زندگی عظیم امانت ہے قدر کیجئے
محمدامام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی
موت و حیات اللہ کی مخلوق ہے۔اللہ نے انسانوں کو یہ نعمت اس لٸے عطا کی ہے کہ دیکھیں اچھاعمل کون کرتا ہے ۔بچپنے سے بڑھاپے تک کا یہ سفر اچھے برے وادیوں کو طٸے کرنے میں ختم ہوجاتا ہے ۔اسی میں جوانی کا مرحلہ اپنی آن بان اور شان سے آتا ہے۔آدمی اس مرحلے میں اندھا ہوجاتا ہے ۔اپنی طاقت و قوت کے نشے میں اپنی حقیقت بھول جاتا ہے ۔اپنے آنے کا مقصد بھول جاتا ہے ۔زندگی کے اکثر اوقات نفس کی اتباع میں گزارتاہے۔نفس جیسے چاہتا ہے گھوماتا ہے ۔انسان نفس کا نرا غلام بن جاتا ہے ۔جوانی کا یہی مرحلہ انسان کو بننے اور بگڑنے کا ہوتا ہے ۔اللہ کی مرضی حاصل کرنے کا یہی زمانہ ہوتا ہے ۔اللہ کو جوانی کی عبادت زیادہ محبوب ہوتا ہے ۔نفس پرستی غالب رہتی ہے ۔ایسے میں خداپرستی محبوبیت کے درجے کو پہونچا دیتی ہے۔جوانی کی عبادت صحت مند ہوتی ہے ۔ہر اعضا ٕ چست درست ہوتا ہے ۔عبادت کے تمام ارکان صحیح طور پر ادا ہوتے ہیں۔جونہی آدمی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے ۔اعضا ٕ کی طاقت کمزور پڑجاتی ہے ۔کسلمندی غالب آجاتی ہے ۔چاہت کے باوجود بشاشت ختم ہوجاتی ہے
عبادت وبندگی اپنے تمام لوازمات کے ساتھ کی جاۓ تو اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔بڑھاۓ میں اعضا ٕ جواب دےدیتا ہے۔انسان چاہ کرکےبھی کچھ نہیں کرپاتا۔اس لٸے جوانی کو رضا ٕ الہی میں گزارنا چاہٸے۔جوانی کے متعلق سوال بھی ہوگا کہ اسے کہاں گزارہ۔عیش وعشرت میں یا پھر لہو لعب میں یا اللہ کی بندگی میں ۔
اللہ کی گرفت بھی عجب ہوتی ہے۔اس کی پکڑ سخت ہوتی ہے ۔جب وہ کسی کو گرفت کرنے پر تل جاتا ہے تو مال دولت،جاہ ومنصب،اقتداروکرسی،سورس وپیروی،کچھ کام نہیں آتا ۔سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کا صحیح پتہ اسی وقت چلتا ہے۔جوانی کے جذبات میں آکر انسان کسی کو کچھ نہیں سمجھتا ۔ہم چناں دیگرے نیست۔لیکن جب رب کی پکڑ ہوتی ہے ۔انسان ہاسپیٹل کے بیڈ پر پڑا ہوتا ہے۔ساری تدابیر فیل ہو جاتی ہیں۔آکسیجن جسے ہم معمولی سمجھتے ہیں اس کی کمی یا پلیٹ لیٹ کی کمی کی تکمیل نہیں ہوتی ہے ۔پیسے اثرورسوخ سب کے باوجود زندگی سے آدمی ہاتھ دھو لیتا ہے۔کسی کو ستایاتھا،کسی پر بےجاظلم کیا تھا، کسی کی مزدوری نہیں دی تھی،کسی کے ساتھ بدکلامی،بدزبانی،سے پیش آیا تھا،بغض،حسدجلن،کینہ کپٹ،آپسی دشمنی،زمین وجاٸیداد پر بےجا قبضہ،طاقت کے نشےمیں کمزوروں کو نشانہ بنانا،حقوق اللہ وحقوق العباد عدم تکمیل،وغیرہ انسان اپنے دل میں لٸے دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔اللہ کی پکڑ مہلت بھی نہیں دیتی کہ کسی سے معافی تلافی کر سکے۔
دنیا کی ٹیپ ٹاپ ہمیں اپنے کئے پر نادم ہونے نہیں دیتی۔انسان خداکی دی ہوٸ طاقت وقوت کا صحیح استعمال کرے۔اپنے کو اللہ ورسول کے بتاۓ ہوۓ راستہ پر لگاۓ۔اللہ کی دی ہوٸ طاقت پر گھمنڈ نہ کرے۔بلکہ اللہ سے اس معامہ میں ڈرتا رہےکہ جو اللہ طاقت دیا ہے وہ چھین نے پر قادر ہے۔
اللہ جب کسی کو برباد کرنا چاہتا ہے تو اسے توپ اور ٹینک کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ہلکا سا زمین کو یا فضا کو ہلا دیتا ہے بس انسانی تمام وساٸل بے کار ہوجاتے ہیں۔ہماری حقیقت ہمارا خالق زیادہ جانتا ہے۔پھر تکبر وگھمنڈ کس بات کا؟۔
زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوۓ اسے رب کی بندگی میں نبی کے طریقے پے لگاٸے۔اللہ کی دی ہوٸ اس نعمت وامانت کو من وعن امانت والے رب کریم کو سونپنے کی پوری کوشش کریں۔
زندگی کی بے بسی اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان کسی مرض میں مبتلا ہو جاۓ۔ایک دو دست ہوجاۓ ،پیچش ہو جاۓ ،بخار حد اعتدال سے آگے بڑھ جاۓ، شکر کی مقدار حد اعتدال سے اوپریا نیچے ہوجاۓ،ایسی حالت میں آدمی بےبس ہوجاتا ہے۔
اس مہا ماری میں بہت سے احباب ،اعزہ واقارب،اپنے گھر سے بہ غرض علاج ہاسپیٹل کا رخ کیا ۔وہاں وساٸل کی کمی کی وجہ سے انہیں صحیح طبی خدمات مہیا نہ ہو سکیں اور ان کی واپسی اس حال میں ہوٸی کہ وہ زندگی سے ہاتھ دھو چکے تھے۔کسی کی لعش ملی تو غسل نہیں ،جیسے تیسے بغیر جنازہ یا چند افراد افراتفری کے عالم میں شریک جنازہ ہوۓ۔دوست واحباب کو بعد میں پتہ چلا۔محلے کے لوگوں کو بھی بسااوقات پتہ نہیں چلا اور تجہیز وتکفین ہوگٸ۔جو ہاسپیٹل گٸے تو سارے ارمان دل میں دباۓ مٹی کے نیچے چلے گئے ۔کسی کو صحیح کفن نصیب نہ ہو سکا پلاسٹک یا پولوتھین ان کا کفن بنا۔کہیں ایسا بھی ہوا کہ جنازہ کسی کا اور سونپا کسی اور کو گیا۔عجب افراتفری کا ماحول بنا۔انسان،انسان کو دیکھنے سے ڈرنے لگاچھونا تو دور کی بات ۔کندھا بھی میسر نہیں ہوا۔ ایم بولینس میں ہی جنازہ ہوا اور جیسے تیسے قبر میں ڈھکیل کر J c bسے مٹی میں دبا دیا گیا۔
ہم بہت بڑے تھے باہمی تفاخراپنا شیوہ تھا۔اپنے آگے کسی کو لگاتے نہیں تھے۔اپنی طاقت پر بڑا ناز تھا۔خدا کی دی ہوٸ امانت کا بےجااستعمال کرتے تھے۔بندوں کو بندوں سے توڑتے اور الگ کرتے تھے۔تاکہ سب پر ہمارا راج چلے۔لمحوں میں یہ سب خاک میں مل گیا۔
اللہ نے عقل دی ،سوچنےسمجھنے کا طریقہ دیا۔اعضا ٕ میں طاقت دی ہم اس کا صحیح استعمال کریں ۔ایک سجدہ کی جگہ چند سجدے کی کوشش کریں۔ تھوڑی تلاوت بھی کر لیں۔تھوڑا ذکرواذکار ،توبہ واستغفار،درودپاک سےدل وزبان کو تروتازہ کریں لین دین صاف رکھیں ۔عجزوانکساری کی زندگی بسر کریں ۔کبرو گھمنڈ چھوڑ دیں۔کسی کی شان میں گستاخی ہو جاۓ تو معافی مانگ لیں یہ بہت بہتر ہے اس بات سے کہ ہمارے جنازہ کے وقت امام صاحب لوگوں سے معافی کا مطالبہ اور لین دین کا تصفیہ کریں۔
ہم لین دین کا تصفیہ کرلیں ۔سب کے ساتھ حسن ظن رکھیں۔کوشش ہو کہ کسی کا دل نہ دکھے۔اگر دل شکنی ہو تو معافی تلافی کرلیں۔
اگر اللہ ایک سجدہ کی توفیق دے،چندآیتوں کی تلاوت کی توفیق دے،دوچار پیسے راہ خدا میں خرچ کروادے،شب وروز میں کسی لمحے زبان پر اللہ کا نام آجاۓ،کسی بھاٸ سے آمنا سامنا ہو تو سلام زبان پر آجاۓ،کسی کے دکھ میں ہم کام آجاٸیں،احکام الہی ہمارے اعضا سے سرزد ہو جاۓ،حرام کے ارتکاب سے بچ جاٸیں،امر بالمعروف اورنہی عن المنکر ہمارا شیوہ ہوجاۓ ،تو سمجھ لیجٸے کہ یہ اللہ کی توفیق ہے۔اور اللہ آپ کو پسند کرتاہے۔اگر ان سب کے باوجود کوٸ ابتلا ٕ آتی ہے تو سمجھ لیجٸے کہ اللہ کو آپ سے محبت ہے۔اس ابتلا ٕ سے اللہ بڑے حادثہ سے بچا لیا ہے یا پھر آپ کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ۔ایسے میں نماز اور صبر کو لازم پکڑیں۔
زندگی ایک بلبلہ ہے ،بے ثبات ہے،محدود ہے۔
لامحدوداورابدی زندگی کو سامنے رکھیں۔اللہ کی اس نعمت عظمی کی قدر کریں۔اس امانت میں خیانت نہ کریں۔اس امانت کو اللہ کے حوالے ویساہی کریں جیسا اللہ چاہتا ہے ولاتموتن الاوانتم مسلمون۔جسم سے روح جدا ہو تب بھی ہم احکام الہی کاربند ہوں ہماری نماز ہماری قربانی،ہماراجینا،مرنا اللہ کے لٸے ہو۔
اللہ ہم سب کو زنگی جیسی عظیم نعمت کی قدر کی توفیق عطا فرمائے ۔