ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ ادبی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ نے گریجوئیشن تک کی تعلیم سائنس سےحاصل کی ہے ۔ اسکے بعد آپ نے میڈیکل سائنس میں اپنی دلچسپی دکھاتے ہو D .H .M .S کی سند حاصل کی اور باضابطہ طور پر اس وقت کلکتہ میں پریکٹس کر رہی ہیں ، اور الحمداللہ آپ کے علاج سے سینکڑوں مریض شفا یاب ہو رہے ہیں ۔ آپ کا میدان سائنس رہا ہے باوجود اسکے آپ کی محبت اردو مثالی ہے ۔ آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں اس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں ۔ آپ کے مضامین ہندوستان کے تمام مشہور و مقبول اردو روزنامہ ، ویبسائٹ ، پروٹل اور رسائل میں مستقل شائع ہو رہے ہیں ۔ آپ کی خدمت اردو کا دائرہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے ۔ آپ کے مضامین بیرونی ممالک پاکستان ، جاپان اور انگلینڈ کے ویبسائٹ میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ کا مطالعہ بہت ہی وسیع ہے ۔ آپ نے جہاں ایک جانب مشہور و معروف شخصیات جیسے علامہ اقبال ، مرزا غالب ، مولانا ابوالکلام آزاد ، کلیم عاجز کو اپنے تحریر کا موضوع بنایا ہے وہیں آپ نے نئ نسل کے قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
زیر مطالعہ کتاب ” تعلیم اور کرئیر ” ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ کے مضامین کا مجموعہ ہے جو کہ ٢٠ مضامین پر مشتمل ہے ۔ پیش لفظ میں محترمہ لکھتی ہیں :
” مسلم طلبا اور طالبات کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کرنا ، تعلیم نسواں کو فروغ دینا ہی عصر حاضر کا تقاضا ہے۔ اور یہی زبان حال کی پکار ہے ۔ اس میں کوئ دو راۓ نہیں کہ اعلی تعلیم سے ہی کامیابی اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچا جا سکتا ہے ۔
پرواز دونوں کی ہے اسی ایک فضا میں
شاہین کا جہاں اور ہے کرکس کا جہاں اور
اسی تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوۓ ذہن میں ہر لمحہ یہ خمار اٹھ رہا تھا کہ ایک ایسی کتاب کی تشکیل کی جاۓ جس سے نوجوانان وطن اور ان کے والدین فیضیاب ہو سکیں ” (صفحہ ۔ 6)
” عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں ” اس مضمون میں محترمہ نے بہت ہی قیمتی آراء پیش کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ خدا نے انسان کو سوجھ بوجھ ، عقل و فہم ، ذہن و فراست عطا کیے ہیں جو دوسرے مخلوق کو حاصل نہیں۔ جانور اور انسان کو جو خوبی ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ ہے تعلیم ” (صفحہ 9)
"آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ” اس مضمون میں بھی محترمہ کا درد مسلمانوں کے حالات کو بخوبی عیاں کرتا ہے ۔ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ :
” سول سروس کے امتحانات میں ١٩٣٠ امیدوار منتخب ہوۓ جس میں محض ٣٠ امیدوار مسلم ہیں ۔ یہ تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ مزید آگے لکھتی ہیں کہ :
آج مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے درمیان نہیں جنہوں نے اپنے اخبار ” الہلال ” اور البلاغ ” کے ذریعہ قوم کی رہنمائی کی اور جو ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئ ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے قیمتی زندگی کا ایک حصہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اور ان میں شعور پیدا کرنے کے لیے صرف کیا ۔ اقبال نے ہی کہا تھا :
” نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ”
( صفحہ 16)
” تعلیم نسواں کے ذریعہ ہی صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہے ” اس مضمون میں بھی محترمہ لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق سنجیدہ سوچ رکھتی ہیں انہوں نے لکھا ہے :
تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے ۔ زبان تہزیب ، سلیقہ اور شعور تعلیم سے بیدار ہوتی ہے ۔ لڑکیوں کو اعلی تعلیم کی ضرورت ہے ۔ ان کی نمائندگی ہر شعبہ ہاۓ زیست میں بے حد ضروری ہے ۔ خواہ ادب ہو یا سائنس ، میڈیکل سائنس ہو یا انجینئرنگ ، سیاست ہو یا صحافت ، معاشیات ہو یا سماجیات ہر شعبے میں خواتین کی نمائندگی بے حد ضروری ہے ۔ ( صفحہ 55 )
” اعلی تعلیم کے میدان میں چند علمی شخصیات کی نمایاں کارکردگی ” اس مضمون میں بھی چند نمایاں شخصیت کا ذکر کر کے تعلیمی میدان میں ان کی کارکردگی کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جس سے طلبہ استفادہ کر سکتے ہیں ۔ جس میں اہم نام ڈاکٹر گورنگ گو سوامی ، محترم نورالاسلام ، شری ابھیا نند سر ، حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے نام قابل ذکر ہیں ۔
بخوف طوالت یہاں تمام مضمون کے تعلق سے لکھنا ممکن نہیں ہے اس لیے باقی مضمون کے عنوانات آپ حضرات ملاحظہ فرمائیں :
مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ، اردو تعلیم کے بنیادی مسائل اور اسکا حل ، تہزیب گنگ و جمن کی شان ہے اردو زبان ، شیریں زبان اردو :ماضی حال اور مستقبل کے آئینے میں ، مقابلہ جاتی امتحانات میں تبدیلیاں ، ایس ایم ایس لینگوئج کا بے جا استعمال اور مستقبل میں اسکے نتائج ، ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے ، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج برائے خواتین کا قیام ، عالمی یوم دختراں اور تعلیم نسواں ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ، اعلی تعلیم کے میدان میں رحمانی ٣٠ کا اہم کردار ، اساتذہ کرام کی عظیم شخصیت اور ان کا المیہ ، یوم اساتذہ اور رحمانی ٣٠ ، ” زمانہ کیا کہے گا ” کے حوالے سے اہل قلم سید انظار البشر بارکپوری اور نوجوان شاعر – مصطفےٰ غزالی کی عظیم شخصیت – ملت اسلامیہ ” یہ تمام مضامین اس کتاب میں شامل ہیں جسے پڑھ کر استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ یقیناً اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر نازنین صاحبہ ملت اسلامیہ کے موجودہ حالات ، مسلمانوں کی پستی اور علمی میدان میں بد سے بدتر حالت کا درد اپنے سینے میں رکھتی ہیں اور اس کے لیے فکرمند بھی ہیں ۔ اور ان کی اسی سونچ نے انہیں اس کتاب کی اشاعت کے لیے مجبور کیا ۔
ان کے تمام مضامین میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ آخر کے دو مضامین شخصیتپر مبنی ہیں ۔ نئی نسل کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے تمام لوگ اس کتاب کو اپنے بچوں کو پڑھوا کر ان کے اندر حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو اہل علم حضرات قدر کی نگاہوں سے دیکھیں گے ۔ ١٠٣ صفحات پر مشتمل یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی معاونت سے ادیبہ پرنٹرس کولکاتا میں شائع ہوئی ہے ۔ اسکی قیمت صرف ٧٦ ( چھیہتر) روپیہ ہے ۔ اس کتاب کا انتساب محترمہ نے اپنی بہن اور بھائیوں کے نام کیا ہے ۔ اس کتاب میں عمدہ اور معیاری قسم کے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ کتاب کا ٹائیٹل پیج بھی دلکش اور خوبصورت ہے ۔
اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے محترمہ کے موبائل نمبر 9088470916 سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔