حجاب کے سلسلے میں کر نا ٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ افسوسناک : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
یہ بھی پڑھیں
- سکشمتا – 2 کا رزلٹ ڈاؤن لوڈ کریں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
نئی دہلی : ۱۵ / مارچ ۲۲۰۲ء ۔کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے سلسلے میں جو فیصلہ دیا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے مغائر ہے عدالت کا یہ فیصلہ دستور کی دفعہ 51 کے بھی خلاف ہے جو مذہب نسل ، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے ۔ جواحکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں ، اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے ، اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے اگر کوئی اس حکم پر مل نہ کرے تو وہ اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا ہے لیکن وہ گنا ہگار ہوتا ہے اس وجہ سے یہ کہنا بالکل درست اور صحیح نہیں کہ حجاب اسلام کا لازمی و ضروری حکم نہیں ہے ۔
ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے اخباری بیان میں کیا ۔
مولانا خالد سیف اللہ نے مزید کہا کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکام میں تساہل سے کام لیتے ہیں جیسے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور روز نہیں رکھتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں ، پھر یہ کہ اپنی پسند کا لباس پہنا اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصے کو چھپانا اور بعض حصوں کو کھلا رکھنا ہر شہری کا دستوری حق ہے اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی غیر مناسب ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
आरबीआई ने पेटीएम पेमेंट्स बैंक को नए खाते खोलने से रोककर झटका दिया।
انہوں کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہ موجود ہیں ، اور بہت سے مواقع پر وہ اپنی مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے ہیں خودحکومت بھی بعض مذہبی فرقوں کے لیے ان کی خصوصی علامتوں کو استعمال کی اجازت دیتی ہے ، یہاں تک کے ان کے لیے ہوا بازی کے قانون میں ترمیم بھی کی گئی ہے ایسی صورت حال میں مسلمان طالبات کو حجاب کے استعمال سے روکنا مذہب کی بنیاد پر تفریق کی شکل قرار پائے گی ،
پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یونیفارم مقر رکر نے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکولوں کا نہیں کالج کا تھا ، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا ، آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ اس فیصلے پر گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کرتا ہے اور وہ جلد ہی اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گا اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کرے گا ۔
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!