شہداء تحفظ ناموس رسالت میں شہید مدثر بھی شامل۔۔۔۔ !
طاہر ندوی، امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر
اگر کہا جائے کہ عشق کو عشق کرنا کس نے سکھایا یا عشق سے عشق کا تعارف کس نے کرایا تو بلا مبالغہ یہ کہا جائے گا کہ عشق کو عشق کرنا اور عشق سے عشق کا تعارف اصحاب رسول ﷺ نے سکھایا اور کرایا ورنہ عشق خود سے بھی ناآشنا تھا۔صحابہ کرام نے عشق و محبت کی ایسی داستانیں قائم کیں ہیں کہ آج تک کسی مجنوں نے لیلیٰ سے اور نہ کسی فرہاد نے شیریں سے کیا ہو نہ کوئی کر سکے گا۔
یہ نبی سے عشق ہی تو تھا کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ جن کا جسم تیر اور نیزے سے چھلنی چھلنی کر دیا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ کہہ رہے تھے ” اے ظالم ! میرا اللہ جانتا ہے کہ مجھے جان دے دینا پسند ہے مگر یہ ہرگز پسند نہیں کہ میرے آقا و مولا ﷺ کے قدموں میں ایک کانٹا بھی چبھے "۔ عشق نبی کی ایسی داستانوں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور شاید یہی بات تھی کہ جس نے ایک عیسائی مؤرخ کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ” محمد ﷺ کے ساتھیوں جیسی عظیم مثالیں ، عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں تلاش کرنا بے کار ہے "۔
تحفظ ناموس رسالت کی خاطر جام شہادت نوش کرنے کا جو سلسہ حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ سے شروع ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے، نہ جانے کتنے ایسے فدائیان مصطفیٰ اور عاشقان دلربا ﷺ گزرے ہیں جنہوں نے پل بھر بھی نہ سوچا کہ ان کے بعد ان کے گھر والوں کا کیا ہوگا بس کود پڑے آتش عشق میں اور پل بھر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے نبی سے عشق و محبت، مہر و وفا اور عقیدت و احترام کا زندہ مثال اقوام عالم کے سامنے پیش کر دیا۔
تحفظ ناموس رسالت کی خاطر بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں ہیں اور آج بھی قسمت ان پر رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ غازی علم الدین شہید کو کون جانتا تھا؟ کس نے سوچا تھا کہ بڑھئی کا کام کرنے والا، ایک سچا عاشق رسول، ایک معمولی سادہ لوح انسان جس نے ہندو آریہ سماج کے سرگرم رکن راجپال کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا وہی راجپال جس نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی تھی جس میں حضور ﷺ کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئیں تھیں، جس کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا تھا۔
غازی عبد الرشید شہید کو کون جانتا تھا ؟ جس نے شدھی تحریک کا بانی، ہندو مسلم فساد کا داعی، گستاخ رسول، ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالنے والا "شردھا نند” کو دن دہاڑے اسی کے آشرم میں چھ گولیاں اس کے سینے میں پیوست کرکے واصل جہنم کر دیا تھا۔
غازی عبد القیوم شہید کو کون جانتا تھا؟ جس نے گستاخ رسول، ناموس رسالت میں دریدہ دہنی کرنے والا آریہ سماج سے تعلق رکھنے والا ” نتھو رام کو بھری عدالت میں سب کے سامنے خنجر گھونپ کر اس کی آنتیں نکال دی اور بڑے اطمینان سے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ” اس خنزیر کے بچے نے میرے آقا و مولا ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور اس کو سزا مل گئی”۔
تحفظ ناموس رسالت کی خاطر نہ جانے ایسے کتنے بے شمار فدائیان مصطفیٰ ﷺ گزرے جنہوں نے ناموسِ رسالت کی حفاظت کرتے ہوئے نبی کے قدموں پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ آج ان مبارک شہداء تحفظ ناموس رسالت میں مدثر شہید بھی شریک ہو گئے ہیں۔ اللہ انہیں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے ۔ ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے گھر والوں کو نعم البدل عطا فرمائے آمین ۔