تحفط ماحولیات۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
اس کائنات کے وجود اور بقا میں ماحول اور اس کے تحفظ کی بڑی اہمیت ہے،اسی اہمیت کے پیش نظر قدرت نے ہمیں سر سبز وشاداب وادیاں ، خوبصورت پہاڑ، گھنے جنگل،دلکش جھرنے اُبلتے چشمے، بہتی ندیاں اور وسیع سمندر عطا فرمایا ، اور ان ساری چیزوں کو انسان کے لیے ایسا مسخر کیا کہ وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے اور اس کائنات ارضی میں راحت وآرام کے ساتھ زندگی گذارے، ان چیزوں کو قدرتی توازن کا سبب قرار دیا گیا ، لیکن ہم نے اپنی ایجادات سے قدرتی ماحول کو بدلنا شروع کیا، پیڑ کٹنے لگے ، پہاڑ توڑے جانے لگے، سمندر کو پاٹنا شروع کیا اور غلاظت بھری نالیاں ندی کے پاک وصاف پانی میں گرنے لگیں، کار خانوں نے دھوئیں کے غولے فضا میں اڑائے اور اس طرح دیکھتے دیکھتے سارا نقشہ بدلتا چلا گیا اس تبدیلی سے فضائی آلودگی پیدا ہوئی اور قدرت کا بخشا ہوا پاکیزہ ماحول اور توازن ختم ہوکر رہ گیا
جس کی وجہ سے آج دنیا پریشان ہے ، اس فضائی آلودگی نے صرف ایک سال کے عرصے میں جانوروں کی چھتیس نسلیں اور پرندوں کی چورانوے نسلوں کو ناپیدا کر دیا ، عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے جائزہ کے مطابق اس صورت حال سے تین سو گیارہ نسلوں کے ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے، جنگلات دو فی صد سالانہ کے اعتبار سے گھٹ رہے ہیں،ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوزون گیس کی پرت میں شگاف پڑگیا ہے اور سورج کی مضر شعاعیں بلا واسطہ ہم تک پہونچ کر مختلف امراض کا سبب بن رہی ہیں، وہ پانی جس سے تمام چیزوں کو اللہ نے زندگی بخشی، ہم نے اس کی نا قدری کی ،کیونکہ یہ مفت ہمارے ہاتھ لگ گیا ، پانی کی اس اہمیت کا تقاضہ تھا کہ ہم اس کو پاک وصاف رکھتے، آلودہ ہونے سے بچاتے؛ تاکہ وہ ہمارے استعمال کے کام کا رہتا ، ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو، مبادا تمہارے ہاتھ کی گندگی اور رات میں جسم کے مختلف حصوں پر گشت کرنے کی وجہ سے جو جراثیم ہاتھ کو لگ گیے ہوں وہ پانی میں داخل نہ ہو جائیں ، پانی پیتے وقت برتن میں سانس بھی مت لو، تاکہ تمہاری سانسوں سے نکلنے والے جراثیم پانی کو آلودہ نہ کردیں اور وہ دوسرے کے استعمال کے لائق نہ رہے، اسی طرح مشکیزہ ، گھڑا اور دوسرے برتن جس میں پانی رکھا گیا ہے ، اسے کھلا نہ چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ، ہم نے ان تمام ہدایات کو جو ہماری بہترین زندگی کے لیے ضروری تھے پس پشت ڈال دیا ، آج صورت حال یہ ہے کہ پانی کے آلودہ کرنے کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں کرنا چاہتے، شہر کی ساری گندی نالیوں کا رخ آج دریا اور ندی کی طرف ہم نے کر دیا ہے، جس سے پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ آلودہ ہو گیا ہے، مہم گنگا صفائی کی برسوں سے چلائی جا رہی ہے، کروڑوں بلکہ اربوں روپے ا س منصوبے پر اب تک خرچ کیے جا چکے ہیں، لیکن گنگااب بھی میلی ہے اور اس کی میل اور آلودگی کو اس وقت تک دور نہیں کیا جا سکتا ہے، جب تک اس کی معاون ندیوں میں بھی غلاظتوں کو گرنے سے روک نہ دیا جائے، گھر وں کے گندے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی تھی تو پہلے سوختہ بنا یا جاتا تھا ، جو پانی کو جذب کر لیتا تھا ،اور زمین کے اندر جو پانی ہے وہ متاثر ہوتا تھا، لیکن نسبتاً کم غلاظتیں اندر کی سطح تک پہونچتی تھیں ، اب گھروں میں سوختہ کے بجائے سارے گندے پانی کو بورنگ کرکے اسے زیر زمین پہونچایا جا رہا ہے، جس سے زمین کے اندر کا پانی بھی ہمارے استعمال کے لائق باقی نہیں رہا ، ساٹھ فٹ بلکہ اس سے کم پر ہی پہلے پانی پینے کے قابل مل جاتا تھا ، ہمارے اس عمل کے نتیجے میں اب پینے کا پانی ڈھائی تین سو فٹ سے زیادہ گہرائی میں مل رہا ہے، اور وہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ مکمل طور پر صاف اور بیماریوں سے پاک ہے، اس پانی کے نتیجے میں مختلف امراض پیدا ہو رہے ہیں ، اب ہمیں منرل واٹر پر زندگی گذارنی پر رہی ہے، اور پینے کے پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی چاندی ہو گئی ہے ، ہم پانی کے محتاج ہو رہے ہیں، اور اس پر اچھی خاصی رقم ہمیں لگا نی پڑ رہی ہے، ہم اس کا اظہار بھی تقریروتحریر میں کرتے ہیں ؛ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے، اور یہ سارا فساد اور بگاڑ ہم نے اپنے ہاتھوں پیدا کیا ہے
قدرت کا اصول ہمیشہ سے مکافات عمل کا رہا ہے ، ہم نے جیسا کیا اس کا نتیجہ ہمیں بھوگنا پڑ رہا ہے ، آج صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ۱۹۹۲ء میں برازیل کے دار الحکومت میں دوسری عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں پانی کے حوالہ سے سائنس دانوں نے جو نتیجہ اخذکیا ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیجی جنگ کے دوران لاکھوں بیرل تیل نے خلیج عرب کے پانی میں مل کر اس کو ایسا گدلا اور آلودہ کر دیا ہے کہ سمندری جانوروں کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور آبی مخلوقات کی کئی نسلوں کے خاتمہ کا اندیشہ ہے، اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے اور مزید پانی کو آلودہ کرنے کا کوئی نیا سبب نہ پیدا ہو تو اس پانی کو صاف ہونے اور اس بگڑے ہوئے صورت حال پر قابو پانے کے لیے ایک سوا سی برس درکار ہوں گے۔
یہ معاملہ صرف خلیج عرب ہی کا نہیں ہے بلکہ دنیا میں جتنے آبی وسائل ہیں ، ان کا بیش تر حصہ انسانی جسم کے فضلات ، گھروں سے نکلنے والی غلاظتوں ، فیکٹریوں اور کار خانوں کے فضلات کی وجہ سے نہ صرف گندے ہو چکے ہیں، بلکہ ان کا استعمال زندگی کے اختتام کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ وہ زہریلے ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح جنگلات کی حفاظت بھی ضروری ہے، اور جن علاقوں میں پیڑ پودے نہیں ہیں وہاں شجر کاری مہم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ، اسلام نے اس پر اتنا زور دیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کسی کو اتنی مہلت ہو کہ وہ کوئی پودا لگا سکتا ہے تو لگادے، اسی طرح پھل دار درخت کے لگانے کی ترغیب دی گئی اور فرمایا گیا کہ جس نے پھلدار درخت لگایا اور اس کے پھل اور پتے کو انسان وجانوروں نے کھایا تو وہ درخت لگانے والے کے لئے صدقہ ہے۔ ان ارشادات واحکام کو صرف مذہبی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ جان لینا چاہیے کہ جب تحفظ ماحولیات کا تصور آج کی طرح دنیا میں نہیں تھا ، اس وقت بھی اسلام نے اس کو سماجی اور کائناتی مسئلہ سمجھا اور اس کے تحفظ کے لیے مناسب تدابیر بتائیں، آج ان قدرتی وسائل کے ساتھ جو سلوک ہم کر رہے ہیں وہ قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض ہے، ہمیں ہر قیمت پر اس فساد کو دور کرنا ہوگا، اس کے بغیر ماحول کے تحفظ کا ہم کوئی تصور نہیں کر سکتے۔