دم توڑتی جمہوریت
۲۶؍ جنوری کو ہر سال ہم لوگ جشن جمہوریت مناتے ہیں، سرکاری ونجی دفاتر، اسکول ، تعلیمی ادارے اور ملک کی عوام اس جشن کا حصہ بنتے ہیں، لاک ڈاؤن سے قبل انڈیا گیٹ پردہلی میں بڑا پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہم اپنی دفاعی قوت وطاقت اورہندوستان کی تہذیب وثقافت کو مختلف قسم کی جھانکیوں کے ذریعہ دیکھا کرتے تھے، لاکھ ڈاؤن کے زمانہ میں بھی یہ قومی تہوار منایا جاتا ہے، لیکن عوام کی بھیڑ اور شا ن وشوکت میں بڑی کمی آگئی ہے، پل پل کی خبروں اور مناظر کے ٹیلی ویزن پر نشر کرنے کی وجہ سے عوام انڈیا گیٹ پر جانے کے بجائے ٹی وی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے اور وہاں جانے کی زحمت کے بغیر پل پل کو اپنی نظروں میں قید کر لیتے ہیں جو شاید وہاں جا کر کسی حال میں ممکن نہیں ہے۔
۱۹۵۰ء میں اسی تاریخ کو ملک میں جمہوری دستور نافذ ہوا تھا، اور ہم نے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اس ملک میں جمہوری قدروں کی حفاظت کریں گے، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب مختلف مذاہب اور ثقافت کے آمیزہ سے تیار اس ملک کے کلچر کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، ملک کو اس مقام ومرتبہ تک پہونچانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، جیل کی صعوبتیں بر داشت کی تھیں، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی بھی تھے، اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بھی تھے او رحضرت مولانا منت اللہ رحمانی بھی، مولانا عبید اللہ سندھی بھی تھے اور اشفاق اللہ خان بھی، چندر شیکھر بھی تھے اور رام پرشاد بسمل بھی، مولانا ابو الکلام آزاد بھی تھے اور موہن داس کرم چندگاندھی بھی ، کھودی رام بوس بھی تھے اور مولانا حسرت موہانی بھی، آزاد ہند فوج کے نیتاجی سبھاش چندر بوس بھی تھے اور کرنل محبوب بھی، شاہ نواز بھی تھے اور مولانا شفیع داؤودی بھی، مولانا مظہر الحق بھی تھے اور جواہر لال نہرو بھی، کس کس کا ذکر کروں اور کس کو چھوڑوں ، سب کی قربانیاں تھیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسلمان اس جد وجہد میں ۱۷۵۷ء سے شریک تھے اور دوسرے ۱۸۵۷ء سے، ہماری قربانیاں ایک سو سال پہلے سے جاری تھیں، لیکن جب ملک آزاد ہوا تو سب سے پہلے ہم ہی بھلا دیے گیے ، بھلانے کا یہ کام اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ان شہیدوں کی یاد میں جو آثار قائم تھے ان کا نام بھی بدلا جا رہا ہے اور یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے، جس کی جمہوریت دنیا کی بڑی جمہوریت ہے، اور ہم جس پر فخرکرتے نہیں تھکتے۔
آج جب ہم تہترواں جشن جمہوریت منا رہے ہیں تو ہمارے ملک میں جمہوریت دم توڑ رہے، جمہوریت کے چاروں ستون انتظامیہ مقننہ، عدلیہ اور میڈیا جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے جو کچھ اور جتنا کچھ کر سکتے تھے، وہ ہو نہیں پار ہا ہے، مقننہ میں ایک خاص فکر کے لوگوں کا غلبہ ہو گیا ہے، بیورو کریٹ اور انتظامیہ بھی اسی رخ پر کام کررہی ہے جو حکمراں طبقہ چاہتاہے، الناس علی دین ملوکھم کا یہی مفہوم ہے،میڈیا بک چکی ہے، وہ نہ تو غیر جانبدار ہے نہ حق کی طرفدار، اب وہ صرف وہی لکھتا چھاپتا ، سناتا اور دیکھا تا ہے جو اس کے خریدار کہتے ہیں، رہ گئی عدلیہ، بھلی بُری توقعات اسی سے وابستہ ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اب جمہوریت کی بقا کے لیے اسی کو کام کرنا ہے، ورنہ سمجھئے جمہوریت کا کام اس ملک سے تمام ہوجائے گا، جس کی آواز مختلف سطح سے ہندو راشٹر کے عنوان سے مسلسل اٹھ رہی ہے اور بی جے پی کی اصلی قیادت کرنے والی آر اس اس نے اسی سمت میں کام تیزی سے شروع کر دیا ہے،
دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے لوگوں کو تیار کیا جا رہا ہے، اسلحے تقسیم کیے جا رہے ہیں، تاریخ بدلی جا رہی ہے ، اقدار بدلے جا رہے ہیں، تعلیمی پالیسی بدل گئی ، بابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیر ہو رہی ہے، گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ پر فرقہ پرستوں کی نگاہ ہے، ایسے میں جمہوریت اس ملک میں انتہائی نازک دو رسے گرزررہی ہے ۔
اس دم توڑتی جمہوریت کی حفاظت کے لیے عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس لیے آگے نہیں آ پا رہی ہے کہ اسے ہندوتوا کا سبق مضبوطی سے پڑھایا گیا ہے، پرانے لوگ ضرور سیکولر ہیں، لیکن نئی نسلوںمیں مختلف ذرائع سے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت بھر دی گئی ہے اس کے رہتے ہوئے جمہوریت کی حفاظت ممکن نہیں، تھوڑی بہت امید دلت مسلم اتحاد سے ہے، وہ بھی وقوع پذیر ہو تب کی بات ہے۔