میرا نقطۂ نظر۔۔۔۔۔۔
میرا نقطۂ نظر
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب محتاج تعارف نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں؟ تو میں ایک جملہ میں جواب دوں گا کہ مفتی صاحب ایک ایسے انسان ، ایک ایسے عالم دین، ایک ایسے منتظم کار، ایک ایسے صاحب طرز انشاء پرداز و صحافی اور قلم کار ہیں جنہوں نے ایک انسان کو انسان بن کر دکھایا۔ ایک عالم دین اور منتظم کی حیثیت سے اپنی الگ شناخت بنائی اور ایک انشاء پرداز، صحافی اور قلم کار کی حیثیت سے اردو ادب و صحافت میں اپنی ایک الگ راہ متعین کر کے نئی نسل کو یہ بتایا کہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر ایمانداری کے ساتھ چل کر ہی ہم قوم و ملت کو کچھ دے سکتے ہیں۔ مفتی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کبھی بھی ادبی موضوع پر جب وہ کچھ لکھتے اور بولتے ہیں تو ان کی تحریر پڑھنے کے لائق اور تقریر سننے کے لائق ہوتی ہے۔میں نے کئی ادبی اور مذہبی جلسوں میں مفتی صاحب کی تقریریں سنی ہیں۔ کسی بھی موضوع پر ان کی گفتگو مدلل، شگفتہ اور پراثر ہوتی ہے۔ یہ ملکہ انہیں قدرت نے عطا کیا ہے۔ وہ انتہائی مصروفیات کے باوجود پوری ایمانداری اور یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی کے قلم میں بلا کی روانی ہے۔ وہ دینی و ملی، سماجی، سیاسی، ادبی، نفسیاتی، تاریخی غرض یہ کہ مختلف موضوعات پر تسلسل کے ساتھ لکھتے ہیں۔ امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب میں ان کے اداریے اور مضامین تقریباً ہر شمارے میں شائع ہوتے ہیں۔ یہ وہ رسالہ ہے جو تقریباً 90 سال سے پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس رسالہ کی اشاعت سے قبل امارت شرعیہ کا پہلا ترجمان ’’امارت‘‘ تھا۔ جس کے پہلے مدیر مولانا مفتی محمد عثمان غنی تھے۔ اس جریدے نے انگریزوں کے خلاف تحریک کو مضبوط بنا کر جنگ آزادی میں حصہ لیا اور قوم و ملت کی بروقت اور بہترین رہنمائی کی۔ اس کے پاداش میں ’’امارت‘‘ پر مقدمہ چلا۔ اس کے مدیر جیل گئے اور ان پر جرمانہ لگایا گیا۔ جب فرنگیوں کی سختی بڑھی تو ’’امارت‘‘ کی اشاعت بند کر کے ’’نقیب‘‘ کی اشاعت شروع کی گئی۔ اِس وقت اس کے مدیر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ہیں۔ یعنی تقریباً 90 سال قبل ایک مفتی اور عالم دین نے جو نقش چھوڑا تھا اُس پر آج مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی پوری ایمانداری کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اس طرح امارت شرعیہ میں شمع سے شمع روشن کرنے کا سلسلہ دراز ہے۔ میں ان کی دل سے قدر کرتا ہوں، ان کا مداح ہوں اور ان کی صلاحیتوں کو سلام کرتا ہوں۔ اس طویل تمہیدی گفتگو کے بعد میں اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ مفتی صاحب کی اب تک تین درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’نقطۂ نظر‘ مفتی ثناء الہدی قاسمی کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین ملک کے مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان مضامین کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب ’تعلیمات‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں تعلیمی مسائل سے متعلق مضامین شامل ہے۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی کا تعلیمی شعور انتہائی بالیدہ ہے۔ بحیثیت عالم دین اور مفتی جہاں وہ قرآن و حدیث اور فقہ پر گہری نظر رکھتے ہیں وہیں ان کا عصری تعلیمی شعور بھی بہت ہی پختہ ہے۔ تعلیمی مسائل اور چیلنجز پر ان کی گہری نظر ہے۔ عصری تعلیم کی اہمیت سے وہ نہ صرف واقف ہیں بلکہ عصری تعلیم میں نوجوانوں کی مہارت کو وقت کی ضرورت بھی سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ہر مسلمان کو دین کی بنیادی تعلیم ہر حال میں دی جانی چاہیے۔ بنیادی دینی تعلیم اور دینی شعور نہیں ہونے کی وجہ سے نئی نسل فکری اور عملی بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ نقطۂ نظر کے پہلے مضمون (بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت) میں ہی مفتی صاحب نے مختلف واقعات کی روشنی میں دینی تعلیم کی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اس موضوع سے متعلق تمام معروضات، مفروضات اور باریک پہلوئوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں نری جذباتیت کی جگہ معروضیت ہوتی ہے، اعداد و شمار ہوتے ہیں، دلائل ہوتے ہیں اور مفید مشورے ہوتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سرکار ایک طرف جہاں تعلیم کے فروغ کے نام پر نئے نئے منصوبے چلاتی ہے۔ بے شمار پیسے تعلیم کی ترقی پر خرچ کیے جاتے ہیں، وہیں عملی سطح پر تعلیمی ادارے انتہائی بدحالی کا شکار نظر آتے ہیں۔ منصوبے بے شمار بنتے ہیں لیکن ان کے نتائج اطمینان بخش نہیں ہوتے۔ تعلیمی اداروں میں مڈ ڈے میل اور اسکالرشپ کے نام پر پیسوں کی صرف بندر بانٹ ہوتی ہے۔ سرکار پیسے وہیں خرچ کرنا چاہتی ہے جہاں اس کا سیاسی فائدہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم ہی طلبہ و طالبات سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی کے مختلف مضامین میں تعلیمی اداروں سے متعلق اس طرح کے مسائل پر نہ صرف روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور مفید مشورے بھی دئیے گئے ہیں۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی کی سیاسی بصیرت کا اندازہ سیاسی موضوعات پر لکھے گئے ان کے مضامین سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کچھ لوگ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں حالانکہ ’اسلامی سیاست‘ کا تصور اتنا واضح، قابلِ عمل اور آفاقی ہے کہ اگر اسلامی اصول سیاست کو نصب العین بنا لیا جائے تو ایک آئڈیل ریاست کا قیام آج بھی مشکل نہیں ہے۔سچ پوچھیے تو آج کے پرآشوب اور پرتشدد دور میں ’اسلامی سیاست‘ کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے لیکن افسوس کہ بے شمار اسلامی ممالک میں اس وقت کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو آئڈیل اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتا ہو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی سیاست کی اصل روح سے دنیا کو متعارف کروایا جائے، جہاں رضائے الٰہی تمام ذاتی مفادات سے اوپر ہو۔ مفتی ثناء الہدی قاسمی نے اپنے مضمون ’’اسلامی سیاست تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘ میں اسلامی سیاست کا نظریہ بہت ہی واضح اور مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔اسی باب میں ان کے دوسرے مضامین ہندوستانی سیاست سے ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتے ہیں۔
تیسرا باب سماجیات کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں سماجی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس باب میں چھوٹے موٹے سماجی مسائل سے لے کر عالمی سماجی مسائل تک کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ حصہ عام قارئین کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
باب چہارم لسانیات کے عنوان سے ہے جس میں سارے مضامین اردو کے مسائل سے متعلق ہیں۔ ان مضامین کا مطالعہ اردو کے تئیں مفتی صاحب کی حساسیت اور فکرمندی کو ظاہر کرتا ہے۔ آخری باب میں مختلف نوعیت کے مضامین ’متفرقات‘ کے عنوان سے شامل کیے گئے ہیں۔یہ سارے مضامین عالمانہ، بصیرت افروز اور قوت فکر و عمل پیدا کرنے والے ہیں۔ ہرچند کہ یہ مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں لیکن کتابی صورت میں منظر عام پرآنے کے بعد فکر و آگہی کا ایک ایسا گلدستہ ہمارے سامنے ہوگا جس کی خوشبو نیم جان وجود میں زندگی کی نئی حرارت پیدا کرے گی۔ کتاب کی اشاعت پر مفتی ثناء الہدی قاسمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔