتی ہیں تو ان کو بھی اپنی اوقات معلوم ہوسکے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو پارٹی کے اندر ڈاٹ پین کی نوک کی طرح رکھتی ہیں اوپر انگوٹھے سے دبانے پر جس طرح ریفل کی نوک نظر آتی ہے باقی وقت میں نظروں سے غائب اسی طرح ایک پنجسالہ میں صرف چھ ماہ کے لئے مسلم لیڈروں کے چہروں کو ظاہر کیا جاتا ہے اور مسلم لیڈران پھر بھی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن بی جے پی نے تمام سیاسی پارٹیوں کے سیکولر ازم کے جھوٹے نقاب کو نوچ کر پھینک دیا اور پوری طرح بے نقاب کر دیا اور یہی حقیقت ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھتی ہیں ، کرکٹ کے میدان کا بارہواں کھلاڑی سمجھتی ہیں-
«ووٹ کی طاقت»
ہم ووٹوں کی اہمیت اور طاقت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور ووٹوں کی اہمیت کو اچھے ڈھنگ سے بتایا بھی نہیں جاتا جو مسلم سیاسی لیڈر آتا ہے تو وہ اتنی جذباتی تقریر کرتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ جنگ کے میدان میں لے جانا چاہتا ہے ،، جھلر جھلر تلوار چلانا چاہتا ہے حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کیا ہے اور جمہوریت کے فوائد کیا ہیں یہ بتایا جائے، جمہوریت میں جو قوم سیاسی طور پر بیدار ہوتی ہے وہ صفحہ ہستی پر نمایاں ہوتی ہے اور جو قوم جمہوریت میں بھی سیاسی شعور سے محروم ہوتی ہے وہ صفحہ ہستی سے گم ہوجاتی ہے،، جب آئین کو ترتیب دیا جارہا تھا تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے جہاں اپنے سماج کا درد محسوس کیا وہیں انہوں نے مسلمانوں کا بھی درد محسوس کیا اور مسلمانوں میں جو طبقات ریزرویشن کے حقدار تھے انہیں بھی وہ سہولت دی تھی جو سہولت آج دلت سماج کو مخصوص انداز میں ملتی ہے مگر کانگریس کی حکومت تھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دلت زمرے میں آنے والے مسلما نوں کو اس سہولت سے محروم کردیا گیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امبیڈکر جی نے درد محسوس کیا تو سہولت دی اور جب اسی سہولت سے محروم کیا گیا تو بڑے بڑے مسلم سیاسی لیڈران کے سینوں میں درد کیوں نہیں اٹھا؟ اپنی زبانیں کیوں بند رکھیں؟ اور جب اس وقت خاموش تھے تو آج دلت مسلم کی بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی اسی سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بھی زبردست نقصان پہنچا ہے اور جہاں مسلمانوں کے چھوٹے طبقے کی بات آتی ہے تو یہ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے ،، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں اسلام میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے وہیں مسلمانوں میں چھوٹا بڑا ہے، اونچ نیچ، بھید بھاؤ ہے اگر مسلم لیڈران نے نیک نیتی اور سچائی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو مسلمانوں کے اندر حلال خور، نٹ، بنجارہ، بھانٹ وغیرہ جیسی برادریوں کے حالات میں بھی تبدیلی ضرور آئی ہوتی آج بھی بڑے بڑے امراء، رؤساء، جانشین، سجادہ نشین، سیاستداں ان سے دور ہی رہتے ہیں اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اسی درد کو محسوس کیا تھا،، جہاں ایک طرف سبھی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈرایا اور بی جے پی و مسلمانوں کے درمیان زبردست کھائی پیدا کرائی اور خود اپنے پورے خاندان کے ساتھ اسمبلی و پارلیمنٹ میں پہنچتی رہیں اسی بدنیتی کی دین ہے کہ آج اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی سے پوری طرح خوفزدہ ہیں اور اقتدار سے باہر رہنا بڑا مشکل ہورہاہے تو کبھی مسلمانوں کے مسائل پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو کبھی ملی تنظیموں اور جماعتوں سے تعلق ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے در حقیقت یہ اقتدار سے دوری کی بوکھلاہٹ ہے۔