حافظ مجیب الرحمٰن – ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
تحریر : ساجد حسن رحمانی ، ویشالوی فاضل دارالعلوم دیوبند، یوپی
یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں فانی ہیں، یہاں جو بھی آیا ہے وہ جانے ہی کے لئے آیا ہے ؛ جیسا کہ ہم شب وروز اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ؛ لیکن جو لوگ اپنی دنیاوآخرت بنانے اور سنوارنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی دنیاوآخرت بنانے میں بھی اپنی بساط بھر کوشاں رہتے ہیں،اپنی زندگی اللہ کے حکم اوررسول اللہ کی ہدایت کے مطابق گزارتے ہیں اور خود کو اخلاق نبویﷺ سے آراستہ کرکے لوگوں کے دلوں میں جگہ پالیتے ہیں , وہ کتنی ہی عمرِ طویل کیوں نہ پائیں ، ان کی موت قبل ازوقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے ، ان کے چلے جانے سے صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ بہت سے دل بھی روتے ہیں اور مدت ہائے دراز تک روتے اور سسکتے رہتے ہیں ، میرے دادا محترم حافظ مجیب الرحمن صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) سابق استاذ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ،ویشالی، بھی ان ہی اشخاص میں سے ایک تھے ، چنانچہ جب 2019ء/میں 10/ جولائی بدھ کے دن 8/بجکر30/ منٹ پر ان کی وفات کی خبر بجلی کی طرح پھیلی ، تو پورے علاقہ میں ،آپ کے محبین ومعتقدین اور ان تمام لوگوں کے درمیان ( جن کا آپ سے تھوڑا بہت بھی تعلق تھا) کہرام سامچ گیا اور ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ ایک مبارک سایہ سر سے اٹھ گیا اور وہ ایک ایسے مخلص سرپرست اور رہبر سے محروم ہوگئے جو حوصلہ شکن اور نامساعد حالات میں ان کے حوصلے کو مہمیز کرتاتھا اور ان کے لیے بڑاسہاراتھا-
ولادت باسعادت
دادا جان کی پیدائش بہار کے مردم خیز ضلع "ویشالی ” کے ایک دورافتادہ گاؤں کا واڈیہہ, محلہ فتح پور کاوا میں 21/ستمبر 1942ء میں ہوئی ,آپ سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے ;اس لیے دادیہال اورنانیہال دونوں جگہوں میں سب سے زیادہ لاڈ وپیار آپ ہی کے حصہ میں آیا- آپ کے والد ماجد کانام محمد عبدالجلیل تھا جو کشادہ نفس، فراخ طبیعت ،خوش مزاج، خوش اخلاق ,ایماندار اور غیرت وحمیت کا مجموعہ تھے۔
تعلیم وتربیت
آپ نےجب ہوش سنبھالا اور کچھ شد بد پیداہوئی تو والد ماجد نے آپ کے چچازاد بھائی علاقہ کے مشہور ومعروف حافظ جناب عبدالحکیم صاحب مرحوم سابق استاذ مدرسہ محبوبیہ چین پور بنگرہ ،مظفرپور ، سے رسم بسم اللہ خوانی کروائی ،آپ نے ناظرۂ قرآن مکمل اور اردو کی چھوٹی چھوٹی کتابیں انہیں سے پڑھی ، اس کے بعد آپ کے والد ماجد نے آپ کو مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور ، بہار بھیج دیا ، جہاں آپ نے حفظ قرآن ودور مکمل کیا ،مدرسہ ہذا میں آپ مولانامحمدادریس صاحب گڑھولوی اور مولاناجمیل احمدصاحب رحمھما اللہ کی تربیت میں رہے ,حفظ ودور کی تکمیل کے بعد, عربی تعلیم کے حصول کے لیے ضلع کے ام المدارس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں داخلہ لیا اور مولوی تک تعلیم حاصل کی ،یہاں آپ نےحضرت مولانا شمس الحق صاحب سابق شیخ الحديث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر اور مولانانعیم صاحب رحمھمااللہ سے بھر پور استفادہ کیا -آپ کے ساتھیوں میں قاری نسیم احمد صاحبؒ سابق نائب مہتمم مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور ,مولانا عبدالجبار صاحبؒ ,سابق استاذ مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور اور مولانا مظاہر عالم قمر شمسی سابق پرنسپل مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں – معاشی تنگی اور بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری آپ پر آپڑی، اس لیے مولوی سے آگے کی تعلیم آپ جاری نہیں رکھ سکے ، جس کا افسوس تادمِ حیات باقی رہا ۔
درس وتدریس اور مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں تقرری
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے مختلف گاؤں اور شہروں میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیئے ، کچھ ماہ کے لئے تجارت کا پیشہ بھی اپنایا ، لیکن درس وتدریس سے اس درجہ قلبی لگاؤ اور محبت تھی کہ دورانِ تجارت آپ مضطرب وبے چین اور بارگاہِ ایزدی میں سربسجود دعا گو رہتے کہ خدایا خدمت دین کے لئے کوئی مناسب جگہ مل جائے ، چنانچہ پروردگار نے اس طالب صادق کی دعا قبول کی اور مادر علمی مدرسہ احمدیہ اَبابکر پور کے اساتذہ نے مدرسہ ہٰذا میں تدریس کے لئے آپ کا انتخاب کیا، آپ نے اس انتخاب اور پیش کش کو خوشی خوشی قبول کیا اور 15/فروری 1971ء میں وہاں بحیثیت ِ استاذ مقرر ہوئے اور 33؍ سال تک انتہائی عرق ریزی ، جانفشانی ، دلسوزی اور جاں گدازی سے ہزاروں نونہالانِ امت کو زیورِ علم سے آراستہ کیا جو بعد میں افقِ کائنات پر علم کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے،سرکاری ضابطہ کے مطابق 30ستمبر/2004کو مدرسہ احمدیہ سے ریٹائر ہوگئے –
یکتائے زمن استاذ
آپ ایک رسمی مدرس نہیں تھے جو اوقات درس کا پابند ہوتاہے اور خارج اوقات پڑھنے پڑھانے کو ایک بار محسوس کرتاہے؛بلکہ وہ حقیقت میں تعلیم وتعلم کے ہی آدمی تھے – وہ انتہائی تندہی ,چاق وچوبندی ,یکسوئی اورجانفشانی کے ساتھ شب وروز کااکثر حصہ پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے اور اسی میں انہیں مزہ بھی آتاتھا , راقم نے جوکچھ خامہ فرسائی کی ,یہ صرف سنی ہوئی بات نہیں ہے؛بلکہ اس نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھاہے -چنانچہ 2002 ء کی بات ہے(جب راقم وہاں درجہ اطفال کا طالب علم تھا)اس وقت آپ کی عمر عزیز کافی ہوچکی تھی ,قوی کمزور ہوگئے تھے اور اعصاب جواب دے رہے تھے؛لیکن اس کے باوجود دیکھتا کہ خارج اوقات درس مثلا فجر بعد ,مغرب بعد یاکبھی عشاء بعد درسگاہ یا مسجد میں بیٹھ جاتے تھے ,کوئی طالب علم آتا اوردعایاکلمہ سناتا ,کوئی آتااور درس میں پڑھاہوا عربی یا فارسی کا سبق یادکرتا اور سمجھتا تھا -یہ کسی ایک دن کی بات نہ تھی؛بلکہ روزمرہ کامعمول تھا-
آپ جہاں ایک منفرد استاذ تھے ,وہیں دوسری طرف ایک مثالی مربی اور ذرہ نواز بھی تھے ,آداب وسنن اورمستحبات طلبہ کو بتاتے , سکھاتے اوراپنانے کی حددرجہ تلقین کرتے تھے ,جو طالب علم ان مذکورہ باتوں پر عمل کرتا ,اس سے بے حد محبت کرتے ,اس کی تعریف کرتے تھے۔لاپرواہ اور نہ ماننے والے طلبہ کو پہلے پیار ومحبت سےسمجھاتے ,پھر بھی اگر وہ خود کو نہ بدلتاتو معمولی سرزنش کرتے اورایسے طالب علم کے والد کی جب مدرسہ آمد ہوتی تو اس کے والد کے سامنے اس کی شکایت کردیتے تھے؛لیکن زیادہ مارنے یاسرزنش کرنے کے نہ تو وہ قائل تھے اور نہ ہی اس پر عامل -نیز بااخلاق ,باادب , شریف النفس اور محنت سے پڑھنے والے طلبہ کی اس قدر حوصلہ افزائی کر تے کہ انہیں یقین ہوجاتا کہ وہ اتنے بڑے بن سکتے ہیں اور اتنا کچھ کرسکتے ہیں جتناکہ ماضی میں بہت کم لوگ کرسکے ہیں -غرضیکہ تعلیم وتربیت کے میدان میں آپ کی اس انتھک کوشش کی وجہ سے طلبہ کے مابین لیل ونہار آپ کے درس اور تریبت کا بھی تذکرہ رہتا تھااور وہ درس وتدریس اور عمومی تربیت کے حوالے سے آپ کی بے نظیر صلاحیت اور انفرادیت کا جس خلوص اور محبت سے تذکرہ کرتے ,کہ اب اگرمیں ان بھولی بسری یادوں کو نوک قلم پر لانا چاہوں تو یہ میرے لیے ناممکن ہے؛گویاآپ شاعر کے اس شعر کے مکمل مصداق تھے۔
پھونک کر اپنے آشیانے کو
بخش دی روشنی زمانے کو
اولاد کی تعلیم وتربیت کے تئیں فکر مندی
دادا جان اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے تئیں بھی ہمیشہ کوشاں اور فکر مند رہتے تھے اور وہ ان کو سستی ، کام چوری ، عافیت طلبی، لہو ولعب اور دیگر غیر ضروری امور میں مشغول دیکھ کر آگ بگولا ہوجاتے تھے اور ہمیشہ یہ نصیحت بھی فرماتے کہ دنیا میں عیش کوش ,سہولت پسند, عافیت طلب اور محنت سے جی چرانے والے لوگ اپنی کوئی شناخت قائم نہیں کرسکتے -مدرسہ کی قلیل تنخواہ کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے معاشی تنگی کا سامناتھا؛لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی اولاد کو اعلی تعلیم اور اعلی ڈگریاں دلوائیں -نبیروں میں وہ میری تعلیم کے تئیں کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے ,کیوں کہ ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ میں ایک باعمل عالم بن کر اپنے گھر اور خاندان کی دینی وعلمی روایات کو برقرار رکھ سکوں -اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے ان کی اس آرزو کو پوری کردے -آمین ثم آمین یارب العالمين
خاندان ورشتہ دار کے مرد وخواتین کی اصلاح کے تعلق سے فکرمندی
دادا جان پرانی قدروں کے پاسدار ,اسلامی تہذیب وثقافت کے علمبردار,کبر وعجب سے کوسوں دور،عزلت نشینی کے عادی اور شرافت وشائستگی کی جیتی جاگتی تصویر تھے -ان کادل عشق کی لپٹ ,ایمان کی حرارت، یقین کی صلابت اور عشق رسولﷺ وحب الہی سے معمور تھا , انگریزی تہذیب کی شیشہ سازی ,مکربازی اور سحرکاری سے خوب واقف تھے؛ اس لیے انہیں یورپی کلچر وثقافت سے سخت نفرت تھا -داداجان جس طرح خود ان اوصاف سے متصف اور رذائل سے عاری تھے اسی طرح وہ رشتہ داروخاندان کے مردوخواتین کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ موقع بموقع آپ انہیں دین کی باتیں بتاتے ,اخلاق نبویﷺ سے خودکو آراستہ کرنے کو کہتے شریعت وسنت اور خیر واصلاح کی راہ اپنانےکی ترغیب دیتے، غیبت، چغل خوری، جھوٹ، حسد، کینہ، بغض، دشمنی، دھوکہ دہی، دشنام طرازی اور کدورت وعداوت جیسے صفات رذیلہ سے مکمل اجتناب کی تلقین کرتے تھے –
عام لوگوں کے لیے ایک مخلص سرپرست
دادا جان جہاں ایک طرف شاگردوں اور اولاد کے لئے بمنزلۂ عبقری معلم، جلیل القدر مربی اور بے نظیر مصلح تھے تو وہیں دوسری طرف مدرسین اور عام لوگوں کے لئے حقیقی غمخوار،غمگسار اور ہمدرد کی حیثیت سے تھے، چنانچہ وہ دوسروں کے دکھ درد،پریشانی ومصیبت اور خوشی ومسرت میں شریک ہوکر غم کاازالہ اور خوشی کو دوبالا کرنے کوشش کرتے , جس کی وجہ سے اساتذۂ مدرسہ ، طلبۂ مدرسہ اور گاؤں کے بھی کچھ لوگ ہر خوشی وغم میں آپ سے ضرور ملتے اور آپ کے طویل تجربات اور مفید مشوروں سے مستفید ہوتے تھے-
معاملات کی صفائی
اکثر دیکھنے میں یہ آتاہے کہ ایک انسان باشرع اور فرائض کاپابند ہی نہیں ؛بلکہ نوافل کاعادی اور تہجد گزاربھی ہوتاہے ,لیکن جب اس سے لین دین کا سابقہ پڑتاہے تب معلوم ہوتاہے کہ وہ معاملات میں کتناکمزور ہے ؛مگر دادا مرحوم معاملات میں بہت ہی محتاط تھے ،یوں تو آپ پریشان کن حالات میں بھی قرض لینے سے بچنے کی بھر پور کوشش کرتے اور جو روپیہ ,پیسہ موجود ہوتااسی سے ضرورت وحاجت پوری کرنے کی کوشش کرتے ہاں اگر کبھی قرض لیے بغیر کام ناممکن ہوجاتاتو قرض لیتے ،یادرکھتے اور جلد اداکرنے کی سعی کرتے اور ادابھی کردیتے تھے ,یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ حافظ مجیب الرحمن صاحب کے ذمہ میرا پیسہ یاکسی قسم کاکوئی حق باقی ہے –
پسماندگان :
آپ کو اللہ نے چھ صاحبزادے اور تین صاحبزادیوں سے نوازا ,جن میں سے ایک صاحبزادی کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا ,باقی کی تفصیل حسب ذیل ہیں –
ماسٹر محمد آل حسن جو راقم کے والد ماجد ہیں : آپ کی پیدائش 16/جولائی 1965ء کو ہوئی ,ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں اور والدہ ماجدہ سے حاصل کی، متوسطات کی تعلیم مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں پائی،اعلی تعلیم کے لیے مدرسہ رحمانیہ سپول کاسفرکیا اور وہاں سے عالمیت اور اسلامیہ عربک کالج برہمپورہ سے فضیلت مکمل کی ,دینی تعلیم سے فراغت کے بعد عصری تعلیم کا شوق پیداہوا؛چنانچہ نتیشورکالج مظفرپور سے بی اے ,بہار یونیورسٹی سے ایم اے اور گورنمٹ کالج سمستی پور سے بی ایڈ کیا -4/جولائی 1994 ء کو شری سنکر ہائی اسکول رسولپور میں آپ کی تقرری ہوئی ,پھر 21/دسمبر 1994 ء کو ہائی اسکول گلاب رائے ببھنا ,شاہ پور پٹوری منتقل ہوگئے اور پھر 13/جنوری 2007 ء میں وہاں سے 2+10 ہائی اسکول پوسا بدلی کراکر آگئے ,جہاں فی الوقت ہیڈ ماسٹر کے عہدہ پر فائز ہیں ,آپ سادہ طبیعت کے مالک , بااخلاق، متواضع، حلیم، ملنسار، نرم خو، غیور، کم گو، قول وفعل میں یکساں، حرص وطمع سے کوسوں دور، مہمان نواز، شیریں زبان اورصحیح اسلامی عقائد کے حامل ہیں، گالم گلوج اور لڑائی جھگڑاسے آپ کوسخت نفرت ہے,خود بھی لوگوں سے امن ومحبت اور پیار وخير سگالی کی باتیں کرتے ہیں اور انہیں بھی اس کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔دھوکہ, دہی فریب کاری اور مکربازی سے تو قطعا ناآشناہیں ,اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ان لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں ,جو آپ سے لین دین کا معاملہ کرچکے ہیں یا کرتے رہتے ہیں۔ میری دلی دعاہےاور آپ لوگ بھی دعاکریں کہ اللہ میرے والد ماجد کو صحت وعافیت کے ساتھ عمرنوح عطافرمائے,آمین۔
فیروز عالم :آپ کی پیدائش 1968ء میں ہوئی، قاعدہ بغدادی ,ناظرۂ قرآن اور اردو کی ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ اورگاؤں کے مکتب میں حاصل کی ,پھر والد مرحوم کے ساتھ ابابکر پور چلے گئے اور وہاں وسطانیہ تک تعلیم حاصل کی ,بنیادی دینی تعلیم کے حصول کے بعد عصری تعلیم لیے اسکول میں داخل ہوئے اور وہاں سے میٹرک تک تعلیم پائی ،انٹر کی تعلیم ایل ایس کالج مظفرپور سے ,بی اے اور ایم اے کی تعلیم بہاریونیورسٹی مظفر پور سے حاصل کی -تعلیم سے فراغت کے بعد بزنس سے جڑگئے اور تاحال منسلک ہیں – دینی ,ملی ,سماجی ,معاشی اور فلاحی کاموں میں بھی بہت پیش پیش رہتے ہیں ,جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں بستے ہیں ,اسی لیے 16 سال سے لگاتار وارڈ ممبر ہیں ,10 سال نائب مکھیا کے عہدہ پر بھی رہے ہیں۔
اللہ رب العزت صحت وسلامتی کے ساتھ عمردراز عطافرماۓ,اخلاص کے ساتھ تادم حیات قوم وملت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو ذریعۂ نجات بھی بنائے -آمین
سید حسن بنیادی دینی وعصری تعلیم سے آراستہ ہیں اور کاشتکاری میں لگے ہوئے ہیں۔
مظفرحسن آپ ڈاکٹر ہیں اور شب وروز مریض کے علاج میں مشغول رہتے ہیں۔
منظرحسن ڈپلوماانجینئر ہیں اور بزنس کو ذریعۂ معاش بنائے ہوئے ہیں۔
انظر حسن بی اے انگلش آنرس ہیں، ایماندار اور سچاتاجر بن کر خلق خدا کی ضرورت پوری کررہے ہیں۔
صاحبزادیاں :
صالحہ خاتون شادی شدہ ہیں اور صاحب اولاد ہیں –
رشیدہ خاتون بھائی ,بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں ,شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں –
مدرسہ احمدیہ اور وہاں کے اساتذہ سے بے پناہ قلبی محبت
آپ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ مدارس کے دینی واسلامی ماحول اور اولیاء اللہ کی صحبت میں گذرا، جس کی وجہ سے آپ کا دل مدرسہ کی محبت سے ایسا سرشار تھا کہ اس کی تصویر کشی نہیں کی جاسکتی ، چنانچہ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب 2004ء میں سرکاری قانون کے مطابق وہاں سے ریٹائر ہوکر گھر آگئے ، تو مدرسہ اور وہاں کے اساتذہ کے فراق میں تڑپاکرتے، آپ جہاں بھی رہے، جس حال میں بھی رہے ، مدرسہ کے اساتذہ اور خاص طورپر مفتی محمد ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی ، مولانا مظاہر عالم صاحب شمسی ، مولانا رئیس اعظم صاحب سلفی , مولانا قاسم صاحب مظاہری ،مولانا آفتاب عالم صاحب مفتاحی، ماسٹر سعیداحمد صاحب ، مولانا نظیر عالم صاحب ندوی، مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ، مولانا عبدالمجید صاحب،مولانا شمیم صاحب شمسی اور قاری محمد اخلاق صاحب کے ذکرِ خیر میں شب وروز رطب اللسان رہے اور یہ سلسلہ تادمِ حیات باقی رہااسی طرح قاری محمد اخلاق یا وہاں کے کوئی دوسرے استاذ یا ابا بکر پور گاؤں کا کوئی بھی فرد آپ کے دولت کدہ پر تشریف لاتا تو آپ کو ان سے مل کر ناقابل بیان خوشی ہوتی اور پھر مدرسہ کے اساتذہ اور گاؤں کے اہل دل لوگوں کا تذکرہ خوب دلچسپی اور انتہائی فرحت وشادمانی کے ساتھ کرتے اور گھنٹوں کرتے رہ جاتے ، میں نے بہت سارے عالموں کو دیکھا ، لیکن اس درجہ علماء اور مدارس سے عشق بہت کم لوگوں میں پایا ۔
دادا جان کی زندگی سے جہاں بہت سارے اسباق ملتے ہیں ان میں سے ایک بڑا سبق یہ ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ توکل علی اللہ پر قائم رہ کر ,صبر کا دامن مضبوطی سے تھام کر اور ذوقِ عمل سے سرشار ہو کر حالات کا مقابلہ کرے اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے پر ہیز کرے ، چنانچہ آپ نے اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصہ معاشی مشکلات میں گذارا، لیکن ان کے احوال وحالات سے اس کا اندازہ کرنا دشوارہوتاتھا اور حالات خواہ کیسے بھی ہوں مجال نہیں تھی کہ لوگوں کے سامنے اپنی دشوار یوں کا ذکر آجائے۔
خلاصہ یہ کہ دادا مرحوم بہت سی خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ تھے، آپ کی زندگی کے کئی پہلو نصیحت آموز ،قابل تقلید اور مشعل راہ ہیں، ان کے ذریعہ زندگی کےہر موڑ پر رہنمائی ملتی رہے گی۔