بے روح روزہ، بے روح عبادت
مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
پورےہجری سال میں رمضان المبارک کا مہینہ اپنی نوعیت کا خاص اور ربانی صفت کا حامل مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ اللہ تعالی کے انعامات میں سے ایک خاص انعام ہے، جس میں ایک ایک نیکی کا ستر سے سات گنا تک اللہ تعالی اپنے بندوں کو ثواب سے نوازتا ہے ۔ اس سے نیکی کی ایسی فضا اور ماحول بن جاتا ہے کہ بندہ کے قلب کا میلان شر کی طرف سے کم سے کم ہو، بلکہ خیر کی طرف زیادہ سے زیادہ ہو ۔ یہ مہینہ خیر و برکت کا مہینہ ہے ایمان و احتساب اور عبادت کا مہینہ ہے ،مسلمان کو مسلمان بن کر اپنے اعمال کو خدا کی خوشنودی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کا مہینہ ہے۔
لیکن یہ مہینہ اس شخص کے لئے خیر و برکت اور رحمتوں کا مہینہ ثابت ہوتا ہے، جو اس مہینہ کی صحیح معنی میں قدر کرتا ہے اور روزہ کو صرف جسم کی حد تک نہیں، بلکہ روح کے ساتھ اس رکن کو ادا کرتا ہے اور اس کے تقاضے اور معیار پر کھرا اترتا ہے ۔ اگر روزہ کو اس کی روح اور شرائط کے ساتھ نہ رکھا جائے تو پھر روزہ دار کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا ۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء ،و کم من قائم لیس لہ من قیامه الا السھر ( سنن دارمی، کتاب الصوم )
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیام لیل کرنے والے وہ ہیں جن کو اپنے قیام لیل سے ،جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔
روزے کی در اصل دو حقیقتیں ہیں یا یہ کہئیے کہ روزے کی دو صورتیں ہیں :
ایک اس کی ظاہری صورت اور دوسری اس کی داخلی صورت اور حقیقت ۔ روزے میں کھانا پینا اور نفسانی خواہشات ترک کر دینا ،یہ روزے کی ظاہری صورت ہے ،اسی طرح رمضان المبارک میں تراویح اور راتوں میں تہجد و نفل اس کی ایک ظاہری صورت ہے ،مگر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے ،جس چیز کا حال یہ ہو کہ اس میں اس کی ظاہری صورت موجود ہو ،لیکن اس کی داخلی حقیقت اور صفت اس میں نہ پائی جاتی ہو تو ایسی چیز کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو ،لیکن اس کے اندر کا مغز اس میں نہ پایا جاتا ہو ۔ یہی فرق ہے حقیقی روزے اور رسمی روزے میں ۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رح اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
علماء کے نزدیک اس حدیث میں چند اقوال ہیں : اول یہ کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر مال حرام سے افطار کرتا ہے کہ جتنا ثواب روزہ کا ہوا تھا اس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہو گیا اور دن بھر بھوکا رہنے کے سوا اور کچھ نہ ملا ۔ دوسرے یہ کہ وہ شخص مراد ہے جو روزہ رکھتا ہے لیکن غیبت میں بھی مبتلا رہتا ہے ،تیسرا قول یہ ہے کہ روزہ کے اندر گناہ وغیرہ سے احتراز نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع ارشادات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ سب صورتیں اس میں داخل و شامل ہیں۔ ( فضائل رمضان )
اس لئے روزے کی حالت میں جھوٹ چغلی غیبت اور تمام برائیوں و لا یعنی چیزوں سے انسان کو بچنا اور پرہیز کرنا چاہئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم یدع قول الزور و العمل به فلیس للہ حاجة فی ان یدع طعامه و شرابه ( رواہ البخاری )
جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غلط بیانی،جہالت و نادانی کے کام ،انسان کو خاص طور پر چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ ان چیزوں کے ارتکاب سے روزے کی روح متاثر ہو جاتی ہے ۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام ہے ،مگر کھانے پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک ہے ۔ روزہ کے مہینہ میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے کو اس مقصد کے لئے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں کو چھوڑ دے ۔ گویا کہ کھانا پینا چھوڑ دینا اگر جسمانی روزہ ہے ،تو برائیوں سے اجتناب روحانی روزہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی کے یہاں روزے کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ۔
اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ والے کام کرتا رہے تو اللہ کو اس کے روزے کی کوئ پرواہ نہیں ۔
علماء نے لکھا ہے کہ روزہ کے مہینہ میں نہ صرف یہ کہ گرمئی افطار روزہ کے مقاصد کے لیے قاتل ہے، بلکہ یہ چیز بھی اس کے حقیقی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کہ آدمی بس بھوکا پڑا رہے ، لوگوں سے قطع تعلق کرلے اور انسانی خدمت اور احسان و سماجی کاموں سے دوری اختیار کرلے اور روزانہ ختم قرآن کا ریکارڈ قائم کرے۔ اس قسم کا کوئی عمل ایک خالص اسلامی عبادت کو عیسائیوں کی رہبانیت کے مقام پر پہنچا دینے والا ہے۔
روزہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی روزہ کی حالت میں ضروری قسم کی ذمہ داریوں کے علاوہ ہر چیز سے اپنے آپ کو فارغ کرلے اور اپنے رب کو راضی کرنے میں لگ جائے، اپنا محاسبہ کرے اور اپنا پورا وقت عبادت اور یاد الہی اور قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھنے میں گزارے، نیز زیادہ سے زیادہ خاموشی سے صدقہ و خیرات کرے اور انسانی ضرورت کے کام آئے۔ روزہ اپنی مخصوص اور متعین شکل میں اگرچہ سال میں ایک ہی بار مطلوب ہے، مگر وہ اصل روح جو روزہ کے ذریعہ پیدا کی جاتی ہے، وہ مومن کا دائمی مطلوب ہے۔ اور وہ ہے رجوع الی اللہ، انقطاع الی اللہ، جسمانی اعتبار سے نہیں بلکہ اصلا حسی اعتبار سے۔ اعلیٰ ایمانی حالت یہ ہے کہ بندہ، خواہ بظاہر کسی کام میں مشغول ہو، قلب و روح کے اعتبار سے وہ مسلسل اپنے رب کی طرف متوجہ رہے۔
وہ ہمیشہ اپنے کو ایک قسم کی روحانی اعتکاف میں رکھے۔ اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے کھوہوں اور جنگلوں میں بسیرا لینے کو کمال ایمان سمجھ لیا۔ حالانکہ کمال ایمان یہ ہے کہ آدمی دنیا کے ہنگاموں میں اپنے فرائض ادا کر رہا ہو مگر اس کا ذھن یاد الہی میں مشغول رہے اور دل خوف خدا سے خالی نہ رہے۔
ایک موقع پر حضرت عبد بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہا، تم اصحاب رسول سے زیادہ روزہ رکھتے ہو، ان سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہو، ان سے زیادہ مجاہدہ کرتے ہو، مگر وہ تم سے بہتر تھے۔ پوچھا گیا کیوں اے ابو عبد الرحمن، جواب۔ وہ دنیا سے انتاہی بے رغبت تھے اور آخرت کے بہت زیادہ حریص تھے۔ (حلیة الاولیاء جو، ١ص ١٣٦/ بحوالہ الاسلام ص،٢٧)