سفر توبہ ۔۔۔جلد ششم
آصف انظار عبدالرزاق صدیقی
اک طرف اس کا گھر اک طرف میکدہ
یعنی راستے میں ہم اس مقام پر تھے جہاں ایک طرف کلور ندی دوسری طرف بحرِ عرب تھا بیچ میں کھڑے ہم سوچ رہے تھے ندی میں ڈبکی لگائیں یا سمندر میں غواصی کریں یہ خیالات تو انقلابی تھے مگر بھارتی مسلمانوں کی زندگی چونکہ مصلحت پسندی پر چل رہی ہے اور ہم جی سے اکابر ملت کی مصلحت پسندی کے مدح خواں بلکہ عاشق ہیں اور مقدمہ ابن خلدون کے فلسفے کی روشنی میں یہ عین فطری ہے کہ شہری تہذیب کے تعیشات انسان کو آرام پسند بناتے ہیں جس سے انقلابی فکر وعمل کی کور دب جاتی ہے اور قومیں تپتے صحراؤں اور سنگلاخ چٹانوں میں داد شجاعت دینے کی جگہ فرنگی صوفوں اور ایرانی قالینوں سے سجے جنرل کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم سے کول کئے گئے ملاقاتی نشستوں میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیریں لکھتے ہیں کبھی کبھی کرسیاں چلا کر لکھا نوشتہ مٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔ ہم اگرچہ دیہاتی ہیں۔۔یعنی ابھی ہماری بدویانہ نخوت اور دہقانی کھرداپن شہری خراد پر چڑھ کر پوری طرح چکنا ڈھل ڈھل نہیں ہوا ہے مگر ہم اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بھی اکابر کی محبت اور ان کی عقیدت کے علاوہ مصلحت سے جان پہچان بڑھاکر بالکل ہی چکنے گھڑے بن جائیں اور انقلابی فکر وعمل کے دریاؤں سے اٹھنے والے موجِ تند وجولاں کو ریت میں سرچھپا کر سونے کا ہنر سکھائیں تاکہ نہنگوں کے نشیمن تو و بالا ہونے سے بچے رہیں
اور اسی مصلحت اندیشی کا تقاضا تھا کہ وہاں چلیے جہاں بستر نرم نرم ہو، ہوا ٹھندی ٹھنڈی ہو،عشائیہ اور جذبات دونوں گرم ہوں ۔۔ یاروں کا مجمع ہو۔۔ باتیں ہوں باتوں میں تہہ داری ہو،جملے اور فقرے ہوں جملوں میں چستی اور فقروں میں کساؤ ہو۔۔
دل لگی ہو ہنسی ٹھٹھولی ہو۔۔
یعنی عیش و طرب کے سب سامان بہم ہوں ۔۔
انقلابی فکر سے توبہ کی اور آسودگانِ بھٹکل کی ضیافت سے حصہ وصول کرنے ہم اپنی آشفتہ سری کے ساتھ روانہ ہوئے۔۔۔
باتوں باتوں میں بھٹکل پہنچ گئے۔۔ ہمارا نزولِ
بلا اجلال مولانا سمعان خلیفہ ندوی صاحب کے دولت کدے پر ہوا۔۔احباب دولت کدے کو ازراہِ تکلف لکھا ہوا جملہ سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔۔وہ مکان واقعی دولت کدہ تھا۔۔ہمارے علاقوں میں سیٹھوں کو بھی ویسی شاہی رہائش مہیا نہیں جیسی بھٹکلی علماء ٹشو کی طرف استعمال کرتے ہیں۔۔ہمارے علاقے میں تو ایسی عالی شان رہائش کے حق دار صرف مہتمیمانِ دین فروش ہواکرتے ہیں۔ کبائر قوم فروش ۔ عام علماء جو دن رات پتہ پانی کرتے ہیں وہ نانِ شبینہ اور نقود روزینہ کو گن گن کر استعمال کرتے ہیں ،پتہ چلا کہ تجارت میں برکت ہے چاہے وہ دین و ملت فروشی ہی کیوں نہ ہو۔۔بھٹکل کے علماء کچھ نہ کچھ بیچتے ضرور ہیں مولانا سمعان بھی تاجر آدمی ہے اور ان کا جثہ وتجارت دونوں ضخیم ہے اللہ تجارت کو ضخیم تر کر دے جثے کے بارے میں ہماری دعا محفوظ ہے۔۔۔ ہم جیسے خاک نشیں اور کاخ مکیں لوگ ایسے گھروں میں جانے سے پہلے وضو فرض اور غسل واجب جانتے ہیں کہ مبادا ہمارے دیہاتی طور واطوار سے کوئی آبگینہ میلا نہ ہوجائے۔۔مگر چونکہ ہم بے عمل مسلمانوں کی فہرست میں ہیں اس لیے بے وضو ہی داخل ہوئے۔۔
دیکھ کر در و دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل”بیتِ سمعان” ہونا
والی کیفیت تھی
ہم جو گئے انکے گھر میں خدا کی قدرت تھی
کبھی ہم ان کو کبھی ان کے گھر کو دیکھتے تھے
ان کو دیکھنے کی تفصیل بھی عرض کریں گے ابھی گھر دیکھ کر حیران ہو لیں
گھر یعنی شاہکار ،نفیس ،سجا سجایا ، دھلا دھلایا ہر چیز کِھلی ہوئی ہر چیز نکھری ہوئی۔۔
۔۔
وقت مغرب کا تھا ہم نے غسل خانے کی راہ لی جو وضو پہلے نہ کر سکے تھے مغرب کے بہانے اب کرنے پہنچے۔۔مقصود یہ بھی تھا کہ اسی بہانے ہم منہ ہاتھ دھوکر اپنا روئے منور لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں اور عوام کو یہ شبہ نہ ہوکہ ہماری تصویریں فلٹر والی ہوتی ہیں۔۔سفر کی دھول چہرے ہے ہٹا کر ہشاش بشاش نکلے ۔ سمعان صاحب سے ملاقات ہوئی اب یہ الجھن دامن گیر یارِ دلدار کو گلے لگائیں تو کیونکر لگائیں ان کا حجم تو کون مکان کو گھیرے ہوئے اور ہمارے ہاتھ نارسائی سے اپنے گریبان تک بھی پہنچنے سے معذور۔۔ محبوب کی کمر کا جو بیان اردو شعراء نے کیا ہے سراسر گمراہ کن ہے۔۔یہاں صورت حال یہ تھی کہ اگر ہم رقیبِ رو سیاہ کو بھی شریکِ عشق کرلیں تب بھی دامن یار کے طول عرض کی پیمائش مشکل تھی۔۔۔ہمیں بے ساختہ لکھنؤ میں رہنے والے اپنے ایک دوست یاد آئے ہم خوفِ فسادِ خلق سے ان کانام نہیں لیتے ۔۔مگر ان سے ہم نے ایک بار یہ عرض کیا۔۔۔
سنتے تھے کہ ہے نامِ جویں شیخ کی خوراک
پر اتنا جو تیار ہے معلوم نہیں کیوں
بس مولانا سمعان کے دیکھے سے ہماری یہی کیفیت تھی۔۔کووڈ کے احتیاط کا زمانہ گزر چکا تھا لہذا گلے نہ ملنے کا ایک پرانا عذر بھی جاتا رہا، ناچار رسم معانقہ کے لئے بڑھے۔۔اور معانقہ بھی کیا۔۔بس کیا بتائیں۔۔معانقہ بالکل ایسا تھا جیسے اونچے پربت پر ننھا سا #مارخور یا لق و دق صحرا میں جھوٹا سا #برنوٹا یا میلوں پھیلے چراگاہ میں کوئی بھٹکا ہوا #میمنا یا تھار کے ریگستان میں کوئی اکیلا #برّہ یا کنگ کانگ کی ہتھیلی پر "نعومی واٹس” یا روم میں پھنسا ہوا ویٹیکن سٹی یا غنڈوں میں پھنسی ہوئی رضیہ۔۔۔۔خیرو خوبی سے یہ رسم ادا ہوئی ہم نے اپنی پسلیاں ٹٹول کر دیکھیں ساری الحمدللہ اپنی جگہ تھیں شکر کے جذبے سے لبریز ہوکر مغرب اداکی گئی۔۔۔
نماز بعد چند باتیں ہوئیں باتیں تو بہانہ تھیں اصل مقصود تو کناروں تک بھرے دسترخوان کے لوازمات سے کام ودہن کی لذت بڑھانی تھی۔۔
سو احتیاط سے بڑھائی گئی کیونکہ ابھی عشائیہ باقی ہے۔۔
چشم زدن میں عشا کا وقت ہوگیا۔۔
قریب کی مسجد میں نماز کے لیے گئے ۔۔وہاں مولانا طارق شفیق ندوی کے چاہنے والے لوگ تھے۔۔ہم بھی وہیں موجود تھے مگر کس نہ پرسد کہ بھیا کیستی۔
گویا مسجد میں لے جاکر ہم دیوار سے لگا دیتے گئے
رات محفل میں تیری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگادیے کوئی دیوار کے ساتھ۔۔
صورتحال یہ تھی کہ
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹی محفلین
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ تیرا
کوئی غلطی سے بھی ہمیں نہیں پوچھ رہا تھا کہ آپ کون حالانکہ ہمباقاعدہ کرتا پاجامہ زیب تن کئے ، بالوں میں تیل لگائے، داڑھی میں کنگھا کیے ،بدن پر خوشبو ملے ، دل کو شوق گناہ سے بھرے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے تھے۔۔۔مگر
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
ایسے میں دل اچاٹ ہونے ہی لگا تھا کہ ایک جوہر شناس ہیرے کی طرف بڑھا ہم جو پہلے سے ہی کسی نگاہِ قدرشناس کے منتظر تھے کھِل اٹھے۔
ہم اتنے کھلے ہوئے ہیں کہ آگے لکھنے کا جی نہیں جب ذرا مرجھاتے ہیں تو آتے ہیں
جاری