اہر حسن، قلمی نام مظہر وسطوی(ولادت ۷؍ دسمبر ۱۹۸۶) بن ماسٹر محمد انظار الحسن حسن پور وسطی مہوا، ویشالی کے رہنے والے ہیں، شعر وسخن کا ذوق دادا، داؤد حسن صاحب (م ۲۶؍ فروری ۲۰۱۸ئ) سے ورثہ میں ملا ہے، ان کے چچا انوار الحسن وسطوی کا شمار ہندوستان کے بڑے ادیب ،قلم کار، تنقید نگار اور اردو ادب کے بڑے خادموں میں ہوتا ہے، مظہر وسطوی قوس صدیقی پھلواری شریف کے شاگرد ہیں، درس تدریس کے ساتھ مشق سخن جاری ہے ، اصلا غزل کے شاعر ہیں، حمد ونعت اور نظم بھی کہہ لیا کرتے ہیں، ان کی شاعری پر ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ ۲۰۱۸ء میں مل چکا ہے، بڑوں کی حوصلہ افزائی نے شعرو سخن کے میدان میں ان کے حوصلے کو بلندی عطا کی ہے، اور اسی بلند حوصلگی کا ثبوت ان کا یہ شعری مجموعہ’’پئے تفہیم‘‘ ہے۔
پ
ئے تفہیم کی شعری کائنات ایک حمد، دو نعت، پینسٹھ(۶۵) غزلوں اور سات نظموں پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ شاعر استاذ ذی وقار محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے، نثری حصہ میں مظہر وسطوی کے حرفِ ابتدا کے ساتھ ڈاکٹر بدری محمدی کا ’’مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی‘‘ اور نذر الاسلام نظمی کی ’’پئے تفہیم -میری نظر میں ‘‘ بھی شامل کتاب ہے، ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات کی اس کتاب کے بتیس (۳۲) صفحات اس پر صرف ہوئے ہیں، ڈاکٹر بدر محمدی نے وسیع کینوس میں مظہر وسطوی کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور اس کے در وبست کو پیش کیا ہے ، جس سے قاری مظہر وسطوی کی شاعری سے اپنے کو قریب محسوس کرتا ہے، نذر الاسلام نظمی اچھا لکھتے ہیں، مختصر لکھنے کے عادی ہیں، بہت دنوں سے مضمون نگاری سے اپنا رشتہ توڑ رکھا تھا، مظہر وسطوی کی شاعری نے ان کو لکھنے پر مجبور کر دیا، یہ خود اپنے میں بڑی بات ہے، اس حوالہ سے اہل ادب ان کے شکر گذار ہیں، خواہش ہوتی ہے کہ وہ لکھتے رہیں اور اپنی ادبی ، فنی اور تنقیدی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچالیں۔
اردو ڈائرکٹوریٹ ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے جزوی مالی تعاون سے اس کتاب کی طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ہوئی ہے ، کاغذ ، طباعت، جلد اور سر ورق خوبصورت ہے ، البتہ پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں، نثر میں پروف کی غلطی سے بڑا فرق نہیں پڑتا، لیکن شعری مجموعے میں پروف کی غلطی قافیہ کو تنگ اور شعر کواوزان وبحور سے خارج کرنے کا کام کرتی ہے، اس لیے اس پر توجہ کی خاص ضرورت ہوتی ہے،کتاب ایک سو برانوے (۱۹۲) روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ، دفتر کاروان ادب حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی 844122سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مظہر وسطوی جوان سال ہیں، جوانوں کی ذہنی ترنگ عموما عشق ومحبت ، وارفتگی ، شوقِ فراواں کے گردگھومتی رہتی ہے، داغ اسکول کی طرح کاکل وگیسو اور سودائے قلب میں پنہاں محبت کا تذکرہ اب اس انداز میں نہیں ہوتا، کیوں کہ بقول فیض ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘، یہ غم روزگار ہمارے دور کے شاعروں کو راتوں کی اختر شماری تک نہیں لے جاتا، وہ محبت کرتا ہے ، لیکن اتنا ٹوٹ کر بھی نہیں کہ مجنوں کی طرح صحرا نوردی پر اتر آئے اور فرہاد کی طرح دو دھ کی نہر نکالنے کی سعی لا حاصل میں اپنی توانائی لگا دے، پئے تفہیم کے شاعر مظہر وسطوی کے یہاں بھی محبت کی روداد ملتی ہے، تخیل کی وادی میں مٹر گشتی کرتے ہوئے وہ بہت کچھ سوچتے ہیں اور اسے شعر میں ڈھالتے رہتے ہیں، ان کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میر وغالب کی صدی سے بہت دور آکر اپنی صدی میں جی رہے ہیں۔
شاعر مستقبل کا پیغام بر ہویا نہیں وہ اپنے دور کا پیام بر ہوتا ہے، وہ جس دور میں جیتا ہے اس کی پوری عکاسی اس کی شاعری میں در آتی ہے، اسی کو ادباء عصری حسیت سے تعبیر کرتے ہیں، مظہر وسطوی کی شاعری میں عشق ومحبت کے ساتھ عصری حسیت پر مشتمل اشعار بھی ملتے ہیں، وہ اپنی شاعری میں عدالت کی بے حسی کا رونا روتے ہیں اور گناہ گاروں کو فرشتہ مان لینے پر ماتم کرتے ہیں، جب وہ شہروں کے احوال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’ یہاں مظلوم لوگوں کی کراہیں بات کرتی ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ زمانے کی روش اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ترقی کوتھامے عذاب آرہا ہے، لوگوں نے آج جس کو مسیحا سمجھ لیا وہ تو کبھی انسانیت کا محافظ بھی نہیں رہا ہے ۔
مظہر وسطی نے عصری حسیت کے ساتھ مذہبی اقدار واطوار کو بھی موضوع سخن بنا یا ہے، وہ کلام اللہ پڑھ کو پھونک دینے سے مدت تک پانی پر اثر رہنے کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں، نعرہ صلی علیٰ کو جہاں میں اپنے وجود وبقا کی ضمانت سمجھتے ہیں، ردائے فاطمہ اور رنگ فاطمہ کی بات کرتے ہیں تو تخیلات میں اسلامی افکار موجزن ہوتے ہیں، مذہبی روایات اور تاریخی واقعات کو شعر بند کرنے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کی دینی اور مذہبی شعور کو بتاتا ہے۔
مظہر وسطوی اپنی خودی اور خود داری کی حفاظت کرنے کے بھی قائل ہیں، گو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
بزرگوں سے سیکھا ہے طرزِ تمدن
انا کو سرراہ سنگسار کرنا
لیکن وہ اپنی ’’انا‘‘ کو سنگسار نہیں کرتے وہ اسے اپنی شناخت قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرا محبوب جو مجھے سزادیتا ہے اس کی وجہ سے میری احساس انا مرنے نہیں پاتی، وہ اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔
’’پئے تفہیم‘‘ کے اجراء کی باوقار تقریب مہوا میں منعقد ہوئی تھی، اس موقع سے جو پیغام میں نے بھیجا تھا اس پر اس تبصرہ کا اختتام کرتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ
’’ آپ کی شاعری کو آپ ہی کے ذریعہ بار بار سن چکا ہوں، آپ کی شاعری بھی اچھی ہے اور پڑھنے کا انداز بھی عمدہ ہے، آپ اگر اپنی شاعری کو بے جوڑ سا ختیات کے خبط بے اصول تشکیلیات کے فتنے، ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی گروہ بندی سے بچا سکے تو آپ کی شاعری دلوں تک پہونچے گی، آپ اس سے بڑا کام لے سکیں گے، آپ کے پاس توانائی بھی ہے اور وافر ذوق سفر بھی۔میری نیک دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔