معراج نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا منفردواقعہ ہے۔یہ شرف آپ صلعم سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا۔یہ ایسا عمل تھا جس سے عقل انسانی حیران و ششدر تھی۔یہ معاملہ عقل انسانی کی رسائی سے وراء الوراء تھا۔
اللہ تعالی نے آپ کو معراج جیسے محیرالعقول نعمت سے سرفراز فرما کر اپنی بڑائی وکبریائی کو ثابت کردیا۔
معراج آپ کے لئے اللہ کی جانب سے ارض وسماء کا وہ حسین سفر ہے جو جبریل امین کے ذریعہ چند ساعتوں میں مکمل ہوا۔یہ انوکھا اورمنفرد سفر کا آغاز ام ہانی کے دولت کدہ سے بہ ذریعہ براق حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں ہوا۔ براق بیت المقدس کے باہر رکا۔براق کو وہاں پتھر سے باندھاگیا۔آپ بیت المقدس تشریف لے گئے ۔پھر وہاں سے آسمانی سفر شروع ہوا۔
ساتوں آسمان کے دروازے کھلے۔ہردروازے پر جبریل امین نے آپ کا تعارف کرایا ۔فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا۔ہر آسمان پر کسی نہ کسی نبی سے ملاقات ہوئی اور سب نے آپ صلعم کو خوش آمدید کہا۔سدرۃ المنتہی پے جبریل امین رک گئے اور کہنے لگے میں اس سے آگے نہیں جاسکتا۔ مجھےآگے جانے کی اجازت نہیں۔
آپ صلعم بہ نفس نفیس آگے بڑھے۔اللہ سے قریب ہوئے۔اقرارعبدیت و اظہارغلامی ان الفاظ میں پیش کیا۔التحیات للہ والصلوات والطیبات۔
اس کے جواب میں خالق کون ومکاں نے آپ پر سلامتی،رحمت،وبرکت،نچھاور کی۔السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔آپ نے اس سلامتی میں اپنے اور اپنی امت کو ان الفاظ میں یاد کیا السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔فرشتوں نے اقرار عبدیت اور اظہار رسالت ان الفاظ میں پیش کئے ،اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ۔
اللہ تعالی کادیداروہم کلامی کا شرف آپ کو ہوا۔آپ کو اللہ تعالی نے بہ طور تحفہ پچاس وقت کی نماز عطاکی۔
آپ صلعم واپس ہوئے۔چوتھے آسمان پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملے۔اس بیش بہا تحفے کا تذکرہ کیا۔حضرت موسی نے تشویش ظاہر کی اور فرمایا آپ کی امت اسے ادا نہیں کرپائے گی آپ اس میں تخفیف کروائیں ۔آپ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوئے۔اور تخفیف کی درخواست کی ۔اللہ رحمن ورحیم نے آپ کی درخواست پے نمار میں تخفیف کی۔آپ واپس آئے۔حضرت موسی علیہ السلام نے پھر استفسار کیا ۔آپ نے وضاحت فرمائی۔انہوں کہا کہ اس میں اور کمی کروائیے۔الغرض تخفیف نماز کے سلسلے میں اللہ کے حضور آنے جانے کا سلسلہ چلا تاآنکہ پانچ وقت کی نماز باقی رہی اور آپ سے اللہ نے کہا کہ جو شخص پانچ وقت کی نماز ادا کرے گا اسے پچاس وقت کی ادائیگی نماز کا ثواب دوں گا۔
آپ صلعم واپس بیت المقدس تشریف لائے وہاں تمام انبیاء موجود تھے۔امام الانبیاء کی اقتدا میں تمام نبیوں نے نماز اداکی۔پھر آپ مکہ تشریف لائے۔
آپ صلعم نے لوگوں کو روداد سفر معراج سنایا تو معاندین ومخالفین نے استھزا کرنا شروع کیا۔لو دیکھو اب تو یہ راتوں رات آسمان کا بھی سیر کرآئے ۔اب تک تو زمین کی ہی بات ہوتی تھی اب آسمان پر پہونچ گئے۔یہ بھی کوئی یقین کرنے والی بات ہے۔ابوجھل نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ بتاؤ ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی چند ساعت میں بیت المقدس پہونچے پھر ساتوں آسمان کا سیر کر کے واپس آجائے کیا تم اسے تسلیم کرو گے؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کہنے والا ہے کون؟ابوجہل نے استھزاء کہا وہی تمھارا ساتھی محمد ۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ رہے ہیں تو صد فی صد درست ہے۔یہ سب جانتا ہے کہ اللہ تعالی کا پیغام لیکر جبریل امین آپ صلعم کے پاس آتے ہیں تو ایک دفعہ آپ کو اللہ تعالی کے پاس لےجایاگیاتو اس میں نہ ماننے کی کون سی بات ہے۔اس وقت سے حضرت ابوبکر کو صدیق کا لقب ملا۔
یہ سفر عقل انسانی سے بعید تر تھا۔کیونکہ اس وقت عام طور پر جانوروں کی سواری ہی کا تصور تھا۔حمل ونقل کا یہی ذریعہ تھا۔
سائنس وٹکنالوجی اتنی ترقی نہیں کی تھی۔دشمنان دین نےسفر معراج کو اپنی عقیل کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش کی۔اللہ بااختیار ہے جو چاہے کرسکتاہے۔اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔اس کے یہاں کن کامعاملہ ہے۔خدائےواحد کی کاریگری پر انہیں یقین نہیں تھا۔اس لئے سفرمعراج کا انکار کیا۔صحابہ نے اسےبےچوں چرا تسلیم کیا۔وہ جانتے تھےکہ نبی کی ہر بات مبنی بر صداقت ہوتی ہے ۔ کہنے والے کو لوگ بچپن سے ہی صادق کہتے چلےآئے ہیں۔
معراج کا یہ سفر آپ کی رفعت،عظمت،علوشان،کی بین دلیل ہے۔
معراج آپ کی خصوصیت ہے۔یہ کمال صرف آپ صلعم کو نصیب ہوا۔
معراج سے واپسی پر آپ کو ایک بیش بہا تحفہ عنایت ہوا۔یہ تحفہ اللہ نے بہ ذات خود رسول اللہ کو دیا۔درمیان میں کوئی واسطہ نہیں ہے۔تمام احکام جبریل امین کے ذریعہ آپ صلعم تک پہونچا ۔جب نماز کی باری آئی تو آپ کو اللہ نے اپنے پاس بلاکر عطا کیا۔اس سے نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔جب صحابہ کرام کو نماز ملی تو بہت خوش ہوئےچلو اللہ سے بات کرنے کا ذریعہ مل گیا۔نمازکی بڑی فضیلت ہے۔
نماز مومنوں کا معراج ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا الصلوۃ معراج المؤمنین۔نماز ایمان وکفر کے درمیان حدفاصل ہے آپ کا ارشاد ہے من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر۔نماز مدار دین ہے۔ آپ نے فرمایا الصلوۃ عمادالدین ۔نماز دین کا ستون ہے۔فرمایا جس نے نماز ادا کی اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز چھوڑا اس نے دین کو مسمار کیا۔فرمایا قرۃ عینی فی الصلوۃ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔آپ نے آخری وقت بھی نماز کی وصیت کی الصلوۃ الصلوۃ وما ملکت ایمانکم۔
نماز کی اہمیت کا کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا تو مسجد کا رخ کرتے اور نماز ادا کرتے۔ قرآن میں کثرت سے نماز کا حکم آیا ہے۔
ہماری حالت تو عجب ہے ہم نے اس تحفہ کا احترام ہی نہیں کیآ۔نماز ہماری زندگی نکل گئ۔ہم اسے کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔اللہ کا دیا ہوا تحفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہمیں ملا اور ہم اس کی ناقدری کرتے ہیں یہ بہت بڑا ظلم ہے۔یہ ظلم ہم اپنے اوپر کرتے ہیں۔کیونکہ ہمیں سب سے پہلے نماز کے بارے میں جواب دینا ہے۔
نماز نمازی کوتمام فاحشات ومنکرات سے بچاتی ہے۔نماز نور ہے۔نماز عبد ومعبود کے مابین مضبوط ربط ہے۔شرگوشی کا ذریع ہے۔ان سب کے باوجود انسان نمازچھوڑتاہے غفلت کی دبیز چادر تانےاپنے رب کا باغی بنا ہوا ہے۔ہم دنیاوی تحفے کی خوب قدر کرتے ہیں۔بچوں سے اور دیگر افراد خانہ کو تاکید کرتے ہیں کہ فلاں نے تحفہ پیش کیا ہے اس کی ناقدری نہ کرو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔اسے تکلیف ہوگی۔وہ دوبارہ دروازے پر نہیں آئے گا۔ہماری نگاہ میں ایک انسان کے تحفےکی بڑی اہمیت ہے۔کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ اگر اللہ کے دئے ہوئے تحفہ کی ناقدری کی تو اللہ اور اس کے رسول کو کتنی تکلیف ہوگی۔اس تحفہ کی ناقدری بس یہی ہے کہ ہم نماز جیسی مہتم بالشان،عبادت کو پس پشت ڈال دیں۔ اپنی زندگی سے نماز کو نکال دیں۔صحابہ کرام اولیاء کاملین نماز کی طرف بھاگتے تھے۔ہم نماز سے بھاگتے ہیں۔انہیں کبھی کسی وجہ سے نید نہیں کھلی اور نماز قضا ہوئی تو رو،رو کے ان کا برا حال ہوجاتا تھا۔وہ بہت افسوس کرتے تھے۔ان کا سارا دن غم میں گذرتا ۔گویا بہت قیمتی چیز ہاتھ سے چلی گئی ہو۔ان کی ساری خوشی ماتم اور غم میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ہم جان بوجھ کر نماز چھوڑتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں۔اس کا انجام کیا ہوگا۔ٹھنڈے دل سے سونچیں اور اپنی پیاری زندگی پر ترس کھائیں۔ اس عظیم تحفے کی قدر کریں جو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری نجات کی خاطر عنایت کیا۔
معراج کا پیغام یہی ہے کہ ہم اس تحفہ کی دل و جان سے قدر کریں اور کسی قیمت پر نماز ہم سے ضائع نہ ہو۔ہماری زندگی کی شروعات نماز سے ہو اور اختتام نماز پر ہو۔صبح میں ہماری آنکھ کھلے تو نماز کا ہم استقبال کریں۔رات میں سونے جائیں تو نماز ادا کرکے۔
اللہ ہم سب کو اس تحفۂ ربانی کی قدر کی توفیق دے۔آمین