حضرت مولانا علی میاں کا دسترخوان
میں اس وقت ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں ہوں،ظہر کی نماز پڑھ کر مہمان حضرات مہمان خانہ آنے لگے ہیں،لیجیے دسترخوان بچھ گیااور لوگ کھانے میں مشغول ہو گئے ۔
میں باہر کرسی پر بیٹھا سوچ رہا ہوں ۔
آج سے٣٥/ سال پہلےحضرت مولانا علی میاں کا دسترخوان جو دیکھاتھا،وہی دسترخوان آج بھی ہے،ذرہ برابر کوئ فرق نہیں،ترقی پذیر دنیا میں سب کچھ بدلتا رہا،معیار زندگی بدلی،،آساءش سےآراءش اور زیباءش تک ،قیمتی گاڑی،خوبصورت مکان،دیدہ زیب لباس اورمختلف النوع لذیذ کھانوں کی چاہت میں دنیا کہاں سے کہاں نکل گئ۔لیکن حضرت مولانا کا دستر خوان اب تک ایک حالت پر ہے،سادہ روٹی،دال،چاول،سالن،پتلاشوربا ،اسی دستر خوان پر حضرت مولانا رابع حسنی ،حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی،اور دوسرےبزرگ اساتذہ موجود ہوتے ہیں،ناظم و مہتم اور اساتذہ کاٹفن بھی گھر سے آجاتاہے،سب کے مختلف سالن سےکچھ رنگت آجاتی ہے،کبھی کہیں سےکچھ آگیا،تو وہ بھی دسترخوان پہ رکھ دیاگیا،سب نے تھوڑا تھوڑا کھالیا۔ناظم صاحب کا ٹفن روزآنہ خاتون منزل سے آتا ہے،سایکل سے ایک چپراسی جاتاہے اور لے آتا ہے،ندوہ سے اچھا خاصہ دورجو ہے۔احتیاط کا یہ عالم کہ جس مہمان خانہ میں حضرت ناظم صاحب رہتے ہیں،اس کا پورا کرایہ ندوہ کو دیتے ہیں،روزانہ کےمہمانوں پرجو خرچ آتا ہے اسکا بوجھ ندوہ پہ نہیں ڈالتے،خود برداشت کرتے ہیں۔آپ دسترخوان پر بیٹھیں گے تو یہاں زندگی کا پورا خلاصہ مل جائے گا ، سادگی ، عاجزی ، آپسی محبت ، کفایت شعاری ،میانہ روی، استغنا و اعتدال ،کم گوئی ، خوش کلامی ، دل جوئی ، ایثاروجذبہ خیرخواہی اور پھراس میں تسلسل اور دوام۔ یہ دسترخوانی ماحول زندگی کے ہر شعبہ میں آپ دیکھیں گے۔یہاں تک کہ ندوہ کے تعمیری کاموں میں بھی اس کی جھلک آپ کو ملے گی۔ کوئ بڑاعالیشان گیٹ آپ کو نظر نہیں آۓگا،مسجد کی خوبصورتی اپنی جگہ پر یہاں بھی مہنگے ماربل و ٹاءلس نہیں ملیں گے،سالہا سال سے اساتذہ دین کی خدمت میں لگے ہیں،قلب میں سکون اطمنان اورقناعت کی برکت سےان کے چہرہ پرنور نظر آئیں گے۔
یہ حضرت مولانا علی میاں کاکمال ہے،شاگردوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کردی اور ان کی ایسی تربیت فرمادی کہ جوان کی زندگی میں اور ان کےبعدبھی ان کے مشن میں پوری عقیدت و محبت سےلگےہیں،حضرت کے تربیت یافتہ افراد کی زندگی ندوہ کیلۓ وقف ہے۔حضرت نےانہیں پڑھایا، لکھایااور مزید صلاحیت پیداکرنے کیلۓ ملک سے باہربھیجا،ان کے شاگرددعاء لے کرگۓاور پھر مولاناکےپاس آکر معمولی تنخواہ پرندوہ میں لگ گۓ،اگر وہ دنیا کمانا چاہتے تو آسانی سے دنیا ان کے قدموں میں ہوتی۔
یہ اسی دستر خوان کی برکت اور اسی کی کرامت ہے۔
آج حضرت کے انتقال کے ٢٢/ سال بعد بھی انکےتربیت یافتہ افراد اسی خصوصیات پر قایم ہیں۔ میں مہمان خانہ میں بیٹھا ہوں اور حضرت مولانا علی میاں کی یاد آتی چلی جارہی ہے۔میرے قلب کی عجب کیفیت ہے,مجھے کیا ہوگیاہے کہ رک رک کر میری آنکھیں بہنے لگتی ہیں۔دل کی تپش نے بے چین کررکھا ہے
کیسی محبت تھی حضرت میں،تعلق و رشتہ کو نبھانا تو کوئ آپ سے سیکھے،عالم اسلام کا عظیم مفکر اور اتنا سادہ۔
حضرت مجھ سے محبت کرتے تھے،اس لۓکہ میں مولانا سید نظام الدین کابیٹاہوں،ندوہ پڑھنے کے زمانہ کی بات ہے،حضرت کےپاس ایک دو روز نہ جاسکا،حضرت پریشان ہوگۓ،مجھے تلاش کرنے لگے اورپھراتنا بے چین ہوۓکہ عصر کی نماز میں مسجد کے مایک سے اعلان کروادیا کہ عبدالواحد آکر ملیں۔
میں بھاگاآیا،حضرت نے فرمایا: کہاں تھے؟ دو دن سے ملے نہیں۔آہ رے محبت۔
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی،نظر میں اب تک سماں رہے ہیں۔یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں،،یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
میں حضرت کا پیردبانا چاہتا تو فورا حضرت پیر سمیٹ لیتے اور بڑی لجاجت سے فرماتے: نہیں نہیں یہ لو ہاتھ دابو،پیر نہیں۔اللہ اکبر۔
تعلق والوں کے عزیزوں سے شفقت، خاندان کے ایک فرد کی طرح کرتے تھے۔
طالب علمی کے زمانہ میں بہار کا ایک بچہ پڑھتاتھا،حضرت بہت مانتے تھے،ایک دن وہ بچہ مہمان خانہ گیااور کچن میں رکھی مٹھائی کھانے لگا،باورچی ڈانٹنے لگا،یہ آواز حضرت کے کمرے میں چلی گئ،حضرت لنگی میں تھے،اسی حال میں دوڑے آۓاورباورچی کو ڈانٹ کر فرمایا:ہاں یہ کھاۓگا،کھاۓگا،اس کا حق ہے کھائے گا ۔
مرے دیدہ تر کی بےخوا بیاں۔مرےدل کی پوشیدہ بےتابیاں۔مرے نالۂ نیم شب کانیاز۔مری خلوت و انجمن کاگداز
یہ انداز محبت ہزاروں کے ساتھ تھا،سب سمجھتے ہم ہی پیارے ہیں۔
حضرت مولانا کی ساری صفات حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی میں منتقل ہوگئ ہے۔آپ کی محبت کےبھی ہم لوگ گھایل ہیں،اس کبر سنی میں روزانہ سیکڑوں افراد و شخصیات سے ملنا،آسان کام نہیں، پھرسب سے محبت و عاجزی کے ساتھ،بچوں کو ٹوفی دینا،تعلق والوں کو جاتے وقت تحفہ دینا،ایک دروازہ سے تحانف آرہے ہیں اور دوسرے دروازہ سے تقسیم کیۓ جارہے ہیں۔
یہاں کوئ تکلف نہیں،نہ سفارش نہ پوا،نہ شخصیت کا ہوا،تکلفا تواضع نہیں فطرت میں تواضع۔
مجلس کی روحانیت کا عالم نہ پوچھیں۔احترام،اکرام، بے تکلفی،ہمدردی و خیر خواہی کامنظر۔ نہ بدگوئ نہ شکوہ،نہ غیبت نہ بد گمانی،نہ تجسس نہ جاسوسی،نہ علم کی برتری کا احساس نہ نسبت و تقوی کی برتری کا اظہار،تربیت یافتہ افراد ہر شعبہ میں،ذمہ داروں سے نہ کوئ بے زار،اور نہ ذمہ داری سے راہ فرار،ٹیبل کرسی،کلاس، ہرجگہ سادگی،افراط وتفریط سے دوری،نہ چاپلوسی کا گذر نہ مبالغہ آمیزی کا ہنر۔ہر رنگ میں ہے اسی دسترخوان کا رنگ۔
ایک خاص بات جو میں نے برابر دیکھی اور آج بھی دیکھا، وہ ندوہ کا قرآن سے تعلق، اساتذہ و کارکنان میں قرآن کی تلاوت کا مزاج ۔سامنے رجسٹر، فایل بھی اور قرآن مجید بھی،ایک ذرہ موقعہ ملا پڑھ لیا ،آج سے ٤٥/ سال قبل جامعہ رحمانی مونگیرمیں طالب علمی کے زمانہ میں ایک اخبار کےصفحہ پر ایک مضمون میں پہلی دفعہ حضرت کی تصویر دیکھی تھی، مضمون میں لکھا تھا کہ یہ وہ مولانا علی میاں ہیں جن کی چالیس سال سے نماز کی جماعت نہیں چھوٹی۔ پڑھ کر حیرت ہوئی تھی،پھر ندوہ آکر جب حضرت سے قریب ہوا تب سب کچھ آنکھوں دیکھا۔تہجد کا معمول جو اس وقت دیکھا آج بھی وہی معمول ہے۔اپنی پچاس سالہ زندگی میں حضرت مہتم صاحب کو پابندی سے روزانہ نماز کےبعد تھوڑی دیر قرآن کی تلاوت کرتے دیکھا۔آج تک وہی پابندی ہے۔حضرت مولانا واضح رشید صاحب کا یہی حال رہا،ان کی آنکھ کمزور ہوگئ تو بھی پابندی سے قرآن پڑھواکر روزآنہ سنتے ، انتقال کے وقت کہا : جلدی سے قرآن پڑھو ۔بیٹے مولانا جعفر قرآن پڑھتے رہے اور روح پر واز کر گئ،
یہی حال حضرت علی میاں کا ہوا، سورہ یسین پڑھتے پڑھتےروح نکل گئ،آہ کیا خاتمہ ہوا۔مو لانا عبداللہ حسنی سفر میں بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کااہتمام کرتےتھے۔مولانا حمزہ حسنی نے ندوہ پراپنی پوری زندگی قربان کردی اور کبھی کوئ تنخواہ نہ لی۔
حضرت مولانا نےیہ دینی مزاج سب میں پیداکردیاتھا۔چپراسی، گارڈ،باورچی,منشی،کلرک،ڈرایور،خدام سب میں۔
دانشور،سیاست داں،افسران کی تربیت اسی دستر خوان کے توسط سے ہوئ ۔وعظ وتقریر سے کم۔حضرت نے پہلے خود اپنا عملی نمونہ پیش کیا۔پھرخطوط،انفرادی ملاقات،شخصی محنت اوربزرگوں،ولیوں کی سیرت و سوانح واقعات و مشاہدات کو ذریعہ بنایا۔ہندوستان ہی نہیں ،عالم عرب،یورپ،افریقہ و ایشیاء میں اپنے تربیت یافتہ افراد کو بیٹھاکر ان سے کام لیا۔علی میاں لا ولد تھے،مگر ہزاروں شاگرد ان کی اولاد سے کم نہیں۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں
کون بتاۓاور کیسے سمجھاۓ کہ افراد سازی کاکام بڑااہم کام ہے،تربیت یافتہ جماعت بڑاقینتی سرمایہ ہوتی ہے،وسایل کوئ چیز نہیں،اصل ہیں رجال کار۔
جن اداروں میں افراد سازی پرتوجہ نہ دی گئ، کچھ سالوں بعد ان کی جڑیں سوکھنے لگیں، پتے پیلے پڑ گۓاور پودے مرجھا گئے ۔
اسی طرح اداروں،تحریکوں کی پالیسی ہمیشہ پاکیزہ ہونی چاہیۓ،اور پاکیزہ پالیسی کا انحصارذمہ داروں کی روح کی پاکیزگی میں ہے۔آج جسم و کپڑوں کی طہارت کاتو ہم خیال رکھتےہیں پردل و دماغ کی طہارت کا خیال نہیں رکھتے۔پاکیزہ پالیسی کا مطلب کسی طرح کی عصبیت کا نہ ہونا ہے،صرف ذات برادری،ومسلک مشرب کی عصبیت ہی نہی ہوتی،عصبیت نسبت و طریقت،فکر و خیال کی بھی ہوتی ہے۔گوشت،خون کی بھی ہوتی ہے،جو اقرباپروری اور احساس برتری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔پھر احساس برتری کی بھی کئ شاخیں پھوٹتی ہیں۔علمی برتری،نسبی برتری،حلقہ احباب کی برتری،یہاں تک کہ تقوی کی برتری بھی انگڑاءیاں لینے لگتی ہیں۔
میرے والد مولانا سید نظام الدین رحمہ فرماتے تھے۔ذمہ داران وکارکنان کےاخلاقی زوال سے اداروں کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔
افسوس اس سلسلہ میں ہماری طرف سے غفلت ہورہی ہے۔
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں۔نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں۔