مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مدرسہ اشرف العلوم مراد آباد، جنداہا ویشالی کے بانی دار التکمیل مظفر پور ، جامعہ اصلاحیہ سلفیہ پٹنہ ، ہائی اسکول باڑھ، گورمنٹ مڈل اسکول بہار شریف اور دانا پور مڈل اسکول کے سابق استاذ، رابطہ عالم اسلامی سے بحیثیت داعی ہندوستان میں مبعوث، اچھے استاذ، کامیاب داعی ومبلغ بہتر مقرر اور قابل ذکر محقق مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی ۲۳؍ اپریل ۲۰۲۱ء مطابق ۱۰؍ رمضان بروز جمعہ بوقت بارہ بجے دن سفر آخرت پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز کے بہنوئی اور پھوپھا زاد بھائی مولانا محمد طاہر حسین شمسی نے بعد نماز عشاء پڑھائی اور عالم گنج پٹھان ٹولی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، پس ماندگان میں اہلیہ شمیمہ اشرف، دو لڑکا خالد اشرف، شاہد اشرف اور تین لڑکی بشریٰ اشرف، حیا اشرف، اور طوبیٰ اشرف کو چھوڑا۔
مولانا ڈاکٹر عبد المتین اشرف عمری مدنی بن شمس الضحیٰ بن مولوی عبد القادر کی ولادت ۸؍ اگست ۱۹۶۳ء کو مراد آباد ڈاکخانہ بھُتھاہی وایا جنداہا، موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے دادا مولوی عبد القادر سے حاصل کرنے کے بعد گاؤں کے اردو سرکاری اسکول میں داخل ہوئے، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ دار السلام عمرا ٓباد تشریف لے گئے اور وہاں سے ۱۹۷۲ء میں فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی گئے وہاں انہوں نے کلیۃ اللغۃ العربیۃ وادابھا (Feculty of Arabic language and literatures)میں داخلہ لیا ، وہاں سے فراغت کے بعد رابطہ عالم اسلامی سے بحیثیت داعی مبعوث ہوئے اور حضرت مولانا عبد السمیع جعفری ؒ کی ایما وتحریک پر جامعہ اصلاحیہ سلفیہ جس کا پرانا نام مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ ہے، اپنی خدمات سپرد کردی ،پٹنہ میں قیام کے دوران ہی انہوں نے عربی میں ایم اے پی ایچ ڈی اور پیشہ وارانہ تعلیم کی تربیت (ٹریننگ) حاصل کی، پہلی دفعہ حج کی سعادت ۱۹۸۱ء میں ملی، پھر متعدد دفعہ حج وعمرہ کی سعات پائی، آپ اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، تین بہنیں بھی ہیں۔
مدینہ طیبہ سے فراغت کے بعد مولانا، ماسٹر محمد ظہیر الدین محمد پور گنگھٹی، بکساواں ، ویشالی کی دختر نیک شمیمہ خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور کامیاب ازدواجی زندگی گذاری ، مولانا چوںکہ ،ز مانہ تک داعی کی حیثیت سے سعودی عرب سے مبعوث تھے، اس لیے پٹنہ اور ویشالی کی مسجدوں میں ان کاجمعہ میںخطاب ہوا کرتا تھا، بعض موقعوں سے جلسوں میں بھی شرکت ہوا، کرتی تھی ، دونوں موقعوں سے تقریر میں ان کی طلاقت لسانی کا اثر سامعین پر ہوتا، ان کی نظر نصوص شرعیہ پر تھی اور آیات واحادیث مستحضر تھے، اس لیے تقریر میں اس کا خوب استعمال کرتے ، جس سے ان کی تقریر مدلل ہوتی ، وہ اپنی تقریر کو چیخ چلا کر با اثر بنانے کی کوشش کبھی نہیں کرتے، آواز نہ تو پست ہوتی اور نہ ہی گھن گرج والی ، سیدھے سادے انداز میں بات رکھتے اور قرآن واحادیث سے مزین ہونے کی وجہ سے سامعین پر اس کا اثر پڑتا ، وہ اپنے مسلک پر سختی سے عامل تھے، لیکن دوسرے مسلک والوں کو بُرا بھلا کہتے میں نے انہیں کبھی نہیں سنا، ان کے مزاج میں اعتدال تھا او روہ طعن وتشنیع سے دور رہا کرتے تھے۔
قرآن واحادیث کے ساتھ مولانا کو ترکہ یعنی سہام شرعی، فقہ کی اصطلاح میں علم فرائض پر اچھی خاصی دسترس تھی ، وہ جامعہ اصلاحیہ سلفیہ میں جب تک رہے ، یہ مدت کوئی سال دو سال نہیں تیس پینتیس سال کو محیط ہے، فرائض کا درس آپ سے ہی متعلق رہا ، اور آپ کے اس فن میں کئی نامور شاگرد ہیں۔
پٹنہ میں مستقل قیام کے با وجود آپ اپنے آبائی وطن کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے، اس فکر مندی کے نتیجے میں آپ نے اپنے گاؤں میں ۱۹۸۰ء مدرسہ اشرف العلوم قائم کیا، اپنے شاگرد مولانا اختر اصلاحی اور مولانا شیخ اسلم جوہر اصلاحی کو تعلیم وتربیت کے کام پر لگایا، لیکن مولانا کے پٹنہ قیام کی وجہ سے گاؤں کی سیاست درآئی اور اس نے اس مدرسہ کو روبہ زوال کر دیا، اس حالت میں مولانا کی دلچسپی بھی اس سے کم ہو گئی ، بعد میں ان کے بھتیجہ محترم ابو بکر صدیق نے اس کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لیا، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے فوقانیہ تک منظور کراکر تعلیم وتربیت کے سابقہ انداز کو بحال کرنے کی جہد مسلسل کیا، اس طرح مدرسہ مولانا کی باقیات کے طور پر ان دنوں کام کر رہاہے۔
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے مبعوث داعی کی حیثیت ختم ہونے کے بعد ۲۰۰۷ء میں سرکاری استاذ کی حیثیت سے باڑھ ہائی اسکول میں اردو کی سیٹ پر بحال ہوئے، ۲۰۱۲ء میں آپ کا تبادلہ بہار شریف گورمنٹ مڈل اسکول میں ہو گیا، وہاں سے دانا پو رمڈل اسکول آئے اور انتقال کے وقت وہیں وہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔
مولانا سے میرے تعلقات کم وبیش اڑتیس سال کو محیط تھے، دار العلوم دیو بند سے فراغت کے بعد میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور سے بحیثت استاذ منسلک ہو گیا ، ان دنوں میرا آنا جانا آبائی گاؤں حسن پور گنگھٹی بکساواں ویشالی سے ہی ہوا کرتا تھا، مولانا کی شادی ہو چکی تھی ، محمد پور گنگھٹی میرے گاؤں کا ہی ایک محلہ ہے، ان کے خسر محترم مرحوم ماسٹر محمد ظہیر عالم سے والد مرحوم ماسٹر محمد نور الہدیٰ صاحب ؒ کے گہرے روابط اور تعلقات تھے، اس لیے ماسٹر صاحب نکاح اور گھریلو معاملات کے وقت بھی مجھے خصوصیت سے یاد رکھا کرتے تھے، مولانا کا آنا جب گنگھٹی ہوتا تو مختلف قسم کی مجلسوں میں ان سے ملاقات ہوتی اور ان کے علمی ارشادات سے ہم لوگ فائدہ اٹھاتے، ان کی مجلس ہم عمروں میں زاہدانہ خشکی لیے نہیں ہوتی تھی اور انہیں اپنی عالمانہ بصیرت کا غن بھی نہیں تھا، اس لیے ہم عمر ی کی وجہ سے ہم لوگ ان سے گھل مل جاتے ، ایک دو دفعہ ان کے گھر پٹنہ بھی جانا ہوا تھا، محبت سے پیش آتے ، وہ خلیق اور ملنسار تھے، میں نے ان کو کبھی کسی کی غیبت کرتے نہیں سنا ، بعض دفعہ میں نے انہیں چھیڑنا چاہا اور ان لوگوں کا ذکر کیا، جن سے ان کو تکلیف پہونچی تھی،مگر انہوں نے خوش اسلوبی سے ٹال دیا، اب جب کہ ہماری کوئی مجلس غیبت سے خالی نہیں ہوتی، مولانا کا یہ عمل لائق تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے سیئات کو در گذر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم